"FBC" (space) message & send to 7575

ایویں یاد آنے والا شخص

مختصر الفاظ میں پروپیگنڈا کے معنی دروغ گوئی، ترغیبِ تحریص یا غلط افواہیں پھیلانا بتائے جاتے ہیں۔ مقصد اِس کا دوسروںکو سبز باغ دکھا کر متاثر کرنا ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب اس میں بہت جدت بھی آ چکی ہے۔ آج کل پروپیگنڈے کے جو انداز اپنائے جاتے ہیں اُن کا موجد ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز کو قرار دیا جاتا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ کامیاب پروپیگنڈے کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر نکات کو کتنے اچھے انداز میں کتنی بار مسلسل دہرا سکتے ہیں؛ تا آنکہ لوگ اِسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ محترم گوئبلز کے مطابق پروپیگنڈے کی کامیابی کا صرف ایک ہی را ز ہے کہ اِسے زیادہ سے زیادہ مقبول عام بنایا جائے۔ پس گوئبلز نے اِسی سوچ کے تحت پروپیگنڈے کے صدیوں پرانے انداز تبدیل کرکے ایسی نئی جدتیں متعارف کرائیں جس کے لیے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے حکمران یقینا آج بھی اُن کے شکرگزار ہیں۔ وہ تو جب دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو جرمن عوام کے ذہنوں میں بھرا ہوا خناس نکلنے لگا کہ وہ برتر قوم ہیں نہ پوری دنیا کو فتح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقت تک پہنچتے پہنچتے بہت عرصہ صرف ہوگیا جس دوران جرمنی اتحادیوں کے ہاتھوں بری طرح برباد ہوگیا۔ اتنا برباد کہ جنگ عظیم میں شکست یورپ کی اِس عظیم قوت کی تقسیم کا پیغام بھی لے کر آئی۔ ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ مشرقی جرمنی‘ سوویت یونین کی گرفت میں آگیا اور مغربی جرمنی یورپی اتحادیوں کا اتحادی بن گیا۔ دونوں حصوں کو مشہور دیوارِ برلن تقسیم کرتی تھی۔ طویل عرصہ تک برقرار رہنے کے بعد بالآخر 1989 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے دو سال بعد 1991ء میں دیوار برلن بھی گر گئی اور جرمنی پھر ایک ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے پیچھے گوئبلز کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اُسی نے ہٹلر کی ایما پر جرمن قوم کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ برتر قوم ہیں اور پوری دنیا کو فتح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب گوئبلز کو مرے ہوئے تو طویل عرصہ گزرچکا لیکن پروپیگنڈے کے حوالے سے اُس کے اصول تر و تازہ ہیں اور ہرجگہ کثرت سے اِن پر عمل کیا جاتا ہے۔
کسی دوسری طرف کیا جانا‘ خود ہمارے ہاں ہی اِس کی مثالیں ہر دور میں بکثرت دکھائی دیتی ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت بھی نہیں، یہی کوئی1977ء سے ہی شروع کر لیتے ہیں۔ ملک میں انتخابات کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر ذوالفقار علی بھٹو کامیابی حاصل کر چکے تھے لیکن اپوزیشن جماعتیں نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کے خلاف تحریک چل نکلی جو مختصر وقت کے دوران ہی مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ مسٹر بھٹو کی طرف سے شراب پر پابندی اور اتوار کے بجائے جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی کرنے کے اعلانات بھی کام نہ آئے، مجبوراً جنرل ضیاء الحق کو مداخلت کرنا پڑی۔ اِس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو معزول کر دیے جانے کے بعد تختہ دار پر چڑھا دیے گئے۔ منتخب وزیراعظم کو کافی یقین تھا کہ اُن کی موت پر ہمالیہ بھی روئے گا لیکن افسوس کہ اُن کی یہ اُمید پوری نہ ہو سکی۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو اُس سے پہلے ملک کے طول و عرض میں یہ بات پھیل گئی کہ سری لنکا سے واپسی پر اُن کے طیارے کو لینڈنگ سے روکا گیا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے طیارہ لینڈ کرگیا ورنہ بس پٹرول کی آخری بوند بھی ختم ہونے کو تھی۔ اِسی ٹوکا ٹوکی میں میاں نواز شریف اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اٹک قلعہ اور بعد میں سعودی عرب جا پہنچے۔ اُن کے ساتھ دیگر اہل خانہ بھی جلاوطن ہونے کے بعد طویل عرصے تک سعودی عرب میں قیام پذیر رہے۔ ''محترم گوئبلز‘‘ کے ایک اور زریں قول نے بھی بہت شہرت حاصل کی تھی موصوف اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جھوٹ جتنا بڑا ہوگا، اُس پر اُتنا ہی زیادہ یقین کیا جائے گا۔
دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوئی دیکھنے کے انتظار میں دوسال تو گزر ہی چکے ہیں لیکن کوئی بات نہیں کہ بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت تو بہرحال درکار ہوتا ہی ہے۔ چلیں کم از کم اتنی کامیابی تو حاصل کر لی گئی ہے کہ بات کرپشن اور خزانہ خالی ہونے سے آگے بڑھتے ہوئے ٹیک آف پوزیشن تک پہنچ گئی ہے۔ اِسی تناظر میں کوئی ایک آدھ ہفتہ قبل وفاقی وزرا نے اسلام آباد میں ایک دھواں دھار سی پریس کانفرنس بھی کی تھی۔
دورانِ گفتگو تمام وزرائے کرام نے اپنی اپنی وزاتوں کی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست بیان کی۔ سچی بات ہے کہ کم از کم یہ سب کچھ سن کر تو دل ایک مرتبہ پھر خوش ہو گیا۔ سب سے اچھی گفتگو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی رہی جنہوں نے ببانگ دہل بیان کیا کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے میں پوری طرح سے کامیاب رہی ہے۔ دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی اپنائی گئی جس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں... وغیرہ وغیرہ۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران خزانہ اُمور سنبھالنے والے حفیظ شیخ صاحب کی طرف سے بھی عوام کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، بس تھوڑا سا انتظار مزید کر لیں۔ یہ سب باتیں سن کر اِس مرتبہ تو پکا یقین ہو چکا ہے کہ کاسہ گدائی توڑ دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اربوں ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھی بس شروع ہونے ہی والی ہیں۔ یہ تصور کرتے ہوئے بھی ہم مسکراتے رہے کہ 65 روپے سے تقریباً 100روپے کلو تک پہنچ جانے والی چینی کے نرخ کم ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب پائیدار معیشت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے تو پھر اِن سب باتوں کے پورا ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ یہ جان کر بھی اچھا محسوس ہوا کہ اب کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے بعد حکومت نے اپنے دوسری ترجیحات متعین کر لی ہیں۔ اگر پوری پریس کانفرنس کا لب لباب جاننا ہو تو اتنا سمجھ لیجئے کہ قوم کو خوش خبری سنا دی گئی کہ اب کپتان کریز پر جم چکا ہے اور لمبی اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ بس ہم سے ہی یہ سب تحریر کرنے میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی‘ خود کپتان صاحب بھی ببانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی قوم کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
اتنی اچھی باتوں کے باوجود شیطان ایویں دل میں وسوسے ڈال رہا ہے۔ اِنہیں کے پیش نظر دل سے یہی دعا نکل رہی ہے کہ آئندہ دوسال کہیں 'ملک ٹیک آف پوزیشن میں آ چکا ہے‘ کی گردان کی نذر نہ ہو جائیں۔ ویسے یقین واثق ہے کہ آخر کو ذمہ داران نے کوئی نہ کوئی تو طریقہ نکالا ہی ہوگا کہ مہنگائی کے بے قابو عفریت کو فی الفور قابو میں لایا جائے گا۔ خالی خزانے کے باوجود میگا پروجیکٹس مکمل کیے جا سکیں گے۔ جس طرح کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کیا جا چکا ہے‘ بالکل اِسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے دیگر مسائل پر بھی قابو پائے جانے کی کوئی ترکیب تو سوچی ہی ہو گی۔ وسوسے ڈالنے والے شیطان مردود کو یہ بھی کہاں معلوم ہے کہ کرشمات سے تو بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ہو بھی چکا ہوتا لیکن وہ کمبخت کورونا نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا ورنہ تو ٹیک آف کرنے کے لیے ملکی معیشت جہاز میں بیٹھ چکی تھی۔ اب جو دن رات اَن تھک محنت کرکے حکومت نے کورونا پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے تو سیلاب نے آن لیا ہے۔ ایک بیچاری حکومت صرف چند درجن وزرا اور مشیروں کے ساتھ، کس کس مسئلے سے نمٹے؟ سندھ حکومت نے الگ مسئلہ پیدا کیا ہوا ہے۔ ویسے ایک بات ہے کہ کراچی کی صورت حال دیکھ کر پنجاب حکومت دل ہی دل میں سابق حکومت کا شکریہ ادا کر رہی ہوگی ورنہ شاید لاہور کے حالات بھی کراچی کی مانند ہی ہوتے۔ 
سوری بات گوئبلز سے شروع ہوکر نجانے کہاں نکل گئی۔ اُس کے بارے میں ہم ایک بڑی اہم بات بتانا چاہ رہے تھے کہ گوئبلز کو جب یقین ہوگیا کہ اُس کے پروپیگنڈے سے ہوا نکل چکی اور جرمنی کی شکست بس دنوں کی بات رہ گئی ہے تو اُس نے زندہ حالت میں اتحادیوں کے ہاتھ لگنا اپنا شان کے خلاف گردانا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں