"FBC" (space) message & send to 7575

فیس سیونگ کا رروائیاں…(1 )

سرکاری اداروں کی طرف سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اپنی اپنی کارکردگی کے حوالے سے وٹس ایپ پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ اینٹی کرپشن والے یہ دعوے کرتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف اُن کی مہم زوروشور سے جاری ہے۔ ہرروز ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آج اتنے افراد کو رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا‘اتنے افراد کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ ساتھ ہی کسی اعلیٰ عہدیدار کا یہ روایتی جملہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘ یا پھر یہ کہ رشوت خوروں کو اپنے کئے کی سزا بھگتنا ہوگی۔سرکاری کارکردگی پر مشتمل ایسے پیغامات اتنی کثرت سے ملتے ہیں گویا خوش فہمی سی ہونے لگتی ہے کہ بس ا ب رشوت کا دور دورہ ختم ہونے ہی والا ہے۔مگر یہ خواب تب ٹوٹتے ہیں جب حقیقت کی دنیا میں واپسی ہوتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بدعنوانی اور رشوت خوری کے خلاف اینٹی کرپشن سمیت بے شمار محکموں کی شبانہ روز محنت کے باوجود ہمارا ملک تو ابھی تک بدعنوان ترین ملکوں کی فہرست میں بہت نمایاں ہے۔ تب تکلیف اور بڑھ جاتی ہے جب یہ بھی علم میں آتا ہے کہ رشوت خوری کا زیادہ رجحان بھی اُنہیں محکموں میں پایا جاتا ہے جو اس لعنت کو ختم کرنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ بعض اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے کہ خود ڈی جی اینٹی کرپشن کے خلاف ہی نیب انکوائری شروع کردیتا ہے۔معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ خود موصوف اور اُن کے اہل خانہ کے نام پر کتنی جائیدادیں ہیں۔ پھر کچھ یوں بھی ہوتا ہے کہ انکوائری کی خبریں کہیں دب جاتی ہیں اور بدعنوانوں کے خلاف پھر زوروشور سے کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔وقتی طور پر رشوت خوروں کے خلاف ''شاندار کارروائیوں ‘‘کا قدرے تھم جانے والا سلسلہ پھر سے زور پکڑ لیتا ہے۔ 
پولیس کارکردگی کی عکاسی کرتے ہوئے بھی ایسے بے شمار پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پیغامات کی عبارت پولیس مقابلوں کی کہانیوں کی طرح تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے‘ جیسے ایس ایس پی فلاں کی ہدایت پر ایس پی فلاں کی نگرانی میں انسپکٹرفلاں علاقہ کی تشکیل دی گئی ٹیم نے سب انسپکٹر فلاں فلاں کی سربراہی میں چھاپہ مار کر تین قمار باز رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیے۔ ہرصورت میں شہر سے قمار باز ی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ایک دوسرا نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ سی سی پی اوکی ہدایت پر ایس ایس پی کی زیرنگرانی ایس پی کی طرف سے تشکیل دی گئی ٹیم نے ڈی ایس پی کی قیادت میں چھاپہ مار کر تین اشتہاری ملزم گرفتار کرلیے۔ دوسرا جملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے سخت ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ کبھی کبھار اعلیٰ سطح سے ایسے پیغامات بھی موصول ہوتے ہیں کہ پولیس جیسے اہم محکمے میں بدعنوانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دل خوش ہوجاتا ہے ایسے پیغامات پڑھ کر کہ اب تو اعلیٰ حکام پولیس کا قبلہ درست کرکے ہی رہیں گے۔ مگر یہ خواب تب چکنا چور ہوجاتے ہیں جب اکثر سال کے اختتام پر بدعنوان اداروں کی فہرست سامنے آتی ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ پولیس اس میں پہلے نمبر پر ہے۔شہریوں کے ساتھ پولیس زیادتیاں ختم کرنے کی بابت بھی اکثر دعوے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے جو کبھی ان کی عملی تعبیر دیکھنے کو ملی ہو۔اکثر اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ پولیس افسران خود اپنے ہی محکمے کے فنڈز خرد برد کرگئے۔ یہ زیادہ عرصہ پہلے کی بات تو نہیں جب ایک اعلیٰ پولیس افسر کو پولیس فنڈز میں 70کروڑ روپے کی خرد برد کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔اپنی گرفتاری سے کچھ عرصہ پہلے یہ آفیسر رشوت خوری کے خلاف انتہائی رقت آمیز بیان دیتے ہوئے پائے گئے تھے۔ ان دنوں تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کا بھی بہت غلغلہ ہے۔ پیغام کچھ یوں موصول ہوتا ہے کہ ڈی جی ایل ڈی اے کی ہدایت پر ڈائریکٹر فلاں فلاں کی نگرانی میں ڈپٹی ڈائریکٹر فلاں فلاں نے فلاں علاقے میں غیرقانونی طور پر بنا ہوا تین منزلہ پلازہ گرا دیا۔ٹکرز کے ساتھ پلازہ گرانے کی فوٹیج بھی موصول ہوتی ہے اور پھر مسلسل تقاضا کیا جاتا ہے کہ اسے ٹی وی پر چلا دیا جائے یا اخبار میں شائع کیا جائے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ جب یہ پلازہ بن رہا تھا تو تب آپ کہاں تھے؟جب تک معاملات ''باہمی رضامندی‘‘سے چلتے رہے تب تک سب ٹھیک رہا اور جب معاملات بگڑے تو پلازہ گرانے کا خیال آگیا ۔میں خود بھی ایل ڈی اے کی بیٹ کرتا رہاہوں‘ یقین جانئے کہ یہ سب فیس سیونگ ہورہی ہوتی ہے جسے کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ‘آپ لاہور کے بیچوں بیچ گزرنے والے نہر کے کناروں کی مثال لے لیں۔ ایک فیصلے کے مطابق نہر کنارے نئی تعمیرات پر پابندی ہے لیکن دھڑا دھڑ نئی تعمیرات ہورہی ہیں۔ کبھی کبھار ایل ڈی اے کا عملہ آتا ہے اور ایک دوعمارتوں کی کچھ تعمیر گرا دیتا ہے۔ ان عمارتوں کے گرد ٹینٹ لگ جاتے ہیں اور کام بند ہوجاتا ہے ساتھ ہی مالکان کو پیغام ملتا ہے کہ فلاں صاحب سے ملیں‘ دوچار روزبعد عمارت پر دوبارہ کام شروع ہوجاتا ہے۔ کاش کبھی یہ خبر بھی آئے کہ غیرقانونی پلازہ تعمیر ہونے پر محکمے کے متعلقہ افسر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سونے کی ایسی کان ہے کہ جہاں نچلے رینک کے ملازمین بھی کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ بلاشبہ سب کو ایک ہی صف میں نہیں رکھا جاسکتا لیکن اکثریت کی بابت یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تمام معاملات رضامندی سے مستقل بنیادوں پر چلتے رہتے ہیں۔اس بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ معاملات آئندہ بھی اسی طرح چلتے رہیں گے۔ جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق ہم خود بھی غلط کام کرنے کے شوقین ہیں تو ہمیں ادارے بھی ویسے ہی ملے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ اگر ہم کسی جگہ پر غلط تعمیرات کرتے ہیں تو ہمیں اگر اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں تو ضرور جواب دینا ہوگا۔
یہی حال میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ہے۔ آج کل حکومتی ہدایات پر ضلعی انتظامیہ کے تمام حکام زوروشور سے مہنگائی ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس مرتبہ مہنگائی بڑھنے کے عوامل ماضی کی نسبت کہیں مختلف ہیں۔ اس کے باوجود'' گراں فروشوں‘‘ کو گرفتار کرنے کے پیغامات بہت تواتر سے موصول ہوتے ہیں۔ ایل ڈی اے کی طرح چونکہ ہم کسی زمانے میں کارپوریشن کی بیٹ بھی کرتے رہے ہیں تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ گراں فروش کیسے گرفتار ہوتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ منڈیوں میں تو حکام کو جانے کی جرأت نہیں ہوتی جہاں سے دکاندار مہنگے داموں اشیاخرید کرلاتے ہیں۔ متعدد صورتوں میں جب وہ یہ اشیا اسی تناسب سے فروخت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کا پہیہ چل پڑتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ متعلقہ انسپکٹر کسی سبزی فروش کے پاس جا کر کوئی چیز خریدتا ہے۔ خریداری کے بعد وہ دکاندار کو آگاہ کرتا ہے کہ تم یہ اشیا مہنگے داموں فروخت کررہے ہو‘ معاملات طے ہونے پر قانون مطمئن ہوجاتا ہے لیکن دوسری صورت میں چالان کی چٹ ہاتھ میں تھما دی جاتا ہے اورکاپی میڈیاپرسنز کو وٹس ایپ کردی جاتی ہے۔جہاں کہیں کارروائی کرنا ہوتی ہے تو پہلے اس کی کوریج کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اکثر میڈیا پرسنز صرف بریکنگ نیوز کے چکر میں دکھاوے کی ان کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔ اس صورت میں دوسرا فریق خود کو بالکل بے بس پاتا ہے۔ ان دنوں تو دکانداروں پر سہولت بازاروں کی صورت میں بھی ایک عذاب آیا ہوا ہے۔ متعلقہ حکام سبزی فروشوں یا پھر دیگر اشیا کے سٹالز ہولڈر کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ سہولت بازاروں میں بھی اپنے اسٹالز لگائیں۔ اب ہویہ رہا ہے کہ وہاں سٹالز لگانے والوں کو دی جانے والی امدادی رقم ملتی ہی نہیں اور سٹالز ہولڈر نقصان میں اشیا فروخت کرنے کے بعد روتے دھوتے واپسی کی راہ لیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں