"FBC" (space) message & send to 7575

ہماری باری کب آئے گی؟

کورونا سے چونچتی ہوئی دنیا کے لیے ایک بہت اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ اِس کے مرض کی ویکسین تیار کرلی گئی ہے۔ تمام تر ٹیسٹوں کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہ دوا کوروناکے مرض سے کم از کم 90فیصد تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ دعویٰ یوں ہی نہیں کردیا گیا کہ جیسے ہمارے یہاں کچھ سال قبل پانی سے گاڑیاں چلانے کا دعویٰ سامنے آیا تھا، اور اس دعویٰ کرنے والے کو بھرپورپذیرائی بھی ملی تھی لیکن پانی سے گاڑی چل سکتی ہے‘ نہ چل پائی ۔ مسئلہ بس یہ تھا کہ کچھ شہرت حاصل ہوجائے۔ اب کے کوروناکی ویکسین بنانے والوں نے اپنے دعوے کو دنیا کے سامنے لانے سے پہلے چھ ممالک کے 43ہزار افراد پر اِس کا تجربہ کیا ہے۔ جب حوصلہ افزا نتائج سامنے آنے کا یقین ہوگیا تو پھر اِس کی بابت دنیا کو خوشخبری سنا دی گئی۔ اب حکمت عملی کچھ یوں طے کی گئی ہے کہ رواں سال کے اختتام تک اِس کی پانچ کروڑ خوراکیں تیار کی جائیں گے جبکہ آئندہ سال اِن کی تعداد سوا ارب تک پہنچ جائے گی۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آئندہ سال کے وسط تک ہی اِس دوا کی دستیابی ممکن ہوسکے گی ۔ اِس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اِس کی نقل و حمل آسان نہیں ہے کیونکہ اِسے ہمیشہ منفی 80ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں ہی رکھا جاسکتا ہے۔ اب یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ اِس دوا کا اثر کتنے عرصے تک باقی رہ سکتا ہے لیکن اُمید کی کرن ضرور بیدار ہوگئی ہے،اب دنیا کوروناکو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے کہ اب تمہاری من مرضی زیادہ عرصے تک نہیں چلے سکے گی۔
مذکورہ ویکسین کے علاوہ اِس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں ایک درجن سے زائد ویکسینز تیار کرنے کے تجربات کیے جارہے ہیں لیکن ابھی اُن کے حتمی نتائج سامنے آنا باقی ہیں۔ گویا جس عفریت نے پوری دنیا کو اُلٹ پلٹ کے رکھ دیا تھا‘ اب اُس کے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ویکسین تیار کرنے والی تقریباً سبھی کمپنیوں کا تعلق یورپی اور امریکی ممالک سے ہے ۔ یہ وہی روایت ہے جو ایک طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کہ دنیا پر جب بھی کوئی مصیبت آئے تو نظریں بلاارادہ دنیا کے بیس‘ پچیس ممالک کی طرف اُٹھ جاتی ہیں کہ ہو نہ ہو‘ مشکل کا حل انہی ممالک سے سامنے آئے گا۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ روایت قائم ہوئے تو اب صدیاں بیت چلی ہیں اورہنوز اِس روایت کے ٹوٹنے کے امکانات روشن نہیں ہوئے۔
اب اِس کا دوسرا پہلو دیکھتے ہیں۔ اِس شاندار انسانیت نواز دریافت کے پس پردہ ایک ترک جوڑے کی انتھک محنت کا کلیدی کردار ہے۔ ڈاکٹر اوگر شاہین‘ شامی سرحد کے نزدیک ترکی کے ایک سرحدی شہر سکندرون میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ ترکی سے جرمنی میں منتقل ہوئے اور پھر وہیں کے ہورہے۔ کیوں؟اِس لیے کہ وہاں اُن کے لیے اپنی صلاحیتیں دکھانے کے بھرپور مواقع موجود تھے جن کا اُنہوں نے بھرپور فائدہ بھی اُٹھایا۔ اُن کی اہلیہ ڈاکٹر توجی کا تعلق بھی شعبہ طب سے ہے اور وہ بھی اپنے والد کے ہمراہ ترکی سے جرمنی منتقل ہوئیں۔ وقت نے ڈاکٹر اوگر شاہین اور ڈاکٹر تورجی کو جیون ساتھی بنا دیا جس کے بعد دونوں نے تہیہ کیا کہ وہ اپنی زندگی خدمتِ انسانیت کے لیے وقف کردیں گے۔ وہ نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب رہے بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی اُن کا شمار انتہائی کامیاب کاروباریوں میں ہونے لگا ہے۔ اندازہ ہے کہ اِس وقت اُن کی میڈیسن کمپنی کی مالیت تقریباً 4ارب ڈالر ہے۔ اِنہی کی کمپنی نے انسانی جسم میں ایک ایسے دفاعی نظام کا سراغ لگایا تھا جو کینسر کے خلاف لڑائی میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پھر اِس مزاحمتی نظام پر مزید تحقیق کے بعد اِس سے کینسر کے خلاف جنگ لڑنے میں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی۔ جب دنیا میں کوروناکا غلغلہ بلند ہوا تو ڈاکٹراوگر اور ڈاکٹر تورجی بھی اِس طرف متوجہ ہوئے۔ پہلے پہل اُنہیں شاید اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ وہ انسانیت کے لیے کتنی بڑی خدمت انجام دینے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے ریسرچ کی تو کچھ ایسے اشارے ملے کہ اُن کی کینسر کے خلاف تیار کی گئی دوا کوروناکے خلاف بھی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔ تحقیقات کا سلسلہ مزید آگے بڑھا تو اِس کے مزید حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اب بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ باقاعدہ طور پر کوروناکے خلاف انتہائی مؤثر ویکسین تیار کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اِبھی تک اِسے مکمل کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ سمجھا جارہا ہے کہ مکمل کامیابی بھی اب زیادہ دور کی بات نہیں رہ گئی۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر اوگر شاہین اور ڈاکٹر توجی ترکی یا کسی مسلم ملک میں رہتے ہوئے یہ تمام کارنامہ سر انجام دے سکتے تھے جو اُنہوں نے جرمنی میں کر دکھایا؟کسی توقف کے بغیر اِس کا جواب نفی میں ہی ہوگا، کیوں؟شایدجو سہولتیں انہیں جرمنی وغیرہ میں میسر ہیں وہ مسلم ممالک میں ابھی میسر نہیں۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ جو مسلم دنیا‘ یونانی فلسفے کو تراجم کے ذریعے یورپ میں متعارف کروانے کا سبب بنی آج اس کے ذہین دماغ یورپی ممالک میں رہائش و کام کو ترجیح دے رہے ہیں۔یہ معاملہ صرف ڈاکٹر اوگر شاہین یا ڈاکٹر توجی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ناسا سے لے کر اقوامِ متحدہ تک‘ ہر قابلِ ذکر ادارے میں بے شمار مسلمان حتیٰ کہ پاکستانی افراد بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کام وہ وہاں کر رہے ہیں‘ جو تحقیق و ایجادات وہ یورپی و مغربی اداروں میں کر رہے ہیں وہ یہاں کیوں نہیں ہو سکتیں؟ ہمارا معیار یورپ جیسا بلند کیونکر نہیں ہو سکتا؟شاید اس کی وجہ شرح تعلیم اور جدید سائنسی و تکنیکی سہولتیں ہیں، تعلیم عام ہوگی تو شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا، شرح خواندگی بڑھے گی تو ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے مگر شاید اس سے ہمارے آمروں اور بادشاہوں کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالامال ہیں، دنیا کا تقریباً 33فیصد رقبہ مسلم دنیا کے پاس ہے، دنیا میں تیل پیدا کرنے والے گیارہ بڑے ممالک میں سے نو مسلم ممالک ہیں۔ صرف افغانستان کا معاملہ دیکھ لیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اِس کے پہاڑوں میں ایک لاکھ ٹن سے زائد سونے اور تانبے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ سوڈان جیسے ملک کو اللہ تعالی نے متعدد قیمتی معدنیات کے بے شمار ذخائر سے نوازا ہے۔ خود اپنے ملک کے بارے میں یہ سنتے سنتے ہم بوڑھے ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو بے شمار نعمتوں سے نواز ہے۔ بلاشبہ اِ س میں کوئی شک نہیں لیکن اہم ترین سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں ہم کچھ کر نہیں پا رہے ؟کیوں کسی آفت کے نازل ہونے کی صورت میں دنیا کی نظریں ہماری طرف نہیں اُٹھتیں؟جب بھی ناخوشگوار حالات پیدا ہوتے ہیں تودنیا امریکا، یورپی ممالک یا پھر چین اور جاپان کی طرف کیوں دیکھنا شروع کردیتی ہے؟ 
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف مسلم ممالک کے حکمرانوں کا رہن سہن دیکھ لیں‘ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔اندازہ لگائیے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کو اپنے بیٹے کے علاج کے لیے رقم کی ضرورت پڑی تو اُنہوں نے اپنے گھر کے باہر ''برائے فروخت‘‘ کا بورڈ آویزاں کردیا۔ یہ اُس شخص کا حال تھا‘ جو مسلسل کئی برس سے سینیٹر منتخب ہوتا چلا آرہا تھا۔ دوسری طرف ہمارے بڑوں کی لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں جائیدادیں دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔مسلم دنیا کے وسائل اور دولت کسی طور مغربی ممالک سے کم نہیں۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تمام مسلم ممالک مل کر ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی ہی قائم کرلیں؟کیا ہمارے لیے یہ مشکل ہے کہ ہم مل کر کوئی ایسا ادارہ قائم کریں جو ہمہ وقت طبی مسائل پر تحقیق کرے۔ شاید آئندہ کوروناجیسی وبا پھوٹ پڑنے پر ہماری طرف سے بھی دنیا کے لیے کوئی خیر کی خبر جائے۔ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے‘ لیکن شاید ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ ہمار ا کبھی مدعا ہی نہیں رہا۔حالات یہی بتا رہے ہیں کہ آئندہ بھی ہم یہی کچھ کرتے رہیں گے۔ اللہ بھلا کرے اُن کا جو ہمارے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں لیکن یہ خواہش بطور سوال ہمیشہ دل میں موجزن رہے گی کہ ہم عمل کی دنیا میں قدم کب رکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں