"FBC" (space) message & send to 7575

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

رونے دھونے کا سلسلہ طوالت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک عجیب و غریب خبر جیسے قطار اندر قطار‘ چلی آ رہی ہیں۔ مفاہمتی سیاست کے طعنے سہتے سہتے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف بھی حوالۂ زنداں ہوئے۔ ہاتھ پاؤں تو بہت مارے کہ کسی طرح بچت کا کوئی راستہ نکل آئے لیکن 'اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں‘ والا معاملہ ہو گیا۔ جواب آں غزل کے طور پر پی ڈی ایم کی طرف سے کوئٹہ میں جلسے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اِس کے بعد احتجاجی تحریک میں مزید تیزی لانے کا فیصلہ بھی ہو چکا۔ اِن تمام معاملات پر حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی بولیاں بول رہی ہیں۔ اِنہی بھول بھلیّوں میں حکومت کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اِس عزم کا اظہار سامنے آیا ہے کہ میاں نواز شریف کو بہرصورت ملک واپس لایا جائے گا۔ اِس حوالے سے وزیراعظم صاحب کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے ایک اجلاس میں مختلف محکموں کو خصوصی ٹاسک سونپے گئے ہیں۔ دیگر محکموں کی نسبت وزارتِ خارجہ اور ایف آئی اے کی ذمہ داریاں قدرے زیادہ ہوں گی۔ فیصلہ ہوا ہے کہ اِس سلسلے میں برطانوی حکومت کو خطوط لکھے جائیں گے۔ بابر اعوان صاحب تو کافی پُراُمید ہیں کہ میاں نواز شریف کو واپس لانے میں کامیابی حاصل کر لی جائے گی۔ اِن کے پاس اپنے یقین کی دلیل یہ ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ قیدی ہیں۔ اللہ کرے کہ حکومت کی اِن کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد ہو جائے۔کابینہ کے اِسی اجلاس میں اپوزیشن کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جس میں شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ سینئر وزرا پر مشتمل یہ کمیٹی اپوزیشن کی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر سیاسی معاملات پر بھی نظر رکھے گی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بار پھر یہ اعلان ہوا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا، اپوزیشن کو اگر ایسی کوئی بھی غلط فہمی ہے تو وہ اِسے ذہن سے نکال دے۔ کچھ دیگر معاملات پر بھی غورکیا گیا لیکن ہماری توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔
توقع تھی کہ حکومت کے عالی دماغ مل بیٹھے ہیں تو کچھ ایسے مسائل پر بھی بات ہوگی جنہوں نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ کچھ آٹے، چینی اور ادویات کے معاملات بھی زیر بحث آئیں گے کہ انتہائی بنیادی ضرورت کی یہ اشیا بتدریج ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتی چلی جاتی ہیں۔ آٹے کی قلت تو خیر کافی عرصے سے چل رہی ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ یہ تو ابھی صرف ٹریلر ہے کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے۔ اِس معاملے نے سال رواں کے آغاز پر ہی سر اُٹھا لیا تھا جب یہ خبریں سامنے آنا شروع ہوئی تھیں کہ بوجوہ گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ تب مارکیٹ فورسز کی طرف سے سفارش کی گئی تھی کہ حکومت کو فوری طور پر کم از کم 5 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں۔ یہ سفارش‘ سفارش ہی رہی کہ حکومت شاید اِس سے زیادہ ضروری معاملات میں اُلجھی ہوئی تھی۔ پھر وہی ہوا‘ جو ہونا چاہیے تھا کہ گندم کی کمی کے باعث آٹے کی قلت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب کم از کم پنجاب کی حد تک‘ حکومت نے 10کلو آٹے کے تھیلے کے نرخ 430 اور بیس کلو آٹے کے نرخ 860 روپے مقرر کر رکھے ہیں اور دعویٰ ہے کہ آٹا مارکیٹ میں دستیاب بھی ہے لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ قلت کے باعث فلور ملز کو بھی کم مقدار میں گندم سپلائی کی جا رہی ہے‘ لامحالہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ کے مقابلے میں سپلائی کم ہے۔ دوسری طرف چکی آٹا کے نرخ 76روپے کلو تک پہنچ چکے ہیں جن میں مزید اضافے کے خدشات موجود ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ گندم کی درآمد میں تاخیر کے باعث پیدا ہونے والا شارٹ فال 25 سے 30 لاکھ ٹن تک پہنچ چکا ہے۔ اِسی باعث یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دسمبر تک گندم کی قلت کا معاملہ بہت سنگین ہو جائے گا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے بھی اظہارِ تشویش کیا ہے۔ توقع تھی کہ حکومتی شہ دماغوں کی بیٹھک میں اِس معاملے پر واضح اقدامات کیے جائیں گے لیکن یہ توقع پوری نہ ہو سکی۔ ہاں! اتنا ضرور ہوا کہ وزیراعظم کی طرف سے گندم کی درآمد میں تاخیر پر اظہارِ برہمی کیا گیا۔
یہ اظہارِ برہمی بھی بڑے کمال کی چیز ہے‘ جو بہت بڑی بڑی ناکامیوں کو آسانی سے پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ آج کل تو ویسے بھی مختلف حوالوں سے اظہارِ برہمی کا سلسلہ کثرت سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ نوٹسز لینے کی روایت بھی مضبوط تر ہو چکی ہے، اتنی مضبوط کہ بعض اوقات دل سے بے اختیار یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش حکومت نوٹس نہ ہی لے تو اچھا ہے۔ وہ ایک نوٹس چینی کے نرخوں میں بے محابا اضافے پر بھی لیا گیا تھا‘ اُس نوٹس کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ توقع تھی کہ کابینہ کے اجلاس میں اِس معاملے پر بھی کھل کر بات ہو گی۔ کم از کم اِس عزم کا اظہار تو ضرور کیا جائے گا کہ ذمہ داران کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ میاں نواز شریف کی برطانیہ سے واپسی یقینی بنانے کیساتھ ساتھ چینی بحران کے ذمہ داران کو بھی ملک میں واپس لانے کا اہتمام کر لیا جاتا اور اُنہیں سزا دلائی جاتی جن کے باعث آج چینی کے نرخ سو روپے کلو تک پہنچ چکے ہیں۔ سچی بات ہے کہ شاید عوام نے بھی ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے کہ اب چینی کے نرخ کم ہونے والے نہیں۔ توقع تو یہ بھی تھی کہ ادویات کی قیمتوں میں ہونیوالے بے تحاشے اضافے پر بھی بات ضرور کی جائے گی‘ اور نہیں تو کم از کم 94 ادویات کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے میں کچھ کمی کرنے کی نوید ہی سنا دی جائے گی۔ مہنگائی کے مارے عوام کو لالی پاپ ہی دے دیا جائے گا کہ ادویات کی قیمتوں میں کمی پر غور کیا جائے گا‘ لیکن یہ امیدبھی نقش برآب ثابت ہوئی۔
ادویات کے نرخوں میں اضافے نے ایک مرتبہ پھر چند ماہ قبل پٹرول کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کی یاد دلا دی ہے۔ حکومت نے پٹرول کے نرخوں میں کمی کی تو یہ یکایک مارکیٹ سے غائب ہو گیا۔ عوام کئی ہفتوں تک پٹرول کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ حکومت حالات میں بہتری کی یقین دہانیاں کراتی رہی لیکن معاملہ حل نہ ہو سکا۔ معاملہ تب حل ہوا جب حکومت نے پٹرولیم کمپنیوں کے مطالبے پر پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کیا۔ اضافہ ہونے کی دیر تھی کہ ہر پمپ پر پٹرول وافر مقدار میں ملنے لگا۔ اب ادویات کے معاملے میں بھی یہ منطق پیش کی گئی ہے کہ اِن کی قیمتوں میں اضافے کا مقصد‘ اِن کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت نے ادویہ ساز کمپنیوں کے دباؤ میں آکر نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا۔
ایک توقع یہ بھی تھی کہ ملک کی تقدیر کے مالکان کی بیٹھک میں کچھ امن و امان کی صورتحال پر بھی غورکیا جائے گا، کم از کم موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم کی عدم گرفتاری پر تو ضرور بات ہو گی۔ اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا جائے گا کہ تین ہفتوں سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود سانحے کا مرکزی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا، اِس پر ذمہ داران سے باز پرس کی جائے گی لیکن یہ توقع بھی پوری نہ ہو سکی۔ غور ہوا تو اِس بات پر کہ نواز شریف کو ہر قیمت پر وطن واپس لایا جائے گا۔ ضرور واپس لائیں لیکن عوام کو کن گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیسی عجیب بات ہے کہ عوام کو درپیش انتہائی سنگین مسائل پر غور تک نہیں کیا جا رہا ہے۔ٹھیک ہے اپوزیشن‘ حکومت کے لیے مسئلہ ہوتی ہے اور کسی بھی حکومت کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو دبا کر رکھے لیکن اِس کوشش میں ایک حد سے تجاوز مسائل کا باعث بننے لگتا ہے۔ حکومت نے بظاہرتو ''ڈنڈے‘‘ کے زور پر اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن اب اُسے ردعمل کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ اپوزیشن کے دم خم کا صحیح اندازہ 11اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے جلسے سے ہو جائے گا لیکن بظاہر عزائم کافی خطرناک محسوس ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اگر توپوں کا رخ اسلام آباد کے بجائے کسی اور طرف مڑ گیا تو پھر کیا ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں