"FBC" (space) message & send to 7575

ہم جیسے بھلا کیا سمجھیں گے

سرعت رفتار تبدیلیوں کے وہی نتائج متوقع تھے جو برآمد ہورہے ہیں۔کسی کے پلے نہیں پڑ رہا کہ آخر کو ہوکیا رہا ہے۔ بالکل اُسی مزا ج کی جھلکیاں دکھائی دے رہی ہیں جو کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہوں کا خاصا سمجھی جاتی تھیں۔ خوش ہوئے تو ہیرے جواہرات میں تُلوا دیا اور مزاج کے خلاف کوئی بات ہوگئی تو آن کی آن میں جہانِ فانی سے رخصت کردیا، زنداں کے حوالے کردیا یا کم از کم عہدے سے معزولی تو یقینی ہوتی تھی۔ اکثراوقات تو بیچاروں کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آخر اُن سے ایسی کیا خطا سرزد ہوگئی ہے جو آنِ واحد میں تمام خدمات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔سنتے ہیں کہ ایک نجومی ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے بانی ظہیرالدین بابر کا بہت پسندیدہ تھا۔ 1527ء میں کنوہہ کے مقام پر رانا سانگا اور ظہیرالدین بابر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے آمنے سامنے آئے تو رانا سانگا کی فوج دیکھ کر بابر کی سپاہ حوصلہ ہار بیٹھی۔یہ وہی رانا سانگا تھا جس نے لودھیوں سے جان چھڑانے کے لیے خود بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ شاید اس کا خیال تھا کہ لودھیوں کو شکست دے کر بابر واپس کابل چلا جائے گا اور برصغیر پر اُس کی حکمرانی کاخواب پورا ہوجائے گا۔ بابر نے لودھیوں کو شکست دے کر رانا سانگا کا ایک خواب تو پورا کردیا لیکن پھر وہ یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اب بابر کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے رانا سانگا کی فوج اُس کے مدمقابل تھی۔ ایک طرف بابر کے صرف 16ہزار سپاہی اور دوسری طرف ڈیڑھ لاکھ کی فوج پھریرے لہرا رہی تھی۔ بظاہر کمزور دکھائی دینے والی سپاہ میں بددلی کا پھیل جانا عین فطری تھا۔ اِسی پریشانی میں مشروبِ مغرب سے دل بہلاتے ہوئے بابر نے اپنے نجومی سے جنگ کے نتائج کی بابت پوچھا تو کم بخت نے شکست کی پیش گوئی کردی۔
تاریخ کی کچھ کتب میں لکھا ہے کہ تب بابر نے نجومی سے پوچھا کہ تم تو سب کچھ جانتے ہو تو پھر تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ تمہاری عمر کیا ہے۔ نجومی نے جواب دیا کہ بالکل جناب میں مزید 20سال تک زندہ رہوں گا۔ اتنا سننا تھا کہ ظہیرالدین بابر نے تلوار نکال کر نجومی کا سر قلم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے اپنی فوج سے ایک بہت جذباتی سا خطاب کیا کہ جس کو اپنے بارے میں کچھ معلوم نہیں‘ وہ بھلا کیا جانے کہ ہمیں شکست ہوگی یا فتح۔ اِسی دوران اُس نے تائب ہونے کا اعلان کرتے ہوئے قسم کھائی کہ اب وہ کبھی ام الخبائث کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔بابر کی اِن باتوں نے فوج پر جادوئی اثر چھوڑا اور تعداد کے انتہائی فرق کے باوجود بابر رانا سانگا کے خلاف جنگ جیت گیا۔ اِس کے بعد تاریخ یہی بتاتی ہے کہ فتح کے بعد بابر اپنی قسم پر قائم نہ رہ سکا تھا اور دوبارہ بہت سی قباحتوں کی طرف متو جہ ہوگیا؛ تاہم اس نے اس فتح کے ساتھ ہی آئندہ کئی صدیوں تک کے لیے ہندوستان میں خاندانِ مغلیہ کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اِس جنگ نے فیصلہ کردیا تھا کہ ہندوستان کا حاکم کون ہوگا۔ جنگ میں شکست کے بعد رانا سانگا تاریخ کے اوراق میں گم ہوگیا۔ اِس جنگ کے بعد ایک فریق کا خاتمہ اور دوسرے کے شاندار اقتدار کا آغاز ہوا تھا۔ تاریخ اور بھی بہت کچھ بتاتی ہے لیکن تاریخ کے اوراق میں بابر کے پسندیدہ نجومی کا ذکر بس اُس کا سرقلم ہونے کے ذکر تک ہی ملتا ہے۔وہ بیچارہ جو مستقبل سے اپنے سردار کو آگاہ رکھتا تھا‘ اُسے خود خبر نہ ہوسکی کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ خیر چھوڑیں تاریخ کو! یوں بھی اِس سے کون سبق سیکھتا ہے؟ جس کے ہاتھ میں ایک مرتبہ طاقت آگئی تو پھر اُس کے ذہن میں یہی بات سماتی ہے کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے اِس طاقت کا مالک رہے گا۔ معلوم تو تب پڑتا ہے جب پاؤں کے نیچے سے اچانک زمین کھسک جاتی ہے۔ 
یہ واقعہ تو ایسے ہی درمیان میں آگیا ورنہ بات تو پنجاب کابینہ میں ہونے والی حالیہ اہم تبدیلی کی کرنا چاہ رہے تھے۔ وزارتِ اطلاعات سے فیاض الحسن چوہان صاحب کی رخصتی اور فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی آمد سب کے لیے کافی حیرت کا باعث بنی ہے۔ وزارتِ اطلاعات سے سبکدوشی کی خبر سننے کے بعد حیرت خود فیاض الحسن چوہان صاحب کے چہرے سے بھی عیاں تھی۔ کہاں تو وہ یہ دعوے کررہے تھے کہ دسمبر میں اپوزیشن کا صفایا ہوجائے گا لیکن انہیں یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اُن کے ساتھ نومبر میں ہی ہاتھ ہوجائے گا۔ بظاہر تو وہ بہت جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور ہرروز ایک پریس کانفرنس کرنا اُنہوں نے خود پہ لازم قرار دے رکھا تھا۔ اِن کانفرنسز میں وہ ''حکومتی معیارِ گفتگو‘‘ کے عین مطابق اپوزیشن کے خوب لتے لیتے تھے۔ اتنی فعال شخصیت کہ خود وزیراعظم عمران خان کئی مواقع پر ان کی تعریف کرچکے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ابھی کچھ روز پہلے اُنہوں نے ایک اجلاس کے دوران دوسرے وزرا کے سامنے فیاض الحسن چوہان کی مثال دی تھی۔ یہ تعریف سننے کے بعد تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جو دور‘دراز کی کوڑیاں لاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے، جو دوسروں کی قسمت کا حال بتانے کے لیے ہر روز اپنی صلاحیتوں کے بھرپور جوہر دکھاتے تھے، اُنہیں خود ہی یہ خبر نہ ہوسکی کہ اُن کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ میڈیا پرسنز سے اُنہیں اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کی خبر ملنے پر جو ان کے چہرے پر اُبھرنے والے تاثرات تھے‘ وہ سب کو تادیر یاد رہیں گے۔ بے یقینی اور تاسف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ وہ یہ تک نہ بتا سکے کہ اُن کے ساتھ یہ کیوں اور کیسے ہوگیا۔ یہی کچھ اِس سال ماہِ اپریل میں بھی ہوا تھا۔ اُس وقت تب کی وفاقی وزیراطلاعات کو یکایک اطلاع ملی تھی کہ اُنہیں ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا ہے‘ تب وہ حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والی تھیں لیکن بمشکل اُنہیں اِس سے باز رکھا گیا‘ بہرحال اب اُنہیں اِس وفاداری کا صلہ پنجاب میں مل چکا ہے۔ اب جانے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اُن کی سبکدوشی سے سب سے زیادہ خوشی را اور بھارت کوہوئی ہے‘ آنے والے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اُن کی تقرری اپوزیشن پر بم بن کر گری ہے۔ خیر پنجاب میں آنے والی یہ تبدیلی خاصی اہم قرار دی جارہی ہے۔
گزشتہ دوسالوں سے تو تبدیلیوں نے کچھ زیادہ ہی رفتار پکڑ لی ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب کون کس عہدے سے فارغ کردیا جائے۔ وزیراعظم کی ایک اہم وزیرکے ساتھ ملاقات ہوتی ہے، وزیر صاحب پر بھرپوراعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ٹھیک تین گھنٹوں کے بعد اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔یہی حالات بیوروکریسی کے دکھائی دے رہے ہیں۔ پنجاب میں مختصر سے عرصے کے دوران متعدد چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کی تبدیلی نے بھی غلغلہ مچارکھا ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ تبدیلیوں کا یہ عمل ابھی رکنے والا نہیں ہے‘ کچھ مزید شخصیات بھی اِن تبدیلیوں کی زد میں آسکتی ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب انسان کو طاقت ملتی ہے تو پھر اُسے اِس کے استعمال کا طریقہ بھی آنا چاہیے۔ جوشِ جذبات میں اتنا زیادہ آگے نہیں نکل جانا چاہیے کہ بعد میں پچھتاوے کا احساس ہوتا رہے۔ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط شائستہ انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ انسان گفتگو کرے تو سننے والے کو لطف آئے‘ ضروری نہیں کہ ہروقت ہروقت لٹھ لے کر مرنے مارنے پر تلا دکھائی دے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے مقدر میں ہے‘ وہ ہمیں مل کر ہی رہے گا تو پھر اِس بات پر یقین بھی رکھنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ بڑوں کو خوش کرنے کے لیے شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اُس کے ساتھ کب کیا ہوجائے لیکن اگر انسان دورانِ اقتدار بھی اپنی حدود میں رہے تو اُس کے لیے عہدے آنے جانے والی چیز سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے... ہم جیسے مادہ پرست بھلا اِن باتوں کو کیا سمجھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں