"FBC" (space) message & send to 7575

اندازہ خود لگا لیجیے!

یہ 861ء کا ایک روشن دن تھا، اہلِ بغداد شہر کے مرکزی چوک میں جمع تھے، مجمع کے عین بیچوں بیچ ایک شخص ٹکٹکی پر ٹنگا ہوا تھا، سرکاری اہلکار اُس پر ایک کے بعد ایک کوڑے برسا رہے تھے، کوڑے پڑنے سے ہونے والی تکلیف پر جب وہ چلاتا تو مجمع خوشی سے تالیاں بجاتا۔ تقریباً ساٹھ سالہ اِس شخص کو کوڑے مارنے سے پہلے اِس کا تمام کتب خانہ ضبط کرکے اُس میں موجود کتابوں کو جلا دیا گیا تھا۔ قریب المرگ ہونے پر بمشکل اِس کی جان بخشی ہوئی جس کے بعد اِس شخص نے اپنی تمام عمر گمنامی میں بسر کردی اور 72سال کی عمر میں وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ یہ شخص یعقوب الکندی تھا۔اپنے دورکا مشہور ترین فلسفی، حساب دان، ماہرِ فلکیات اور موسیقی کا ماہر۔اِس کا شمار مسلم دنیا کے اولین حکما اور فلسفیوں میں ہوتا تھا اور ایک بڑا کارنامہ مسلم دنیا کو ارسطو کے خیالات سے روشناس کرانا بھی گردانا جاتا ہے۔النادم کے مطابق یعقوب الکندی نے مختلف موضوعات پر 260کتابیں تحریر کیں جن میں سے ہندسے پر 32، طب اور فلسفے پر 22، منطق پر 9اور طبیعیات پر 13کتابیں لکھی گئیں۔ آج یہ اُنہی شخصیات میں شامل ہیں جن کے برتے پر ہم بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں علم اور سائنس مسلم دنیا کی میراث تھی۔ پھر یہ ہو کہ ہوا کہ بدقسمتی سے بغداد میں یعقوب الکندی کی مخالف فکر کا حکمراں اقتدار میں آگیا جس کا خمیازہ تو بہرحال الکندی کو بھگتنا ہی تھا۔لاتعداد کوڑے کھانے کے بعد الکندی نے اپنی باقی عمر گمنامی میں بسر کی۔
ابوبکر محمد بن زکریا الرازی بھی اِسی صف میں شامل ہیں۔ اِس فلسفی و کیمیادان کا شمار علم طب کے اماموں میں ہوتا ہے۔پیدا تو یہ کہیں اور ہوئے لیکن بعد میں بغداد کی راہ لی اور وہاں اِن کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔ ایک وقت میں اُن کی تمام دلچسپی علم طب تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھی جس کا نتیجہ اُن کی مشہور ترین تصنیف ''الحاوی‘‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ اِسے طبی دنیا کا عظیم انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جاتا ہے۔ یہ جو آج کے طبی ماہرین خسرہ اور چیچک کے بارے میں بہت علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اِس کی ابتدائی معلومات ہمیں زکریاالرازی سے ہی ملتی ہیں۔ اُن کی طبی تحقیقات سے صرف مسلم مملکت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا فوائد حاصل کرتی رہی۔ ایک عرصہ تک بغداد میں قیام کے بعد یہ واپس اپنے آبائی شہر آگئے۔ پھر اِن کے ساتھ بھی وہی ہوا کہ حاکم وقت کسی بات پر الرازی سے ناراض ہوگیا۔حکم ہوا کہ اِس کی کتاب الحاوی تب تک اِس کے سر پر ماری جائے جب تک کتاب نہیں پھٹ جاتی یا پھر رازی کا سر۔ حاکم کے حکم پر ایسا ہی کیا جاتا رہا حتیٰ کہ الرازی اندھا ہوگیا اور پھر اپنی وفات تک دیکھنے کے قابل نہ رہا۔ بالآخر اپنے وقت کا یہ عظیم ماہر طب 925ء میں انتقال کرگیا۔ اِس دوران اس پر ملحد ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے۔
طبی دنیا کا آفتاب کہلائے جانے والے ابن سینا کا شمار بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن پر آج ہم بلا امتیاز فخر کرتے ہیں۔980ء میں پیدا ہونے والے ابن سینا خلیفہ ہارون الرشید کے 'سنہری دور‘ کے اہم ترین سائنسدانوں اور عالموں میں شمار ہوتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اِنہوں نے تقریباً 450 کتب لکھیں جن میں سے کم و بیش 240 کتب ہی باقی بچی ہیں۔ اِن میں سے بہت سی کتب اسلامی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں بھی پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ اِسی دوران اِن کے خیالات میں کچھ تبدیلی آئی تو یہ گمراہی کے مرتکب قرار پائے جس کے بعد یہ جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر چھپتے رہے۔ اِنہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب بھی اِسی چھپن چھپائی کے دوران ہی تحریر کی جو چھ سو سالوں تک دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی رہی۔ اِن کی لکھی ہوئی ''طبی قوانین‘‘ نامی کتاب 1973ء میں نیویارک میں دوبارہ شائع کی گئی؛ گویا یہ کتاب آج کے تقاضوں کو بھی بخوبی پورا کرتی ہے۔ فلسفے اور طب کے علاوہ ابن سینا کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، منطق، ریاضی اور کئی دوسرے علوم کے بھی ماہر تھے لیکن جب خلیفۂ وقت کو اِن کے خیالات پسند نہ آئے تو پھر اِنہیں جان بچانے کے لیے روپوش ہونا پڑا۔ یہ کوڑے کھانے سے بچنے میں تو کامیاب رہے لیکن روپوشی کے دوران اِنہیں کافی نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
12ویں صدی کے مشہور ترین عالم ابن رشد کو مسلم دنیا کی شان قرار دیا جاتا تھا‘ یہ وہی دور تھا جب مسلمانوں کے زیرنگیں اندلس کی گلیوں میں چراغ جلتے اور یورپ کی گلیوں میں گھوڑے گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں دھنس جایا کرتے تھے۔ تب ابن رشد کا شمار اندلس اور مسلم دنیا کی نمایاں ترین شخصیات میں ہوا کرتا تھا۔ قانون، علم فلکیات اور علم الحساب کے ماہر ابن رشد، خلیفہ یعقوب یوسف کے دور میں قرطبہ کے قاضی بھی رہے۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور مسندِ اقتدار پر خلیفہ المنصور براجمان ہوگیا۔ اُس کا اقتدار سے پہلے ہی ابن رشد کے خیالات سے کافی اختلاف تھا۔ اقتدار ملنے کے بعد ابن رشد کوسزا دینا المنصور کے ہاتھ میں تھا، سو سب سے پہلے اُس پر کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا۔ اِسی الزام کی آڑ میں اُس کا تمام کتب خانہ ضبط کرنے کے بعد نذرِآتش کردیا گیا۔ مختلف اداروں میں پڑھائی جانے والی اُس کی تمام کتابیں ضبط کرنے کے بعد اُنہیں قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد معافی تلافی ہوئی تو اُنہیں اندلس سے نکل جانے کی شرط پر رہائی نصیب ہوئی جہاں سے وہ مراکش چلے گئے اور پھر وہیں وفات پائی۔ ابن رشد نے دنیا کو اِس نکتے سے روشناس کرایا تھا کہ انسان کا ذہن صرف ایک طرح کی صلاحیت یا طبع ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کرکے اُسے عملی شکل دیتا ہے۔ انسان ازخود یا پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ ابن رشد کی وہ تحریریں بہت مقبول ہوئیں جو ارسطو کی مابعد الطبیعیات کی وضاحت اورتشریح کے تناظر میں لکھی گئیں۔ قصہ مختصر کہ یہ نابغہ روزگار شخصیت بھی خلیفۂ وقت کے عتاب کا نشانہ بنی رہی۔ 
یہ مسلمانوں کے سنہرے دور کی چند اُن شخصیات کا مختصر سا تذکرہ ہے جو ہمارے لیے آج بھی قابلِ فخر ہیں۔ وہ سنہرا دور جس کے بارے میں ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ تب یورپی دنیا کھالوں پر لکھ رہی تھی اور مسلم دنیا میں کاغذ کا استعمال رواج پا چکا تھا۔ وہ سنہرا دور جس کی مثالیں ہی آج ہمارے لیے سب سے بڑی فیس سیونگ ہیں کہ یہ بھی ہمارے پاس نہ ہوتیں تو ہم یورپ اور امریکا وغیرہ کے سامنے خود کو مزید بونا محسوس کرتے۔ مغربی دنیا میں بھی اپنے دانشوروں سے ایسے سلوک کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں لیکن تب وہ جہالت کے اندھیروں میں گم تھے لیکن مسلم دنیا تو اپنے سنہری دور سے گزر رہی تھی، پھر کیوں مختلف بادشاہوں نے نابغہ روزگار شخصیات سے یہ سلوک روا رکھا؟اِس لیے کہ مطلق العنانی کا سب سے بڑا دشمن علم ہی ہوتا ہے اور بد قسمتی سے مسلم دنیا زیادہ تر مطلق العنانیت کا شکار رہی ہے۔ آج بھی صورت حال میں تبدیلی کی کوئی اُمید دکھائی نہیں دے رہی۔ پوری مسلم دنیا پر نظر ڈال لیں، تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ہر جگہ تقریباً ایک جیسے حالات ہی نظرآئیں گے۔ آپ دیکھئے کہ ہمارے ایک سکالر نے ارادہ کیا کہ وہ ایک مسلم ملک میں جا کرتصنیف و تالیف کا کام کریں، تب اُنہیں آگاہ کیا گیا کہ ہمارے قوانین اِس کی اجازت نہیں دیتے جس کے بعد اُنہوں نے کینیڈا کو اپنا مسکن بنایا، وہاں وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آج جب ہم علم کے میدان میں اپنی کم مائیگی پر ماتم کرتے ہیں تو اِس کے پیچھے صدیوں پر محیط طویل تاریخ ہے۔ اگر تب بادشاہوں نے پڑھے لکھے افراد کو اپنا دشمن گردانا تو بدقسمتی سے آج بھی اِس روش پر پوری مضبوطی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔ بیشترصورتوں میں ہمارے حکمران ایک مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ کے لیے اِس پر براجمان رہنے کے خواب دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اِن خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے پہلا نشانہ علم اور صاحبانِ علم ہی بنتے ہیں۔ اِن حالات میں مسلم دنیا تاریخ کے کس دور میں تعلیمی میدان میں یورپ سے آگے نکلنا شروع ہوگی، اِس کا اندازہ خود ہی لگا لیجئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں