"FBC" (space) message & send to 7575

ہم سرگنگا رام کے احسانات کیوں مانیں؟

ماہِ جولائی میں لاہور کے ایک بڑے محسن گنگا رام کو یاد کرنا تو ضرور بنتا ہے جن کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ سرگنگا رام جدید لاہور کے بانی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آج کل کہاں ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں رہ گیا جو ہم اپنے محسنوں کو ہی یاد کرنے کے لیے کچھ لمحات نکال لیں۔ کیا ہوگا گنگا رام نے لاہور کی تعمیر وترقی کے لیے بہت کام، رکھی ہوگی اُنہوں نے جدید لاہور کی بنیاد، ہمیں اِس سے کیا لینا دینا۔ شاید لاہور پر گنگا رام کے احسانات کو فراموش کردیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج لاہوریوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہ ہو کہ لاہور کی تعمیر و ترقی میں اِس شخصیت کا کیا کردار تھا۔ دراصل لاہور ایسے ہی لاہور نہیں بن گیا بلکہ بے شمار شخصیات نے لاہور کو لاہور بنانے میںاپنا اپنا کردار ادا کیا تھا جن میں گنگا رام سب سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ آج لاہور کے ماتھے کا جھومر سمجھی جانے والی کیتھڈرل چرچ اور لاہور ہائیکورٹ کی عمارات کے نقشے اُنہوں نے بنائے۔ ایچی سن کالج (تب چیفس کالج) تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو اِسے ایسے احسن انداز میں نبھایا کہ انگریز حکومت نے اُنہیں سول انجینئر سے سیدھے چیف انجینئر کے عہدے پر ترقی دے دی۔ وہ اِس عہدے پر بارہ سال تک فائز رہے جس دوران اُنہوں شہر کی شکل ہی تبدیل کرکے رکھ دی۔ لاہور عجائب گھر، میو سکول آف آرٹس (آج نیشنل کالج آف آرٹس) گورنمنٹ کالج کے شعبہ کیمسٹری، جنرل پوسٹ آفس اور میو ہسپتال کے نہ صرف نقشے ڈیزائن کیے بلکہ اِن کی تعمیر میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا۔ لاہور سے اُن کے عشق کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا تو پھر بھلا بات یہیں تک کیسے محدود رہتی۔ لیڈی ولنگٹن ہائی سکول، سرگنگا رام ہائی سکول (آج لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی) اور ہیلی کالج آف کامرس کی عمارتیں بھی اُنہیں کی تخلیق کردہ ہیں۔
یہ شخص ہیرو کی طرح کما رہا تھا اور حاتم طائی کی طرح خرچ کرتا چلا جا رہا تھا۔ 1925ء میں اِس شخصیت کو امپیریل بینک آف انڈیا کا صدر بنا دیا گیا جس دوران وہ سرگنگا رام ٹرسٹ کی بنیاد بھی رکھ چکے تھے۔ اِس کے بعد تو لاہور جیسے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے سر گنگا رام ہسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے اور سر گنگا رام ہیریٹیج فائونڈیشن لاہور بھی اُنہیں کی یادگار ہے۔ آج جس ماڈل ٹاؤن میں رہائش اختیار کرنا ہرکسی کی خواہش ہے، اس کا منصوبہ انہوں نے ہی انگریز حکومت کو دیا تھا اور پوری سوسائٹی کا نقشہ بھی بنایا۔ یہ تو صرف لاہور کی حد تک تھا‘ ورنہ تو لاہور سے باہر بھی اُن کی بے شمار یادگاریں آج بھی ملتی ہیں۔
جڑانوالہ کے نواحی گاؤں گنگاپور میں چلائی جانے والی اُن کی گھوڑا ٹرین کو کون بھول سکتا ہے جو آج سے 115سال قبل گنگاپور سے بچیانہ کی طرف چلا کرتی تھی۔ سرگنگارام کے اِس کارنامے نے تو جیسے سب کو حیران کرکے رکھ دیا تھا لیکن یہ بات سچ ہے کہ دوسرے کسی بھی مقام سے زیادہ اُنہیں لاہور سے ہمیشہ بہت محبت رہی۔ اتنی محبت کہ جب 10 جولائی 1927ء کو اُن کا لندن میں انتقال ہوا تو اُس سے پہلے وہ وصیت کر چکے تھے کہ اُن کی راکھ کا کچھ حصہ لاہور میں لے جاکر دریائے راوی میں بہایا جائے۔ اُن کے لواحقین نے سر گنگا رام کی یہ خواہش پوری بھی کی۔ اُن کی وفات پر آج سے 92برس قبل تب کے انگریز گورنر نے کہا تھا کہ گنگا رام نے تمام عمر ایک ہیرو کی طرح کمایا اور درویش کی طرح لٹایا۔ اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں رائے بہادر اور سر کے خطابات کے علاوہ ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر اور کمپینین آف دی انڈین ایمپائر کے اعزازت بھی ملے۔
اب منظر تھوڑا سا تبدیل ہوتا ہے۔ انیس سو سینتالیس کے اگست کے اوائل میں جدوجہد آزادی کی نیّا پار لگنے کو تھی جس دوران ہندو مسلم فسادات بھی زوروں پر تھے۔ مال روڈ پر بپھرے ہوئے لوگوں کا ایک جلوس نکلا ہوا تھا۔ ناگاہ شرکائے جلوس کی نظر مال روڈ پر نصب ایک مجسمے پر پڑتی ہے جو اُن کے غضب کا نشانہ بنتا ہے۔ چند ہی سال قبل نصب کیے جانے والے اِس مجسمے کے چہرے پر تارکول مل دی جاتی ہے اور گلے میں جوتوں کو ہار ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر پولیس آتی ہے‘ بھگدڑ مچتی ہے‘ کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں‘ جن کی جان قریبی سر گنگا رام ہسپتال میں پہنچائے جانے کی وجہ سے بچتی ہے۔ جس مجسمے کو ڈھانے کی کوشش ہوئی وہ سر گنگا رام کا ہی تھا۔ یہاں تو چند روز بعد ہی سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے، گنگا رام کو تو گزرے دو دہائیاں ہو چلی تھیں تو اتنے عرصے بعد کو ن یاد رکھتا کہ وہ جس کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس نے شہر کی ترقی کے لیے کیا کچھ کیا تھا۔ اِس ستم کی دوسری قسط1992 ء میں بابری مسجد کے واقعہ کے بعد چلی اور اس واقعے کا غصہ راوی کنارے بنی گنگا رام کی سمادھی پر نکلا۔ سمادھی کی حالت پہلے ہی کچھ اچھی نہ تھی‘ جسے بالکل ہی نابود کر دیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اِس پر لاہور کو اپنے قدموں سے ماپنے والے ہمارے دوست نعیم مرتضیٰ کا دکھ بھرا پیغام موصول ہوا تھا کہ دیکھو یا ر! ہم لوگوں نے کیا کر دیا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ اِس پر ہم نے کچھ دلائل پیش کرنے کی اپنی سی کوشش کی تو وہ کافی غصے سے بولا کہ گنگا رام نے کہا تھا کہ مسجد شہید کر دو؟ کچھ تو خدا کا خوف کرو‘ جو شخص تمام عمر بل اامتیازِ مذہب سب کی خدمت کرتا رہا، تم اُس کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کر رہے ہو۔ نعیم مرتضیٰ کے دلائل کافی مدلل تھے‘ سو ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ تسلیم کرتا ہوں کہ اِس صورت حال پر مجھے بھی کافی دکھ ہوا تھا کہ ہم لوگ کیسے جذبات کی رو میں بہہ کر سب کچھ ہی بھول جاتے ہیں۔ بعد میں گنگا رام کی سمادھی نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ 
ماہِ جولائی کے آغاز پر ہمیں ایک بار پھر نعیم مرتضیٰ کا پیغام موصول ہوا کہ چلو گنگا رام کی سمادھی پر چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اِس وقت سمادھی کیا صورتِ حال ہے۔ راستے میں ہمارے اِس دوست نے گنگا رام کی کچھ مزید خدمات کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا۔ بتایا کہ موصوف کو مطالعے کا بہت شوق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ نوجوان بھی مطالعے کی طرف راغب ہوں۔ اِس کے لیے اُنہوں نے شہر میں لائبریریاں قائم کیں، بیوہ خواتین کے لیے کئی ایک منصوبے شروع کیے اور یہ جو ہیلی کالج قائم ہوا تھا نا! اِس کے لیے سرگنگا رام نے اپنی رہائش گاہ ہی دے دی تھی۔ یہ بھی کافی دلچسپ قصہ تھا۔ گنگا رام نے گورنر کو کامرس کالج شروع کرنے کا مشورہ دیا تو گورنر نے جواب دیا کہ اِس کے لیے کوئی مناسب سی عمارت دیکھتے ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ گنگا رام نے اپنے گھر کی چابیاں گورنر کی میز پر رکھ دیں اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ دو ایک روز بعد ہیلی کالج میں کلاسز کا آغاز ہوگیا تھا۔ یہی سب باتیں کرتے ہوئے جب ہم سمادھی پر پہنچے تو میں تو ذہنی طور پر تیار تھا کہ وہاں کیسی صورت حال دکھائی دے سکتی ہے۔ نعیم کو البتہ یہ سب کچھ دیکھ کر دھچکا سا لگا۔ وہاں عجیب سی صورت حال دیکھنے کو ملی کہ عمارت کے اندر کچھ کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا اور سمادھی برے حالوں میں تھی۔ یہ دیکھ کر ہمارے دوست کو خاصا دکھ پہنچا لیکن پھر ہمارے سمجھانے پر اُس کی حالت کچھ سنبھل گئی۔ ہم نے اُسے سیدھے الفاظ میں سمجھا دیا تھا کہ میاں بس جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ گنگا رام کو تو دنیا سے گئے ہوئے صدی سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے۔ ایسے میں کون اُسے یاد رکھے گا۔ یوں بھی ہم نے کون سا اپنی نئی نسل کو بتایا ہے کہ بچو! لاہور کو لاہور بنانے میں جس شخصیت نے اہم ترین کردار ادا کیاتھا، اُس کا نام سرگنگا رام تھا۔ اِس بیچارے کے نام کا کوئی چھوٹا موٹا ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہوتا تو چلو آنے والی نسلوں کو اِس کے بارے میں پتا چلتا رہتا۔ اپنے دوست کی پشت تھپتھپاتے ہوئے ہم نے اُسے سمجھایا کہ میاں! ہم تو یوں بھی ڈرانے اور دھمکانے والوں کی عزت کرتے ہیں تو ہم کیوں اُس کے کارناموں کو یاد کرتے پھریںجس کے ساتھ کوئی ثقافتی یا تہذیبی بندھن بھی نہیں؟ اچھی بات یہ رہی کہ ہمارے سمجھانے پر وہ سمجھ بھی گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں