"FBC" (space) message & send to 7575

پھر وہی خون آشامی

معلوم نہیں کیوں انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو صرف مذہب کی بنیاد پر قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ کیوں لسانی اور مذہبی اختلافات کی بنا پرکسی بے گناہ کی جان لیتے ہوئے ‘اُس کے ہاتھ نہیں کانپتے ۔ ایسی قتل وغارت گری کہیں بھی ہو‘ بلاشبہ قابل ِمذمت ہوتی ہے۔کہنے کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تو اس حوالے سے سب کو پیچھے چھوڑ چلی ہے۔ اس سے یکسرپہلوتہی کہ اگر شخصی اور مذہبی آزادیاں محدود ہوں تو پھر ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ؟آسان الفاظ میں تو جمہوریت کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ عوام کی حکومت عوام کیلئے ۔ جمہوریت‘ ایک ایسا طرزِ حکومت جس میں عوام کے فیصلے عوامی نمائندے ہی کرتے ہیں ۔ اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ جمہوری نظام حکومت کسی بھی ملک میں رہنے والی صرف وہاں کی اکثریتی آبادی کے حقوق کا تحفظ کرے گا‘ اگر یہ نظام کسی مسلم اکثریتی ملک میں ہوگا تو جمہوریت صرف مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہی فراہم کرے گی‘اگر یہ نظام حکومت کسی ہندؤاکثریتی ملک میں رائج ہوگا تو صرف وہاں کی اکثریتی آبادی کو ہی تحفظ فراہم کرے گا۔ افسوس کہ آج چند ایک ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر ‘ بیشتر جمہوری ممالک میں اقلیت کش چلن دکھائی دیتا ہے۔ اکثریتی آبادی کی کوشش رہتی ہے کہ اقلیتوں کو دبا کر رکھا جائے اور اس معاملے میں آج کا بھارت سب سے پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔انتہاپسندی کے راستے پر تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے بھارت کے دارالحکومت کو ایک بار پھر مسلمانوں کے خون سے رنگین کردیا گیا ہے۔ شہریت کے متنازع قانون کیخلاف مسلمانوں کے احتجاج کو بہانہ بنا کر متعدد مسلمانوں کو شہید کردیا گیا‘اُن کی املاک جلا دی گئیں اور اُنہیں خوف زدہ کرنے کیلئے ہرحربہ استعمال کیا گیا۔اب تک سامنے آنے والی صورتحال میں واضح طور پر ان فسادات میں1984ء میں دہلی میں ہونے والے فسادات کی جھلک بھی دکھائی دی ہے۔ کچھ جھلکیاں 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی بھی نظرآئی ہیں ۔ وہی بلوائیوں کی لوٹ مار اور پولیس کی خاموشی‘وہی مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جانا اور اُن کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا جانا۔ تب بھارتی ریاست گجرات میں مودی وزیراعلیٰ تھے اور آج وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے تب فسادات کو روکنے کی کوئی کوشش کی اور نہ اب دہلی فسادات کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔اُس وقت بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے تب حرکت میں آئے جب سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔دہلی فسادات میں بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی۔پولیس واضح طور پر ہنگاموں سے نظریں چراتی ہوئی دکھائی دی ۔ مسلح جتھوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا‘ بلکہ بعض مقامات پر مسلح افراد کے ساتھ مل کر پولیس نے بھی حملے کیے۔ تشدد سے پردہ اُٹھانے والے صحافیوں سے اُن کے مذہب کی بابت استفسار کیا جاتا رہا۔ بھارتی وزیراعظم کی طرف سے تین روز بھی امن برقرار رکھنے کی اپیل سامنے آئی‘ لیکن افسوس کہ اُس میں بھی متاثرین کے لیے کسی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا گیا ۔ دہلی کے وزیراعلیٰ کجریوال نے فوج طلب کرنے کی درخواست کی ‘تو اُسے رد کردیا گیا ۔بظاہر یہ درخواست کرکے دہلی کے وزیراعلیٰ نے بھی اپنی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
سنتے آئے ہیں کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کی پولیس پورے بھارت میں سب سے زیادہ وسائل رکھنے والی فورس ہے ۔ یہاں کی پولیس کو دوسروں ریاستوں کی پولیس کے مقابلے میں بہتر تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود اس نے ہنگاموں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ بلاشبہ منظم قتل عام تب ہی ممکن ہوتا ہے جب پولیس ہنگاموں کو روکنے کیلئے غیرجانبدارانہ طور پر کام نہیں کرتی‘مسلح جتھوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتی ‘بلکہ متعدد صورتوں میں بلوائیوں کی مدد بھی کرتی ہے۔دہلی نے 1984ء میں انداگاندھی کے قتل کے بعد بھی ایسے ہی حالات دیکھے تھے۔ تب پھوٹنے والے ہنگاموں میں کم از کم تین ہزار افراد مارے گئے تھے‘ جن میں اکثریت سکھوں کی تھی۔کئی روز تک پورے دہلی میں جگہ جگہ سکھوں کی لاشیں بکھری ہوئی دکھائی دیتی رہی تھیں۔ اس پر خود کچھ بھارتی دانشوروں کی آراء آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ہندوستان ٹائمز میں ایک ہندؤ دانشور اشوتوش ورشنے کا تبصرہ نظروں سے گزرا۔ موصوف اپنے ملک میں ہونے والی مذہبی فسادات پر طویل تحقیق کرچکے ہیں۔ خود ان کی رائے کے مطابق‘دہلی کے حالیہ فسادات بہت حد تک 1984ء اور 2002ء کی طرح منظم قتل عام دکھائی دیتے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ اس قتل عام کی نوعیت ماضی میں ہونے والے دہلی اور گجرات جیسے فسادات میں پیدا ہونے والی صورتحال کی طرح تو نہیں‘ لیکن آئندہ ایسا نہ ہونے کی ضمانت کون دے سکتا ہے؟انڈیا ٹوڈے میں چھپنے والے مسڑکنہیا جوشی کی رائے بھی پڑھ لیجیے؛ دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے میں نے محققین کی ایک ٹیم کے ساتھ دہلی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا‘ہم سب نے واضح طور پر محسوس کیا کہ بی جے پی کے اُمیدوار بدنظمی اور انتہاپسندی کی روش اپنائے ہوئے دکھائی دئیے تھے ‘مسٹر جوشی کی رائے کے مطابق‘ اُنہیں تب ہی حالات میں کشیدگی محسوس ہورہی تھی اور بالآخر اُن کے خدشات سچ ثابت ہوئے۔
لگے ہاتھوں بھارت میں ماضی میں ہونیوالے کچھ بڑے فسادات پر بھی ایک نظرڈال لیتے ہیں‘ تاکہ واضح ہوجائے کہ کس طرح سے جمہوریت کے لبادے میں اکثریتی آبادی کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 1969ء میں بھارتی ریاست گجرات میں فسادات ہوئے۔ان میں 660افراد مارے گئے تھے‘ جن میں سے 5سوکے قریب مسلمان تھے۔ 1976ء میں دہلی میں 150مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ 1979ء اور 1980ء میں ہونے والے فسادات کے دوران تین سے چار ہزار افراد مارے گئے‘ جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ فروری 1983ء میں آسام میں مسلمانوں کا انتہائی منظم قتل عام کیا گیا‘ جن میں 2191مسلمان شہید ہوئے۔ چھوٹے موٹے واقعات کی تعداد تو درجنوں میں ہے۔ ان فسادات میں زیادہ تر تو مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا‘ لیکن دوسری اقلیتیں بھی محفوظ نہ رہیں‘ ان حالات میں کیوں کر یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ بھارت حقیقت میں بھی ایک جمہوری ملک ہے۔بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کی مذمت تو کی جارہی ہے‘ لیکن ظاہر ہے‘ اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے تناظر میں ہی دیکھا جائے گا۔ کانگرس کی رہنما سونیا گاندھی نے وزیرداخلہ اُمیت شا ہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ‘لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں ۔ یہ تسلیم کہ بھارت میں موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہے‘ لیکن حقیقتاً بھارت میں یہ صورتحال ہمیشہ سے ہی موجود رہی ہے۔
معلوم نہیں انسان مذہب کی تفریق پر کیوں کر اپنے جیسے انسانوں کو ہی ناحق قتل کرتا ہے۔ کیسے انسانیت کے جامے کا تار تار کردیتا اور حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ جنگ کی صورت میں مخالفین کو تہہ تیغ کرنے کی کوشش کرنا تو ٹھیک لیکن پرامن طور پر اپنے گھروں میں بیٹھے اور کام کاج میں مصروف انسانوں کو گاجر مولی طرح کاٹ دینا‘انہیں اپنے سامنے اذیت ناک موت مرتے ہوئے دیکھ کر لطف اُٹھانا۔میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ ایسا کرکے حاصل کیا ہوتا ہے؟یہاں میرا ایک سوال ہے کہ اگر دنیا میں بسنے والے ہندوؤں کو مارنا شروع کردیا جائے تو کیا ہندومذہب نیست و نابود ہوجائے گا؟اگر مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلانا شروع کردیا جائے‘ تو کیا اسلام ختم ہوجائے گا؟ کوئی ذی شعور اس کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا‘ لیکن پھر بھی ‘ پھر بھی یہ سب کچھ ہوتا ہے اور بھارت میں تو یہ خون آشامی مستقل فیچر کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں