"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ پلّے نہیں پڑ رہا

معاملے میں hype پیدا ہو جائے، پوری کی پوری سرکاری مشینری حرکت میں آ جائے، راتوں رات تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل پا جائیں، ملزموں کی گرفتاری کے لیے زمین آسمان ایک کر دیا جائے، جو فرانزک لیب چھ ماہ سے فنڈز مانگ مانگ کر ہانپ چکی تھی‘ اُسے راتوں رات 5 کروڑ روپے کے فنڈز فراہم کر دیے جائیں، کوئی سانحہ پیش نہ آنے پر موٹروے پر پولیس تعینات کرنے کے لیے لکھے جانے والے خط کا چھ چھ ماہ تک جواب ہی نہ دیا جائے، جب سانحہ رونما ہو جائے تو راتوں رات موٹروے پر چوکیوں کے قیام سمیت پٹرولنگ کے معاملات گھنٹوں میں حل ہو جائیں ۔ معلوم نہیں سانحہ رونما ہونے کے بعد موٹروے پر تعینات کرنے کے لیے عملہ کہاں سے دستیاب ہوگیا؟ یہ بھی کہ 90کلومیٹر طویل موٹروے کو کسی بھی طرح کے انتظامات کے بغیر آمد و رفت کے لیے کھولا ہی کیوں گیا؟ بعد میں مشورے دینے کے بجائے اگر پہلے سے کم از کم اتنا ہی بتا دیا جاتا کہ پیارے شہریو! موٹروے پر اپنی ذمہ داری پر سفر کرنا‘ تو شاید کچھ بچت ہو جاتی۔ یہاں تو بس اتنا ہی سوچا گیا کہ آنے جانے والو تمہارا رب راکھا۔ بس یہی کچھ چلتا آ رہا ہے اور چلتا چلا جا رہا ہے ۔ وہی عمومی رویہ کہ جب تک کچھ ہو نہ جائے تب تک سر کو ریت میں دھنسائے رکھو اورکوشش کرو کہ حقائق دوسروں کو دکھائی ہی نہ دے سکیں۔ لاہور‘ سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے سانحے کے دوران یہ سب کچھ ایک مرتبہ پھر ہوتا دکھائی دیا۔ وہ ایک صاحب ہیں‘ جو انتہائی دھواں دھار تقریر کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ جب کبھی اسمبلی میں بولتے ہیں تو پھر کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی۔ اِس بات کا دھیان تک رکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ جناب کی بات کسی کی سمجھ میں بھی آ رہی ہے یا نہیں۔ بلاتکان اپوزیشن کے وہ لتے لیتے ہیں کہ خدا کی پناہ! سنتے ہیں کہ ملک کی شاہراہیں جناب کی ذمہ داریوں میں ہی آتی ہیں۔ اُمید واثق تھی کہ اُن کی طرف سے کم از کم اِس بات کا جواب تو ضرور سامنے آئے گا کہ موٹروے کو حفاظتی انتظامات کے بغیر کیونکر کھول دیا گیا۔ افسوس کہ اِن سطور کی تحریر تک یہ اُمید پوری نہیں ہو سکی۔ دوسروں پر چیخ و پکار کرنا، اُنہیں تنقید کا نشانہ بنانا کتنا آسان اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اِس کا اندازہ ہم سب سے زیادہ کسی کو کہاں ہو سکتا ہے۔ اِس کام میں ہمیں تو یدطولیٰ حاصل ہے، بیشتر صورتوں میں ہماری تو روزی روٹی چلتی ہی اس سے ہے۔
ماضی کی تین تین، چار چار حکومتوں کا حصہ رہنے والی متعدد شخصیات کی گاڑیوں پر موجودہ دورِ حکومت میں بھی پرچم لہراتا ہے۔ اللہ زندگی رکھے‘ یہ چہرے آنے والی حکومت کا حصہ بھی ہوں گے۔ تب اُس حکومت میں بیٹھ کر‘ جانے والی حکومت کے لتے لے رہے ہوں گے۔ بس زبان کی جادوگری ہی تو دکھانا ہوتی ہے، اُس میں یہ سب احباب یکتا ہیں۔ ذہن پر تھوڑا سا زور ڈالیں تو بخوبی یاد آ جائے گا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے موجودہ حکمران بھی زبان کی کیسی کیسی جادوگریاں دکھاتے تھے۔ مختصراً اتنا ہی ہے کہ زمانے تبدیل ہوگئے لیکن ہم تبدیل ہو سکے نہ ہمارے اندر تبدیلی کے کوئی آثار ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ آخر کو ہم کس طرف چل نکلے ہیں؟ ظلم و زیادتی کا ایسا بازار گرم ہے جس میں کبھی مندی آتی ہی نہیں۔ بات وہی ہے کہ جو معاملہ حساس صورت اختیار کر جائے تو اُسے حل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جاتا ہے، ورنہ پریس کلب کے سامنے ہر روز طاقتوروں کے ظلم کا نشانہ بننے والے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجال ہے اُن کی کہیں کوئی شنوائی ہوتی ہو۔ ہاں! اگر کوئی اِن مظاہروں میں خود سوزی کر لے یا کچھ بھی ایسا کرے کہ جس سے اُس کی جان پر بن آئے تو تب کہیں نہ کہیں گھنٹی بج جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو اِن مظاہروں میں نصف سے زائد پولیس کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بعض اوقات پولیس کو بلیک میل کرنے کے لیے بھی اِس طرح کے ڈرامے رچائے جاتے ہیں لیکن حقائق کچھ اور بھی بیان کرتے ہیں۔ نجانے ظلم کا شکار ہونے والے کتنے ہی افراد صوبے کے دور دراز علاقوں سے آکر لاہور میں اقتدار کے ایوانوں سے سر ٹکرا ٹکرا کر واپس چلے جاتے ہیں۔
اِدھر یہ عالم ہے کہ عجیب و غریب کارنامے سامنے آ رہے ہیں۔ نہ یہ کارنامے انجام دینے والوں کو کچھ سجھائی دے رہا ہے نہ دیکھنے والوں کے پلّے کچھ پڑ رہا ہے۔ معلوم نہیں کون سے جوہر دیکھ کر مہروں کو آگے پیچھے کیا جا رہا ہے۔ عدالت کے ریمارکس ہیں کہ پنجاب پولیس میں ہونے والے حالیہ تبادلے سیاسی مداخلت کو ظاہر کرتے ہیں۔ بقول چیف جسٹس صاحب‘ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ عوام کی جان و مال محفوظ نہیں۔ کسی کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں جو صرف دو سالوں کے دوران ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پانچ بار آئی جی اور تین‘ چار بار چیف سیکرٹری کو تبدیل کرنا پڑا۔ یہ بھی شاید پہلی مرتبہ ہی ہوا ہو گا کہ گزشتہ آئی جی شعیب دستگیر کی تبدیلی پر محکمے کے اندر سے بھی آوازیں اُٹھی ہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ نئے آئی جی کے تقرر پر بھی محکمے کے اندر بے چینی محسوس کی جا رہی ہے۔کیا اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہو سکتی ہے کہ پولیس افسران کی طرف سے سامنے آنے والی بے چینی یہ پیغام دے رہی ہے کہ بس بہت ہوگیا۔ نہ کوئی اصول‘ نہ ضابطہ بس جو مزاجِ یار میں آئے وہ ہونا چاہیے۔ ادارے کی ساکھ پہلے ہی کون سی بہت اچھی تھی جو رہی سہی کسر بھی پوری کی جا رہی ہے۔ یہ سب اُکھاڑ پچھاڑ جس شخصیت کے لیے ہوئی وہ آتے ہی متنازع ہوگئی۔ اب تو یہ بھی کھلا راز ہے کہ نئے سی سی پی او کی تعیناتی کس شخصیت کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ اُن کی طرف سے سامنے آرہا ہے جو گڈ گورننس اور احتساب کے سب سے بڑے دعویدار ہیں، جو پولیس کیا‘ ہر محکمے کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اِن سب دعووں پر عمل تو کیا ہوتا اُلٹا پورے ملک میں بے یقینی کی سی صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کے انتہائی اہم ادارے کے سربراہ اور اپنے بیان کے باعث متنازع ہو جانے والے صاحب کے بارے میں بہت کچھ ایسا بھی سامنے آ رہا ہے‘ جو اللہ نہ کرے کہ سچ ہو۔ اِن حالات میں پیدا ہوجانے والی صورت حال کا کچھ نتیجہ تو سامنے آ چکا ہے اور بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ ایسے میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ ہمارے تو یہ سمجھنے میں بھی کافی وقت صرف ہو گیا تھا کہ آخر موٹروے زیادتی کیس میں نئے سی سی او پی کے مشورے پر اتنا شور و غل کیوں برپا ہوا تھا۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اُنہوں نے شہریوں کو کچھ اچھے مشوروں سے نوازا تھا تو سننے والوں کو اُس پر کان دھرنے چاہئیں تھے۔ محترم شہزاد اکبر صاحب نے اُن کے بیان کی تفصیل سے وضاحت بھی کی تھی کہ سی سی پی اوصاحب کی بات کا مقصد کچھ اور تھا۔ موٹروے پر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون شاید اس معاشرے سے پوری طرح آگاہ نہیں تھی کیونکہ وہ دوسرے ملک سے پاکستان آئی تھی۔ ذرا دیکھئے تو پنجاب بھر کی اعلیٰ ترین قیادت پریس کانفرنس میں بیٹھ کر فخر سے اعلان کر رہی تھی کہ ملز م کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا گیا لیکن وہ پولیس کو دیکھ کر کھیتوں میں فرار ہو گیا ۔ اگلے ہی روز وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرکے صحتِ جرم سے انکار کر دیتا ہے اور اگر وہ واقعتاً اِس واقعہ میں ملوث نہ نکلا تو حکومت اور پولیس کہاں کھڑے ہوں گے؟ سچ میں کچھ بھی پلّے نہیں پڑ رہا کہ یہ سب کچھ ہوکیا رہا ہے اور یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا۔ کیونکر قوم کے رہے سہے اعتماد کو کرچی کرچی کیا جا رہا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں