"FBC" (space) message & send to 7575

ہن سانوں گھبران دیو

ایک اور تلقین منظر عام پر آئی ہے کہ عوام تھوڑا سا انتظار کریں‘ ملک طاقتور بنے گا۔ یہ نوید بھی بالکل نئی ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں اضافے کے باعث اب ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے تسلسل کے ساتھ نہ گھبرانے کے مشورے دیے جاتے رہے ہیں۔ خدا شاہد ہے کہ شروع شروع میں ہم اِن مشوروں پر بھرپور عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں لیکن اب حوصلہ جواب دیتا جا رہا ہے۔ خود ہی بتائیے کہ اگر حوصلہ جواب دے جائے تو اِس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ایک آدھ روز پہلے تو رہا سہا حوصلہ بھی دم توڑ گیا جب دکاندار نے منہ پھاڑ کر کہہ دیا کہ میاں 2 سو روپے جیب میں ہیں تو درجن انڈے لے جاؤ‘ ورنہ اپنا راستہ ناپو۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق آدھ درجن انڈے خریدنے پر ہی اکتفا کیا۔ سبزی فروشوں نے بھی ایک طرح سے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ سالوں سے جہاں سے راشن وغیرہ کی باقاعدگی سے خریداری کرتے رہے ہیں، اُن بے لحاظوں نے بھی جیسے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ مجال ہے جو دیرینہ تعلقات کا رتی برابر بھی پاس رکھتے ہوں۔ سیدھے سیدھے بتا دیتے ہیں کہ چینی چاہیے تو کم از کم 110روپے فی کلو کے حساب سے آپ کے پاس رقم ہونی چاہیے۔ ویسے قوم کو مبارک ہو کہ ہمارے محبوب قائد نے یہ خوش خبری سنا دی ہے کہ گھبرانا نہیں‘ چینی اب مزید مہنگی نہیں ہو گی۔ مطلب اب ہمیں اپنے دلوں کو سمجھا لینا چاہیے کہ چینی کے نرخ سو سے ایک سو دس روپے فی کلو کے درمیان ہی گردش کرتے رہیں گے۔ یوں بھی کیا ایک ہی چیز کا مسلسل رونا رونا۔ اِس دنیا میں تو ویسے بھی 'آج مرے کل دوسرا دن‘ والا چلن ہے، یہ ہرگز ضروری نہیں کہ اب ہمہ وقت چینی کا دکھڑا ہی سنایا جائے۔ سیانے ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے‘ سو انتظار کریں اُس میٹھے پھل کا۔
خیر چھوڑیں چینی کو‘ لیکن یہ آٹے والوں کو کیا ہوا ہے۔ سالوں کی خریداری کے بعد کئی ایک چکی مالکان سے تو ہمارے ذاتی تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔ غمی‘ خوشی پر آنا جانا بھی لگا رہتا ہے لیکن اب اُن کی آنکھوں میں بھی اجنبیت سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک آدھ روز پہلے ہی بیزار بیٹھے ہوئے مقصود بھائی نے جماہی لیتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ آٹا 90 روپے کلو ہو گیا ہے۔ کچھ رعایت کی بابت استفسار کیا تو کاٹ کھانے کے انداز میں بولے کہ جب ہمیں گندم مہنگے داموں مل رہی ہے تو آپ کو سستا آٹا کہاں سے دے دوں؟ اُن کا انداز دیکھ کر خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ پھر سوچا کہ ہمارے وزیراعظم صاحب ہمیشہ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں تو ہمیں ضرور اُن کی بات ماننا چاہیے۔ اللہ بھلا کرے سبزی والوں کو جو اِن گئے گزرے حالات میں بھی کچھ نہ کچھ دید لحاظ کر لیتے ہیں۔ ٹماٹر اگر دو سو روپے کلو میں فروخت ہو رہے ہیں تو دیرینہ تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے وہ پانچ دس روپے رعایت کر دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ خیال تو ستاتا ہے کہ بھلا ٹماٹر بھی کوئی دو سو روپے کلو فروخت ہونے والی آئٹم ہے لیکن پھر اِس پر شکر ادا کرتا ہو ں کہ چلو ہمیں کچھ تو رعایت کر دی گئی ہے۔ کچھ روز پہلے اہلیہ محترمہ نے یہ خیال کرتے ہوئے شملہ مرچیں پکانے کا قصد کیا کہ یہ سبزی سستی ہو گی۔ اِسے لانے کا قرعہ فال ہمارے ہی نام نکلا لیکن جب اِس کے نرخ ہمارے گوش گزار کیے گئے تو چودہ سو طبق روشن ہو گئے۔ طبق تو چودہ ہی ہوتے ہیں لیکن نرخ سن کر لگنے والے جھٹکے سے اِن میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ سبزی فروش نے طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے صرف اتنا بتانے پر اکتفاکیا کہ صاحب شملہ مرچ ساڑھے تین سو روپے کلو ہے۔ نرخ بتانے کے بعد اس نے ایک لمحے میں اندازہ کرلیا کہ اِن تلوں میں تیل نہیں‘ سو وہ وقت ضائع کیے بغیر دوسرے گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ہم ہونقوں کی طرح کھڑے سوچتے رہ گئے کہ اب کیا خریدا جائے۔ پھر شامت گوبھی کی ہی آئی‘ کیونکہ 110 روپے کلو کے اعتبار سے یہ قدرے کم قیمت سبزی تھی یا پھرکریلے تھے جو سو روپے کلو میں فروخت ہو رہے تھے۔ اِس صورت حال پر میں کچھ کچھ گھبرا گیا تھا لیکن پھر خود کو تسلی دی کہ گھبرانا نہیں ہے، سو حوصلہ کر کے گھبراہٹ کو مار بھگایا۔
پھر یاد آیا کہ ادرک اور لہسن لانے کی تلقین بھی کی گئی تھی۔ دل کڑا کرکے سبزی فروش سے ادرک اور لہسن کے نرخ دریافت کیے۔ اِس مرتبہ اُس نے قدرے استہزائیہ انداز میں بتایا کہ ادرک محض پانچ سو روپے کلو اور لہسن صرف 360 روپے کلو ہے۔ تب اُس نے ہمارا کھلے کا کھلا رہنے والا منہ دیکھ کر کہا کہ جناب فکر نہ کریں! میں آپ کو دس‘ دس روپے فی کلو کے حساب سے رعایت کر دوں گا۔ اللہ تیرا بھلا کرے بھائی جو تم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی لیکن تب تک میں بہت زیادہ گھبرا چکا تھا۔ سارا اندازے تخمینے کا علم فیل ہو گیا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور اِس کے پیچھے کون ہے۔ خیال آیا کہ ابھی تک تو خود کو گھبرانے سے روکا ہوا ہے لیکن کب تک اپنی ہمت مجتمع کیے رکھوں گا، کب تک جھوٹی تسلیوں سے دل بہلاتا رہوں گا، کب تک کھوکھلے الفاظ پر یقین کرتا رہوں گا؟ سچی بات ہے کہ صرف میں کیا‘ ہرکوئی ہی اِس صورت حال میں پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اِس وقت ہر پاکستانی اپنی ماہانہ آمدنی کا کم از کم 40 فیصد صرف اشیائے خور و نوش کی خریداری پر صرف کر رہا ہے۔ باقی حساب خود لگا لیں کہ بقیہ آمدن سے اُسے یوٹیلٹی بلز، بچوں کی فیس اور دوسرے اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اِس پر اگر بار بار یہ کہا جاتا رہے کہ گھبرانا نہیں‘ حوصلہ رکھنا ہے، ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے... تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ ڈاکٹر حضرات اکثر یہ کہتے ہیں کہ کھانا کھانا بھول جائیے گا لیکن ادویہ لینا ہرگز مت بھولیے گا۔ آج یہ عالم ہو چکا ہے کہ یا تو آپ کھانا کھا لیں یا پھر میڈیسن لے لیں۔ شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی ادویات سمیت تقریباً تمام ادویات کے نرخ 150فیصد سے 4 سو فیصد تک بڑھائے جا چکے ہیں۔ تاویلات یہ پیش کی جاتی ہیں کہ نرخ بڑھانے سے جعلی ادویات تیار کرنے کی حوصلہ شکنی ہو گی، ادویات وافر مقدار میں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی اور اِن کی ذخیرہ اندوزی نہیں ہو سکے گی۔ کیا حکومتیں ایسی بھدی تاویلات پیش کرکے اپنی ذمہ داروں سے فرار حاصل کرتی ہیں؟
ایک مرتبہ پھر معذرت کہ نہ گھبرانے کی تلقین کے باوجود تھوڑی سی جذباتیت طاری ہو گئی تھی لیکن کیا کیا جائے کہ انسان ایک حد تک ہی گھبرانے سے بچا رہ سکتا ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہو چکا کہ ہمارا سالانہ گروتھ ریٹ صفر تک چلا گیا ہے۔ کرنسی افغانستان اور بنگلہ دیش کی کرنسیوں سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ وہی بنگلہ دیش جس کی کرنسی 'ٹکا‘ کا ہم کسی زمانے میں مذاق اُڑایا کرتے تھے، جن لوگوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اب اُن کی ترقی کی رفتار کو دیکھا جائے تو حیرانی ہونے لگتی ہے کہ نہ اُن کا جغرافیا ئی محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور نہ ہی وہ کوئی بڑی طاقت ہیں لیکن اِس کے باوجود ترقی کی شرح میں ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر مختلف چیزوں پر سبسڈی ختم کر رہی ہے‘ جس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے اِن شعبوں میں تیار ہونے والی پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گندم، چینی اور آٹے کے حوالے سے بدانتظامی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں جس کے بعد انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیا بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ غریب تو دور‘ اس وقت تو مڈل کلاس والے بھی انتہائی پریشان ہیں۔ اِن حالات میں ہماری حکومت سے مودبانہ گزارش ہے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم‘ ہن سانوں کھل کے گھبران دی اجازت ہی دے دیو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں