"FBC" (space) message & send to 7575

بات تو اس کا منہ پھیر دینے سے ہی بنے گی!

اس میں کوئی شک تو باقی نہیں رہنا چاہیے کہ کورونا کی صورت میں نازل ہونے والی آفت نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ملکوں ملکوں اپنے اثرات چھوڑتی ہوئی‘ اس آفت نے تو جیسے سب کچھ ہی اتھل پتھل کرکے رکھ دیا ہے۔بیشتر ممالک اس کی لپیٹ میں آچکے ‘تو بچ رہنے والے یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں کہ کہیں اُنہیں بھی اس آفت کو بھگتنا نہ پڑ جائے۔ظاہر ہے کہ ڈر ہرجاندار کی جبلت میں شامل ہے ۔سو ‘اس سے کچھ خوف تو محسوس ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ سوچ بھی ذہن میں آتی ہے کہ ڈرنے سے کیا فائدہ ؟بات تو اس کا منہ پھیر دینے سے ہی بنے گی۔جو کچھ ہورہا ہے ‘اب اُس پر زیادہ بات کیا کرنی کہ سب کچھ سب کے سامنے ہے ‘ اسی تناظر میں حوصلے سے کام لینے کی کوشش جاری ہے اور دوسروں کو بھی ہمت کرنے کی تلقین کا سلسلہ چل رہا ہے۔ ہمت اس سے بھی بندھتی ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں انتہائی تشویشناک صورت ِحال کے باوجود خالق کائنات نے ابھی تک ہمیں اس سے بڑی حد تک محفوظ رکھا ہے۔ ورنہ تو یہی سوچ دل دہلائے دے رہی تھی کہ اگر بات کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے انتظامی اقدامات سے بڑھ کر صحت کے نظام تک آن پہنچی تو کیا ہوگا؟یہ سو چ کو ئی ایسی غیرفطری بھی نہیں کہ ہمارے نظام صحت کا حال تو سب کے سامنے ہے۔حکومت چاہے اپنی تیاریاں مکمل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی‘ لیکن زمینی حقائق بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔ یہ ضرور ہے کہ انتظامی سطح پر اُٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات نے بہرحال کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس تناظر میں حکومت ِسندھ کی تعریف نہ کرنا بخل سے کام لینے کے مترادف ہوگا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت سے گلے شکوؤں کے ساتھ ساتھ اقدامات اُٹھائے جانے کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری رہا‘ جس کے اچھے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ حکومت ِسندھ نے سب سے داد سمیٹی ہے ۔کورونا وائرس کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے‘ تو سندھ حکومت کافی آگے دکھائی دیتی ہے ۔ اسے ‘اگر مثالی نہ بھی قراردیا جاسکے تو کم از کم یہ دوسروں سے کافی بہتر نظر آتی ہے‘ جس کے لیے وہ داد کی ضرور مستحق ہے۔ 
رہی بات وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی کی تو اب ‘اس پر زیادہ سر کیا کھپانا ۔بار بار کہی جانے والی باتوں کو دہرانے کا ویسے بھی کوئی فائدہ تو ہونے والا نہیں‘ ورنہ تو ہم نے خود لاہور کے ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو حفاظتی کٹس پر ایک دوسرے کے لتے لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب سے کورونا کا غلغلہ مچا ہے‘ تب سے ڈاکٹروں کی طرف سے حفاظتی کٹس کی کمی کو لے کر کافی تشویش کا اظہار سامنے آرہا ہے۔ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹروں نے زور زبردستی سے کام لیتے ہوئے سٹور سے خود ہی کچھ حفاظتی کٹس لے لیں۔ شکایت انتظامیہ تک پہنچی توحالات کافی ناخوشگوار صورت اختیار کرگئے ؛ اگرچہ بعد میں مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل تو کرلیا گیا‘ لیکن اس سے صورتِ حال کاکسی قدر اندازہ ضرور ہورہا تھا کہ آخر ہوکیا رہا ہے؟ اس سے پہلے اسلام آبادکے ایک ہسپتال میں بھی ایسی ہی صورت ِحال پیدا ہونے کی شکایات سامنے آچکی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ وسائل کی کمی بہرحال ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے‘ لیکن تدبیر سے کام لے کرکسی حد تک تو اس کمی کو دور کیا ہی جاسکتا ہے‘ اگر تدبیر سے کام لینے کا فن آتا ہو تو۔حکومت کو اپنے حوالے سے ٹویٹرپر زیادہ متحرک ہونے کے تاثر کو بھی زائل کرنا چاہیے ۔ بہرحال یہ وقت یقینا تنقید کا تو نہیں کہ اِس وقت سب مل کر ہی اس وباکا منہ پھیر سکتے ہیں۔ بہت خوشی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن )کے علاوہ دیگر سیاسی قوتوں نے بھی حکومت کو غیرمشروط تعاون کی پیشکش کررکھی ہے۔ اب‘ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس پیشکش سے کیسے فائدہ اُٹھائے ؟ اتنا ضرور ہے کہ فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمارے کچھ حکومتی رہنماؤں کو کسی حد تک اپنی سوچ اور فطرت کے خلاف جانا پڑے گااورایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہماری عسکری قیادت بھی پوری طرح سے حکومت کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ یوں بھی افواجِ پاکستان ہرمشکل وقت میں ہمیشہ سب سے آگے نظر آتی ہیں اور اب بھی وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہیں۔
اللہ کریں کہ ہماری کوششیں رنگ لائیں اور ہم سب ٹوٹ پڑنے والی اس کورونا وائرس جیسی آفت سے نمٹنے کے قابل ہوسکیں!
اس کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ بھی اس وبا سے محفوظ رہنے کی دعا کرنے کے ساتھ ساتھ احتیاط سے کام لیا جاتا رہے ۔بتانے والوں کی طرف سے بار بار یہ بتایا جارہا ہے کہ کن تدابیر پر عمل کرکے اس وبا سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ مثلاً:ہمیں مسلسل یہ تلقین کی جارہی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھویا جائے۔ دوسروں کے ساتھ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کرتے ہوئے کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ رکھا جائے۔ اور ہاں سب سے ضروری بات یہ کہ خدارا فضول قسم کے ٹوٹکے پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ بہت سے رویوں کو دیکھ کر تو کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کورونا خطرناک وائرس نہیں ‘بلکہ کوئی کھیل تماشا ہو۔لہسن‘ پیاز کھانے کے مشورے ‘ گرم پانی سے نہانے کی ہدایات‘ادرک سے استفادہ کرنے کی تلقین‘ ہرپندرہ منٹوں بعد پانی پینے پر زور اور ایسا بہت کچھ جوہمارے دل کو تسلی دے سکے۔ فیس بک پر دیکھنے کو ملا کہ ایک مولاناصاحب کبوتر کے پوٹے کے اوپر موجود جھلی کو کورونا کا مستند علاج قرار دے رہے تھے۔ بہت ہی جوشیلے اور جذباتی اندا ز میں کورونا وائرس کے لتے لینے کے ساتھ ساتھ وہ سننے والوں کو اپنے مشورے پر عمل کی تلقین کررہے تھے‘ پھر موسم کو لے کر بھی کچھ باتیں سامنے آئیں کہ شاید بارش یا گرمی سے کورونا پر کوئی کاری ضرب لگ سکے گی۔ 
مذکورہ بالاتمام غلط فہمیاں ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے ایک منٹ میں دور کردیں۔ محترمہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ایسوی ایٹ پروفیسر ہیں۔ کورونا کے لیے پنجاب حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی بھی رکن ہیں۔جب دل کی تسلی کے لیے اُن سے وضاحت چاہی تو پہلے اُنہوں نے ہماری طرف ایسے دیکھا کہ جیسے ہماریا ذہنی توازن خراب ہو‘ پھر چند ہی الفاظ میں اُنہوں نے بات ہی ختم کردی کہ یہ سب بکواس ہے۔ سو‘بے بنیاد باتوں کو پھیلانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام کرنے کی کوشش کریں۔ ایک تو ہمیں کچھ نہیں ہوتا جیسی سوچ سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ یہ سوچ ہمارا پیچھا چھوڑے گی تو تبھی ہم صورت ِحال کی سنگینی کو پوری طرح سے محسوس کرسکیں گے۔اگر حکومت کی طرف سے ہمیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ بلاضرورت گھروں سے نہیں نکلنا تو ہمیں نہیں نکلنا چاہیے۔ آپ دیکھیے کہ اِس وبا سے بچنے کے لیے ‘ تعلیمی اداروں کو بند کرنے‘ سرکاری اداروں کے ملازمین میں وقتی کمی اور ایسے ہی دوسرے اقدامات اُٹھائے گئے ۔ اب‘ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کے باعث اِن اقدامات کو زیرو کردیں تو کیا حاصل ہوگا؟ اس وقت بہت سے ایسے احباب کو ہماری مدد کی بھی ضرورت ہے‘ جو اِس وبا کے باعث روزگار سے محروم ہوچکے ہیں‘ اسی تناظر میں علمائے کرام کی طرف سے ہمیں تلقین کی جارہی ہے کہ رمضان المبارک کا انتظار کیے بغیر‘ زکوٰۃ اور صدقات تقسیم کریں۔ امیر ممالک کے پاس تو وسائل ہی اتنے زیادہ ہیں کہ اُن کی حکومتیں خود سے اپنے شہریوں کو بڑے پیمانے پر ریلیف فراہم کرسکتی ہیں اور وہ ایسا کیا بھی جارہا ہے۔
مسئلہ تو ہم جیسے ممالک کا ہے ‘جہاں بے شمار لوگ ایک وقت کا کھانا کھالیں تو اُنہیں دوسرے وقت کے کھانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ کہاں سے آئے گا؟ موجودہ صورتِ حال نے ایسے افراد کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ کردیا ہے۔اس وقت اُنہیں صاحب استطاعت افراد کی مدد کی ضرورت ہے‘ لیکن ایسی مدد جس میں عزت ِنفس کا قتل نہ ہو۔ بس ‘ایسے کہ ایک ہاتھ سے کسی کی مدد کی جائے تو دوسرے ہاتھ بھی پتا نہ چلے۔ یقینا ہم کبھی بھی اپنے ملک میں چین‘ایران‘ اٹلی ‘ فرانس یا سپین جیسی صورت ِحال نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ تو بس ‘پھر اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم سب مل کر‘ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کورونا وائرس کا منہ پھیردیں کہ بات اس موذی وبا کا منہ پھیر دینے سے ہی بنے گی ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں