"FBC" (space) message & send to 7575

آپ ڈٹے رہیے گا

یہ کوئی ایک دوروز پہلے کی بات ہوگی ‘جب صبح صبح ہی فون کی گھنٹی بجی۔ اُٹھانے پر دوسری طرف بچپن کے دوست اور لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے نوید انجم‘لائن پرتھے۔چھوٹتے ہی کہنے لگے: بھائی میں اور میرے اہل خانہ کرورنا کے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہوچکے ہیں‘ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر کورونا کے کسی مریض کو پلازمہ درکار ہو تو براہ ِکرم اُن کی ہماری طرف رہنمائی کردیجئے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اور اُن کے خاندان کے تمام افراد پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے تیار ہیں‘ لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ وہ یہ عطیہ کسی پرائیویٹ ہسپتال کو نہیں دیں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس ایک فون نے سیروں خون بڑھا دیا کہ ان دنوں تو بیشتر صورتوں میں کورونا کے مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے ۔ ان حالات میں یہ صاحب کیوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے پیچھے رہنا چاہتے ہیں؟ پھر دھیان آیا کہ جہاں پلازمہ مہنگے داموں فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو وہیں بے شماردرددل رکھنے والے صورت ِحال متوازن رکھنے میں بھی تو اپناکردار ادا کررہے ہیں۔ یہ سوچ کو انہیں بھی ایسے احباب کی فہرست میں شامل کردیا ‘جو اچھائی کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یوں بھی کسی بھی صورت ِحال سے فائدہ اُٹھانے کے بنائے بنائے منصوبے ہمیشہ منافع خوروں کی جیب میں پڑے رہتے ہیں۔ ایسے میں‘ اگر پلازمہ فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ تھوڑا سا یادداشت پر زور ڈالیے‘ جب کورونا پھیلنا شروع ہوا تھا تو سب سے پہلے ماسک مارکیٹ سے غائب ہوئے ۔اُس کے بعد سینی ٹائزرز کی باری آئی ‘ پھر جیسے جیسے بات آگے بڑھتی گئی تو ویسے ویسے کورونا سے صحت یابی میں مدد گارثابت ہونے والی دوسری بہت سی ادویات اور اشیا بھی مارکیٹ سے غائب ہوتی گئیں‘ جس میڈیسن کا نام سامنے آتا تووہ جیسے سلیمانی ٹوپی پہن لیتی تھی۔ کسی طرف سے یہ صدا سنائی دیتی کہ کیلشیم کی گولیاں قوتِ مدافعت بڑھاتی ہیں تو یہ گولیاں ایسی غائب ہوئیں کہ اب تک ان کی آسانی سے دستیابی ممکن نہیں ہوپارہی۔ بتایا گیا کہ کچھ ڈیٹول پانی میں ڈال کر سینی ٹائز ر بنایا جاسکتا ہے تو اب‘ ڈیٹول تو نہیں ملتا‘ لیکن ا س کے نام سے ملتی جلتی بے شمار پراڈکٹس مارکیٹ میں موجود ہیں۔ کس کس بات کا رونا رویا جائے کہ اب‘ کورونا کے مریضوں کو لوٹنے کی یہی کسر باقی رہ گئی تھی کہ مہنگے داموں پلازمہ فروخت کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا جائے۔ 
نوید انجم کی اِس پیشکش پر ہمیں ذاتی طور پر بھی تھوڑا سااطمینان ہواکہ اگر خدانخواستہ ہمیں پلازمے کی ضرورت پڑی تو چلو ایک آپشن تو موجود ہے۔ اس اطمینان کی وجہ یہ ہے کہ اِن دنوں ہم خود بھی کورونا کا شکار ہونے کے بعد صحت یابی کی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کچھ زیادہ دوست احباب کو اس کی بابت بتایا نہیں تھا‘کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ کورونا کے مریضوں کوکوئی منہ تو لگاتا نہیں ‘تو پھر بتانے کا فائدہ کیا۔ سب کی طرح ہم نے بھی اس مرض سے بچنے کی کوشش تو بہت کی تھی‘ لیکن یہ موذی وائرس زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ یہی کچھ 11دن پہلے دفتر آنے کے لیے تیاری کا سلسلہ جاری تھا۔ باؤشاؤ بننے کے چکر میں پہلے پاؤڈرشاؤڈر اور پھر پرفیوم لگایا تو دونوں کی خوشبو ندارد۔ پریشانی میں دوسرے پرفیومز بھی سونگھے ‘لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا‘ جیسے پرفیوم کے نام پر صرف پانی ہو۔ پریشانی کا لاحق ہونا لازم تھا‘ سو لاحق ہوگئی۔ فیملی فزیشن ڈاکٹر عرفان کو فون کیا تو انہوں نے علامات سننے کے بعد فیصلہ صادر فرما دیا کہ میاں کورونا ہوچکا ہے ‘لہٰذا دفتر جانے کا ارادہ موقوف کرتے ہوئے فوراً الگ کمرے میں منتقل ہوجائے۔ اُن کی طرف سے یہ اچھی خبر ضرور سنائی گئی کہ آپ خود کو خوش قسمت سمجھیں ‘جو آپ کو بہت معمولی علامات کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔مزید معلومات کی درخواست کی تو کہنے لگے کہ سونگھنے کی حس کا ختم ہوجانا یا پھر سر میں درد کاہونا ‘ کورونا کی معمولی علامات ہیں ‘ جن میں یہ علامات پائی جاتی ہیں‘ وہ عام طور پر گھر میں رہ کرہی صحت یاب ہوجاتے ہیں‘ انہیں بیشتر صورتوں میں ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سب جاننے کے بعد دفتر کو صورتِ حال کی بابت آگاہ کیا اور پھر گھر کے ہی الگ کمرے میں پناہ لے لی ۔ ابھی تک وہیں مقیم رہ کرصحت یاب ہونے کی کوششوں کا بھرپورسلسلہ جاری ہے۔ صورت ِحال کا مقابلہ کرنے میں اہل خانہ فرنٹ لائن پر ہیں ‘جن کی کوششوں اور احباب کی دعاؤں سے صحت یابی کی منزل کے قریب پہنچ چکا ہوں۔ اللہ کے کرم سے سونگھنے اور چکھنے کی حس مکمل طور پر بحال ہوچکی ہے۔ 
حالات بہترہیں تو خاصا اطمینان بھی محسوس ہورہا ہے‘ ورنہ آغاز میں تو شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ دل اس لیے بھی اتھل پتھل ہورہا تھا کہ کورونا کے مریضوں کو تو کوئی بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتا۔ ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کہانیاں تو خود کور کرچکا تھا‘ لہٰذا پریشانی دوچند ہورہی تھی۔ابھی تو7فروری کا دن ہی یادداشتوں سے محو نہیں ہوپارہا تھا‘ جب دل کے معاملات کچھ اوپر نیچے ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے بات صرف ایک سٹنٹ پر ہی ختم ہوگئی۔ بس‘ ماہر امراض دل خرم شہزاد کی طرف سے اتنا ضرور کہا گیا کہ بھائی صاحب‘ کھانا کھانا بھول جائیے گا‘ لیکن دوا کھانا کبھی مت بھولئے گا۔وجہ پوچھنے پر بتایا گیاکہ اب سٹنٹ کو کھلا رکھنے کے لیے دوا کا لینا ضروری ہے۔ سو ‘ صبح شام تجویز کردہ ادویات لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کہ دوا کھاکا صحت برقرار ہے۔ بس‘ سٹنٹ ڈالے جانے کی دیر تھی کہ کورونا کی یلغار شروع ہوگئی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ بھائی دل کے امراض میں مبتلا افراد کو کورونا سے زیادہ خطرہ ہے تو پریشانی کا لاحق ہونا لازم تھا‘ پھر یہ بھی کہ اگر خدانخواستہ حالات زیادہ خراب ہونے پر ہسپتال جانا پڑا تو کیا ہوگا۔تسلیم کرتا ہوں کہ جب ایسی سٹوریز کور کرتا تھا ‘ انہیں بہت معمولی انداز میں لیتا تھا ‘لیکن جب خود اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تو جان پر بن آئی۔ ایک سے ایک برا خیال دل میں آتا رہا۔ یاد آتا رہا کہ جب تک خود کورونا کی مصیبت نہیں جھیلی تھی تب تک کسی دوسرے کا اِس مرض میں مبتلا ہوجانا ‘ میرے نزدیک کس قدر معمولی بات تھی۔اس اکھان کی حقیقت پھر کھل کر سامنے آئی کہ جس تن لاگے وہ تن جانے۔ پہلے تو صرف سنا تھا کہ فلاں کورونا کے مرض میں مبتلاہوگیا اور فلاں اس مرض کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیارا ہوگیا‘تومحسوسات کی شدت زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ اپنے تن کو لگی تو جیسے زندگی ہی تھم کر رہ گئی تھی اور اب‘ جو صحت بہتر ہے تو ایک مرتبہ پھر احساسات کی شدت کم ہوتی جارہی ہے۔ شاید انسان کی یہی فطرت ہے کہ جب تک خود مصیبت میں مبتلا نہ ہو تو‘ اُسے دوسروں کی مشکلات کا احساس نہیں ہوپاتا۔
ایک سوچ رہ رہ کر آتی رہی اور آتی رہتی ہے کہ آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی کسی بھی وقت اس کی گرفت میں آسکتا ہے۔ کیسے کیسے ہیرے تھے ‘جو اس مرض نے نگل لیے‘ ابھی اُن کا غم کہاں کم ہورہا تھا کہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی رحلت کی خبر بھی کانوں تک پہنچ گئی۔ ہزاروں صحافیوں کو انگلی پکڑکر سکھانے والے ڈاکٹر مغیث الدین شیخ چند روز قبل کورونا کا شکار ہوکر ہسپتال پہنچے تھے۔ وہاں اس موذی مرض سے جنگ لڑتے لڑتے بالآخر وہ دارفانی سے کوچ کرگئے۔کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں اس شخصیت سے ‘لیکن یاد کرنے کا یارا نہیں کہ آخر کیا کریں گے ؟بیتی ہوئی باتوں کو دُوہرا کر۔ اللہ تعالی اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں‘ جنہوں نے ہم جیسے بے شمار کم علموں کو علم کی روشنی سے روشناس کرایا۔ اب‘ وہ اور بے شمار دیگر احباب اِس مرض میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں‘ لیکن ہماری سوچ ہے کہ تبدیل ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ چاہے کسی کی جان پر کھیل کرہی منافع کیوں نہ ملے‘‘ اُسے حاصل کرنا ہی ہے ‘ جس ملک میں میڈیکل سٹور پر لکھا ہو کہ یہاں سوفیصد اصلی ادویات فروخت ہوتی ہیں توپھر باقی کیا بچتا ہے۔ ان حالات میں‘ ایسے احباب کہ اندھیروں کو دور کرنے میں اپنے حصے کی شمع جلائے ہوئے ہیں تو اُن سے درخواست ہے‘ پلیز آپ سب ڈٹے رہیے گا کہ کہیں انسانیت کا رہا سہا بھر م بھی ختم نہ ہوجائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں