"FBC" (space) message & send to 7575

خوشی کا سامان

بے شک حقیقت کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے‘ باقی آپ کی مرضی ہے کہ آپ دن کو رات ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہیں‘ لیکن حقیقتیں بہرحال اپنا الگ ہی وزن رکھتی ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ بھارت نے ایک سال سے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے قیدخانے میں تبدیل کررکھا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیریوں کی مشکلات میں کمی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس میں ہمیں اپنے بعض قریبی دوست ممالک کا تعاون بھی حاصل نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں اگر ہمیں نقشوں کے اجرا سے خوشی ملتی ہے تو خوش ہونا یقینا ہرکسی کا بنیادی حق ہے۔ خوشی تو شہزادہ ارطغرل عثمان بھی حاصل کرتا رہا تھا جس کے آباؤاجداد کی سلطنت عثمانیہ کو ختم ہوئے دہائیاں گزر چکی تھیں۔ اس کے باوجود سلطنت عثمانیہ کے شاہی خاندان کا یہ فرد خود کو ہمیشہ شہنشاہ ہی سمجھتا رہا۔ 18اگست 1912ء کو تاریخ کا یہ کردار پیدا ہوا تھا تو تب چاہے کمزور ہی سہی لیکن سلطنت عثمانیہ کا وجود بہرحال باقی تھا۔ چاہے تاریخ کی یہ عظیم سلطنت اپنے آخری سانس لے رہی تھی لیکن دنیا بھر کے مسلمان تب بھی اس سے عقیدت رکھتے تھے۔ 1923ء میں کمال اتا ترک نے رہی سہی خلافتِ عثمانیہ کی بساط لپیٹ دی تو تب شہزادہ ارطغرل عثمان آسٹریا میں زیرتعلیم تھا ۔ صورتحال میں تبدیلی کے بعد اس کیلئے اپنے ملک واپس جانا مشکل ہوگیا ۔ بس پھر کبھی یہاں اور کبھی وہاں زندگی کے دن پورے کرتا رہا۔ وہ تو اس کی خوش قسمتی رہی کہ جب 1993میں ترکی کے تب کے صدر سلیمان ڈیمرل نیویارک گئے تو تب ارطغرل عثمان بھی وہیں پر موجود تھے۔ ان کی عسرت کی کہانیاں سلیمان ڈیمرل کے کانوں تک پہنچیں تو اُنہوں نے خود ارطغرل عثمان کے فلیٹ کا دورہ کیا۔ وہاں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ارطغرل عثمان نے فلیٹ کی ایک دیوارپر سلطنت عثمانیہ کے اُس دور کا نقشہ آویزاں کیا ہوا تھا ۔ ڈیمرل یہ جان کر مزید حیران ہوئے کہ ارطغرل عثمان اس نقشے کے مطابق خود کو اُس وقت بھی ماضی کی اس عظیم الشان سلطنت کا آخری فرمانروا سمجھتا تھا۔ رہی بات زمینی حقائق کی تو اُن کی طرف ہم نے پہلے کون سی توجہ دی ہے جو اب دیں گے۔وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ ہم دراصل جو کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں ‘ وہ کرتے ہرگز نہیں اور جو کچھ کرتے ہیں وہ کچھ سوچ کر نہیںکرتے۔کچھ بھی کرنے کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ کسی طرح خود کو اور عوام کو بہلایا جائے۔ ابھی اگر محسوس کیا جائے تو شاہراہوں کے نام تبدیل کردینے‘ ائیرپورٹس پر گھڑیاں نصب کردینے کے باوجود عوامی سطح پر حکومت کی پالیسی کے حوالے سے منفی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایسی آرا کی وجہ یہ ہے کہ ایک سال بعد بھی کشمیر کی وہی صورتحال ہے جس کا آغاز 5اگست 2019ء کو بھارتی حکومت کی طرف سے اس کی خصوصی حیثیت ختم کردینے سے ہوا تھا۔ ہماری حکومت کا دعویٰ تو ہے کہ اُس کی کوششوں کے باعث مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر اُجاگر ہوا ہے‘ بلکہ یہ دعویٰ تو ہر حکومت ہی کرتی رہی ہے لیکن عملی طور پر صورت حال میں پہلے کبھی کوئی تبدیلی دکھائی دی تھی نہ اب دکھائی دے رہی ہے۔ کافی عرصے تک تو ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پر بغلیں بجاتے رہے‘ لیکن اس سے بھی کچھ برآمد نہ ہوسکا۔ اس تناظر میں خود کشمیری رہنماؤں کے رویے کا جائزہ لیا جائے تو اُس میں مایوسی کا عنصر واضح طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔ اُن فاصلوں کو دیکھنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے جو کشمیری قیادت اور ہمارے حکمرانوں کے درمیان بڑھ رہے ہیں۔ خیر یہ سب کچھ کرکے ہم نے ایک مرتبہ پھر اپنی خوشی کا کچھ سامان تو کرہی لیا ہے۔ ویسے یقینی طور پر تاریخ میں کچھ مواقع پر مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کے چند ایک حقیقی مواقع ضرور ہاتھ آئے تھے لیکن وہ ضائع کردئیے گئے ۔ 
اس طرف یہ سب ہورہا ہے تو سرحد کے اُس پار بھارتی حکمران کٹرہندوؤں کو خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گو شدت پسند ہندو رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھے جانے پر خوشیاں منا رہے ہیں لیکن وہاں کے سمجھدار حلقے اس تمام صورت حال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید وہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دے کر نام نہاد سیکولر بھارت کی بنیادیں کھوکھلی کی جارہی ہیں۔ بھارتی حکمران کے لیے یہ مندر کی تعمیر کا ڈھکوسلا عوام کی بڑی تعداد کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس پر کہیں نظروں سے گزری ہوئی ایک تحریر یاد آرہی ہے۔ اس تحریر میں ہندؤ ادیب پربھاکریشونت نے کچھ یوں اپنے دل کا غبار نکالا تھا'' میرے ہم مذہبوں (ہندوؤں) کو خوش ہونا چاہیے کہ اُنہیں دوسروں پر مزید برتری حاصل ہوگئی ہے ‘ وہ برتری جو اُنہیں ہمیشہ سے ہی حاصل رہی ہے‘ ہمیں تو بھنگڑے ڈالنے چاہئیں کہ آج طاقتوروں کے سامنے سچ بولنے کی ہمت ختم کردی گئی ہے‘ ہاں میں اپنے وطن کے لیے آنسو بہا رہوں ‘‘۔ایسا محسوس کرنے والے واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ اصل میں یہ سب کچھ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے منصوبوں اور ہندوتوا سوچ کا اظہار ہورہا ہے۔ وہ محسوس کررہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں مذہبی منافرت کو مزید بڑھاوا دیا جائے گا‘ جس کا بالآخر بھارت کو نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اب اگر ایسی تمام سوچوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارتی حکومت اپنے راستے پر چلی جارہی ہے تو یقینا اُسے اس راہ پر چلنے دینا چاہیے‘ کیونکہ دشمن غلط چال چل رہا ہو تو اُسے ٹوکتے نہیں۔
گویا اس وقت حکومتوں کی سطح پر خوشیوں کے کافی مواقع حاصل ہوئے ہیں لیکن بلاشبہ کشمیری اس وقت سخت مشکل میں گرفتار ہیں۔ شدید کرب میں مبتلا کشمیریوں کو خوفناک عذاب جھیلتے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے‘ لیکن ابھی تک اُن کو کہیں سے ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے معمولی اقدامات سے انہیں بہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک کو بھی اپنا ہمنوا نہیں بنایا جا سکا۔ اگر ذہنوں پر زور ڈالیں تو آپ کو ایک سال پہلے ایک خلیجی ملک کی طرف سے نریندرمودی کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازنے کا واقعہ یاد آجائے گا۔بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو اس اعزاز سے تب نوازا گیا تھا جب کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کا بھارتی اقدام تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکا تھا۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ تب کشمیریوں کے جذبات کی کیا حالت ہوگی؟ چلو اگر کشمیر یوں کی حمایت نہیں کرنا تھی تو نہ کرتے لیکن اُن کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا یہ انداز تو جیسے قیامت ہی ڈھا گیا تھا۔ دوستوں نے تو مسئلہ کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس تک منعقد نہ ہونے دیا۔ بھارت کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہونے کا واقعہ تو تازہ تازہ رونما ہوا ہے۔ اس پر بھی سوائے سرپیٹنے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتے تو پھر ایسے سطحی اقدامات کی بھی ضرورت نہیں جن کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوسکے۔ اس سے دل جلتے ہیں۔ بے شک حقیقت کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے‘ باقی آپ کی خوشی ہے کہ آپ چاہے دوجمع دو کو پانچ ثابت کرتے رہیں۔ باقی دکھاوے کے لیے کچھ بھی کرکے اپنی لیے خوشی کا سامان کرتے رہیں‘ کسی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ سو ہم بھی یہی کچھ کررہے ہیں اور سرحد کے اُس پار بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں