"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ بھی نیا نہیں

وہی الزامات، وہی عبارتیں اور وہی مقدمات۔ بات تو مضحکہ خیز ہے لیکن یہ بھی ہوا کہ جو پہلے آزادی مانگنے کی پاداش میں انگریزوں کی طرف سے غدا ر قرار پائے‘ بعد میں آزاد ملک میں بھی غدار کہلائے۔ غالباًغداری کا پہلا سرٹیفکیٹ مشہور شاعر فیض احمد فیضؔ کو ملا تھا‘ جنہیں پنڈی سازش کیس میں چار سال جیل میں گزارنا پڑے تھے۔ ایسا بھی ہوتا رہا کہ پہلے غدار قرار دیے جانے والے بعد میں اپنے ہی ستم ظریفوں کے شانہ بشانہ دکھائی دیے۔ شیخ مجیب الرحمن پر خفیہ مقدمہ چلا کر اُنہیں سزائے موت سنائی گئی۔ بعد میں یہ سزا ختم کر دی گئی۔ پھر یہی مجیب الرحمن جب بنگلہ دیش کے صدر کی حیثیت سے اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے تو بطورِ سربراہِ ریاست اُنہیں توپوں کی سلامی دی گئی۔ اِس حوالے سے ایک دلچسپ بات ہے کہ تب عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی‘ پنجاب میں شیخ مجیب الرحمن کے اکا دکا حامیوں میں شامل تھے۔ وہ اکیلے ہی شیخ مجیب کی رہائی کے لیے مال روڈ پر بینرز اُٹھائے کھڑے ہوتے تھے۔ 
جنرل ایوب کے دور میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں جام صادق اور غلام مصطفی کھر کے نام اٹک سازش کیس میں سامنے آئے۔ پھر جب ضرورت پڑی تو اُنہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیا گیا اور تمام الزامات ختم ہو گئے۔ دیکھا جائے تو اب تک غدار قرار دیے جانے والوں میں خان عبدالغفار خان سب سے سینئر قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اُنہیں آخری عمر تک ملک دشمنی کے طعنے ملتے رہے۔ اُن کے بھائی ڈاکٹر خان اور دیگر اہل خانہ بھی اِسی صف میں دکھائی دیتے تھے۔ پھر وہ سندھ کے جی ایم سید‘ قیام پاکستان کے فوراً بعد تک تو اُن کا شمار ملک کے بانیان میں کیا جاتا تھا کہ اُنہوں نے ہی سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی تھی۔ اِسی قرارداد نے بعد ازاں قیام پاکستان کے مطالبے کو قانونی اور آئینی جواز فراہم کیا تھا۔ بعد میں وہ مختلف مواقع پر اختلافِ رائے کے باعث معتوب ٹھہرے اور مختلف ادوار میں تقریباً 28برسوں تک پابند سلاسل رہے۔ اُن کا انتقال بھی دورانِ نظر بندی ہی ہوا تھا۔ 
اِس سے پہلے بلوچستان کے سردار نوروز خان بھی تو ہوا کرتے تھے جنہیں جان کی امان دینے کا حلف دیا گیا تھا مگر بعد میں بھائیوں اور بیٹوں سمیت حیدرآباد جیل میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ 1992میں ایک مقدمہ نواز دورِ حکومت میں ملیحہ لودھی پر بھی قائم کیا گیا تھا۔ اُس وقت وہ ایک انگریزی روزنامے کی ایڈیٹر تھیں اور حکومت مخالف ایک نظم اخبار میں چھاپنے کا الزام تھا؛ تاہم کارروائی کے آغاز سے تین روز قبل مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ یہ وہی ملیحہ لودھی ہیں‘ جو گزشتہ نواز دور میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی چلتا رہا۔ کتنے ہی نام اِس فہرست میں شامل نظر آتے ہیں۔ سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی بھی اِسی فہرست میں شامل نظر آتے ہیں‘ جن پر ایک خط شائع کرنے کی پاداش میں غداری کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔ اس کیس میں 23سال قید کی سزا سنائی گئی تھی؛ تاہم تین سال نو ماہ بعد ضمانت پر رہائی مل گئی۔ اور بھی کتنے ہی نام ہیں جو ملک دشمنوں کی صف میں دکھائی دیتے ہیں۔ اب موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر اور تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف اپنے متعدد ساتھیوں سمیت باضابطہ طور پر اِس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ کیا ایک مرتبہ پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے؟
اِس مرتبہ باغی ٹھہرائے جانے والوں کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدعیٔ مقدمہ کسی موقع پر یہ بھی بتا دیتا کہ خود اُس کے خلاف بھی اقدام قتل، ناجائز اسلحہ رکھنے اور کارِ سرکار میں مداخلت جیسے متعدد مقدمات درج ہیں۔ یہ بات حلق سے نیچے نہیں اُتر رہی کہ اگر تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے والا بھی غدار ہو سکتا ہے تو پھر پیچھے کیا بچتا ہے؟ اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اب ہمیں کسی پر بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اور تو اور موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ ذراتصور کیجئے کہ جب وزیراعظم آزاد کشمیر کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو کیسی کیسی باتیں ہوں گی۔ دوسری طرف اِس تمام سلسلے کو لے کر نیا فساد شروع ہو گیا ہے۔ مقدمہ درج کرانے والے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے بالکل ٹھیک اقدام کیا ہے‘ جن کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے وہ اِسے سیاسی انتقام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر تھوڑی بہت کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ اب پوری ہوجائے گی۔ باغیوں کو ایک اور بیانیہ مل گیا ہے کہ جب حکومت کے احتساب کے بیانیے سے ہوا نکل گئی تو اُس نے بغاوت کا بیانیہ اپنا لیا۔ لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تو کہتے ہیں کہ اگر اپنے حق کی بات کرنا بغاوت ہے تو یہ بغاوت اب ہر روز ہوگی۔ دوسری طرف سے بھی چار پانچ وزرا میدان میں اُترے ہیں۔ ویسے قانونی ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسے مقدمات عام شہر ی کی درخواست پر درج ہو ہی نہیں سکتے بلکہ ایسی درخواست متعلقہ اداروں کو بھجوائی جانی ضروری ہے۔ تحقیقات کے بعد اگر مناسب سمجھا جائے تو ہی مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
اس صورتحال کے بعد اگر کہیں پر حالات میں بہتری کی کوئی اُمید تھی بھی تو اب مدھم پڑ گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ چلتا آیا ہے اور شاید یونہی چلتا رہے گا۔ یہاں تو یہ بھی ہو چکا ہے کہ پوری کی پوری قوم کو ہی غدار قرار دے دیا گیا۔ وہی قوم جو آج ہم سے الگ ہونے کے بعد‘ ہم سے کہیں آگے نکل چکی ہے اور ہم ابھی تک دائرے میں ہی سفر کر رہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ضرورت پڑنے پر الزامات کی واپسی بھی اُتنی ہی تیزی سے ہوتی ہے جتنی تیزی سے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ روایت کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوچکی ہے۔ زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ اِس وقت حکومت کا حصہ بنی ہوئی متعدد شخصیات کے بارے میں تحریک انصاف کی ماضی کی آرا آسانی سے مل سکتی ہیں۔ حکومت کی اہم اتحادی قاف لیگ کے بارے میں بھی کچھ اچھی آرا کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا لیکن ضرورت پڑنے پر اب سب ایک ہیں۔ ایسے حالات میں غداری کے الزامات کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
بلاشبہ یہ صورتحال تشویش کا باعث ہے۔ کون ہے جو ملک و قوم کے لیے فوج کی قربانیوں سے انکار کر سکے؟ یہ فوج ہی ہے جو دشمنوں کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔ پوری قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے لیکن ایسی صورتحال پیدا کرکے اداروں کا بھی کوئی بھلا نہیں کیا جا رہا۔ شاید ایسا کرنے والوں کو اِس بات کا احساس ہو گیا ہے‘ اسی لیے اب یہ حکومتی موقف سامنے آ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اِس مقدمے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔اب جو پینڈورا باکس کھلا ہے تو اِس میں سے معلوم نہیں کیا کچھ برآمد ہوگا لیکن ہو وہی کچھ رہا ہے‘ جو ہمیشہ سے ہی ہماری ملکی تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ 
ہمیں ایک سنجیدہ اور متین قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس روش کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں