"FBC" (space) message & send to 7575

مہنگائی بصورت اپوزیشن

ذہانت کسی کی میراث نہیں ہوتی تو حماقتیں بھی کسی سے مخصوص نہیں۔ جب کوئی غلطی کرنے کے بعد انسان اپنی تمام طاقت اُسے سچ ثابت کرنے میں صرف کردے تو حالات بگڑ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ گوجرانوالہ جلسے کے بعد حسب روایت ایک لاحاصل بحث ہنوز جاری ہے۔پی ڈی ایم کے رہنما اسے حکومت کے خلاف ریفرنڈم سے تعبیر کررہے ہیں تو حکومتی زعما جلسے کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ با ت ہے کہ جب بھی کوئی جلسہ ہوتا ہے تو اُس میں حاضری کے حوالے سے متضاد دعوے اکثر ہونٹوں پر مسکراہٹ سی بکھیر دیتے ہیں۔ پی ڈی ایم والے اسے حکومت کے خلاف ریفرنڈم قرار دے رہے ہیں تو حکومت اسے ناکام ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔اپوزیشن ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ جناح سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن حکومت کے مطابق سٹیڈیم کا بڑا حصہ خالی پڑا ہوا تھا۔یہ لاحاصل بحث کچھ دنوں تک چلتی رہے گی‘ جس کے بعد سب دوست احباب کسی نئے معرکے پر دست و گریباں ہوجائیں گے۔ اب یہ جلسہ ناکام تھا یہ کامیاب اس کا فیصلہ تو دیکھنے والے خود ہی کرلیں تو بہتر ہے کہ آج کے دور میں بھلا کون سی چیز آنکھوں سے اوجھل رہ سکتی ہے۔ 
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صرف اڑھائی سالوں کے دوران ایسا کیا ہوگیا کہ اپوزیشن حکومت مخالف تحریک کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے؟حکومت کی طرف سے بار بار یہ کہا تو جارہا ہے کہ اسے اپوزیشن کی تحریک سے کوئی پریشانی نہیں۔یوں بھی آج تک ایسی کوئی حکومت نہیں آئی جس نے اعتراف کیا ہو کہ اپوزیشن کی تحریک اُس کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ اب بھی چاہے یہی تاثر دیا جاتا رہے کہ حکومت مضبوط قدموں پر کھڑی ہے لیکن پریشانی کا عنصر تو بہرحال پیدا ہوچکا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ آگے چل کر اس پریشانی میں مزید اضافہ ہونا عین ممکن ہے۔ یہ حالات پیدا کرنے میں اپوزیشن کا تو جو کردار ہے وہ توہے ہی لیکن دیکھا جائے تو اس میں حکومتی غلطیوں کا اپوزیشن سے بھی اہم کردار ہے۔ گوجرانوالہ جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے بیشتر حاضرین کی طرف سے واضح طور پر اس کا اظہار کیا جاتا رہا کہ وہ دراصل مہنگائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے آئے ہیں۔ جلسے سے ہٹ کر بھی کسی سے بات کرلی جائے تو تان یہیں ٹوٹتی ہے کہ مہنگائی کب کم ہوگی؟آپ دیکھ لیجئے کہ پوری کی پوری حکومتی مشینری دن رات مہنگائی میں کمی کے لیے سرگرم عمل ہونے کے دعوے کررہی ہے لیکن صورتحال میں رتی برابر بہتری نظر نہیں آرہی ۔ ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ ہی ملاحظہ کرلیجئے ۔ گزشتہ ہفتے کے دوران چینی ‘ آٹا‘ مرغی ‘ انڈے اور ٹماٹر سمیت 25اشیا مزید مہنگی ہوگئیں اور یہ مسلسل ساتواں ہفتہ ہے کہ مہنگائی میں روزافزوں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ یہ تمام اشیا وہ ہیں جو انتہائی بنیادی ضرورت کی ہیں۔ ان کے بغیر کسی کا بھی گزارہ ممکن نہیں ‘لیکن ان کے نرخ ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل اپوزیشن جو حکومت کے لیے زیادہ مشکل کا باعث بن رہی ہے۔ 
کوئی عقل کا اندھا بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ صرف اڑھائی سالوں کے دوران اپوزیشن ‘ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث نہ بن پاتی اگر اس میں خود حکومتی حماقتوں کا عمل دخل نہ ہوتا ۔ کسی حد تک یہ تسلیم کہ کورونا کے باعث معیشت میں بگاڑ پیدا ہوا اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری بھی بڑھی ۔ اگر کورونا سے پہلے کی صورتحال کا جائزہ لے لیا جائے تو مہنگائی سمیت دیگر مسائل اُس سے پہلے ہی سر اُٹھانا شروع ہوچکے تھے۔ چلیں کچھ معاملات کا تعلق آئی ایم ایف کی شرائط سے ہوسکتا ہے لیکن جو اشیا ملک کے اندر پیدا ہوتی ہیں اُن کا آئی ایم ایف کی شرائط سے کیا تعلق؟کیسی عجیب بات ہے کہ ہم خود کو زرعی ملک قرار دیتے ہیں لیکن زرعی اشیا کی قلت کا شکار ہیں۔گندم بحران کی مثال ہی لے لیجئے کہ یہ معاملہ حل ہونے میں نہیں آرہا۔یہ دراصل 2018ء میں شروع ہوا تھا جب پنجاب کے اُس وقت کے سیکرٹری خوراک نے فیڈ ملوں کو 10لاکھ ٹن گندم اوپن مارکیٹ سے خریدنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سے پہلے حکومت کو یہ بریفنگ دی گئی کہ گندم کی اتنی بڑی مقدار گوداموں میں پڑی رہی تو خراب ہوجائے گی‘ اگر دس لاکھ ٹن گندم فیڈ ملوں کو بیچ بھی دیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اجازت ملنے پر یہ سلسلہ شروع ہوا تو فیڈ مل مالکان کی چاندی ہوگئی۔ اُنہیں مرغیوں کی خوراک تیار کرنے کے لیے مکئی 18سو روپے من میں خریدنا پڑ رہی تھی جبکہ گندم اُنہیں تقریبا گیارہ سو روپے من میں مل رہی تھی۔ بعد میں گوداموں میں پڑی ہوئی تقریبا 38لاکھ من گندم ایکسپورٹ بھی کردی گئی اور پھر اُسی سال گندم امپورٹ کرنا پڑی۔یہ تو تھی ایک بار کی غلطی لیکن دوسری بار ہم نے پھر یہی کیا کہ 2019ء میں بھی گندم باہر بھیجی گئی اور پھر امپورٹ کی گئی اور اب ایک مرتبہ پھر یہی ہورہا ہے۔ کیوں؟یہ سمجھنے کے لیے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا لیں۔ 
چینی کے نرخ بھی بدستور ریکارڈ سطح پر برقرار ہیں جسے اب معمول کی بات سمجھ لیا جانا مجبوری بن چکا ہے۔اس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئے ہوئے بھی عرصہ ہوگیا لیکن ذمہ داران پکڑے گئے نہ چینی کی قیمتیں کم ہوئیں۔ اب اس صورتحال پر وزیراعظم عمران خان صاحب کی طرف سے ایک مرتبہ پھر نئی حکمت عملی کا اعلان تو ہوا ہے ‘ سو اُمید کا دامن بہرحال تھامے رکھنا چاہیے۔ سچی بات ہے کہ اب تو مہنگائی میں کمی پر حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوہی جانے چاہئیں۔ عالم یہ ہوچکا کہ اپر مڈل کلاس طبقے کی معاشی پریشانی بھی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران مہنگائی کے ستائے شہریوں کی فریادیں سن کر افسوس ہوتا ہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں تو پہلے بھی نہیں بہتی تھیں لیکن اب تو جو ہورہا ہے وہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس نے اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کردیے ہیں۔حکومت اگر اپوزیشن جماعتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس وقت مہنگائی کو اپنا سب سے بڑا مخالف مان کر چلے تو شاید اُس کے لیے کچھ آسانی پیدا ہوجائے۔جو وقت صبح سے شام تک پریس کانفرنسیں کرنے میں ضائع کیا جاتا ہے ‘ اُس کا بہتر استعمال بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ شاید واحد کام ہے جس میں حکومت اپوزیشن سے بہتر پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔ 
عوام کو اپوزیشن کی لاکھ باتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ اُن کے پاس نواز شریف کی تقریر کو ناپسند کرنے کی وجوہات بھی ہیں‘ اُن کے پاس مولانا فضل الرحمن کے جلسے میں بہت تاخیر سے پہنچنے پر باتیں کرنے کے مواقع بھی موجود ہیں ۔ ان حالات میں مہنگائی ہی ایک ایسا نکتہ ہے جس پر وہ اپوزیشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ اپوزیشن اتنی سرعت سے یہ حالات پیدا کرنے کی پوزیشن میں کبھی نہ آپاتی‘ وہ بھی ان حالات میں‘لیکن پھر بھی سیاسی ہلچل پیدا ہوچکی ہے۔ جانے والوں کی کرپشن کا بیانیہ بھی دم توڑتا ہوا محسوس ہورہا ہے کہ ان باتوں میں عوامی دلچسپی کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سچی بات ہے کہ ان باتوں کو عوامی سطح پر اب زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔ اس وقت مہنگائی ایک ایسے عنصر کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جو اکثریت پر بُری طرح اثرانداز ہورہی ہے ۔ تمام تر صورتحال کا جائزہ لیاجا ئے تو بے شک یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت مہنگائی ہی حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں