"FBC" (space) message & send to 7575

کیک کھانے کاوقت تو نہیں آ رہا؟

کون ہے جس نے یہ نہیں پڑھا یا نہیں سنا کہ تلوار کا گھاؤ تو بھر جاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ کبھی نہیں بھرتا، بات کہتی ہے کہ تم مجھے منہ سے نکالو‘ میں تمہیں گاؤں سے نکالتی ہوں۔ اِسی طرح کے دوسرے محاورے اور باتیں‘ ہرکسی کو بچپن سے ہی یہ اسباق رٹائے جاتے ہیں لیکن ہمارا معاملہ 'مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر‘ والا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اِس کے نتائج و عواقب اور مضمرات کے بارے میں اچھی طرح سوچ لیا جائے۔ ایسی صورت میں یہ مزید ضروری ہوجاتا ہے جب بات کسی اہم عہدیدار کے منہ سے ادا ہو رہی ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ منہ کھلے اور بے یقینی پھیلنا شروع ہوجائے۔بدقسمتی سے ہم مجموعی طور پر کچھ زیادہ ہی بڑبولے واقع ہوئے ہیں اور بلا سوچے سمجھے ہمارے منہ سے ایسی باتیں نکلتی رہتی ہیں کہ بعد میں اِن کی چبھن پورا معاشرہ محسوس کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بے احتیاطی سے کی گئی باتوں کے باعث جنگیں تک شروع ہوگئیں، انقلاب برپا ہوگئے۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید فرانس کا انقلاب خراب اقتصادی حالت کی وجہ سے آیا تھا لیکن تاریخ اس حوالے سے کچھ اور بھی بتاتی ہے۔اگرچہ یہ سچ ہے کہ 1789ء میں انقلابِ فرانس کے وقت ملک کی اقتصادی حالت بہت اچھی نہ تھی لیکن بہت زیادہ بری بھی نہیں تھی۔ اسی سال کے ماہِ مئی میں عوام پر مزید ٹیکس لگانے کے لیے پارلیمان کا اجلاس طلب کیا گیا تھا‘ اُس روز ہمیشہ اشرافیہ کے سامنے دبے رہنے والے عوامی نمائندوں کی آوازیں کافی بلند تھیں۔ اُنہوں نے کھل کر ٹیکس لگانے کی مخالفت کی لیکن بادشاہ کا فیصلہ یہ رہا کہ ٹیکس ہرصورت لگائے جائیں گے۔ احتجاج کرنے والے نمائندوں کو باسٹل کے زندان میں ڈال کر یہ سمجھا گیا کہ معاملہ سلجھ گیا ہے‘ لیکن ایسا نہیں تھا، عوامی سطح پر احتجاج زور پکڑتا جارہا تھا۔ اِسی دوران شاہی محل کے سامنے ہونے والے مظاہرے کی بابت نوجوان ملکہ‘ میری انتونیت نے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں مظاہرہ کررہے ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مہنگائی بہت ہے‘ کھانے کو روٹی نہیں مل رہی ‘ ریلیف دیا جائے۔ معصوم ملکہ کی زبان سے برجستہ یہ الفاظ ادا ہوئے کہ اگر اِنہیں روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ ان الفاظ نے ہرطرف گویا ایک آگ سی لگا دی۔ 
14جولائی 1789ء کی شام کو فرانس کا بادشاہ لوئی دہم اپنے محل میں کچھ بیزار سا بیٹھا تھا کہ دربان ہانپتا کانپتا آیا ، چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اُس نے آتے ہی بادشاہ سلامت کو آگاہ کیا کہ حضور انقلابیوں نے باسٹل کے قیدخانے پر دھاوا بول کر تمام قیدیوں کو رہا کرالیا ہے۔ یہی انقلابِ فرانس کی ابتدا تھی‘ جس نے صدیوں سے قائم بادشاہت کو زمین بوس کردیا، کلیسا کا طلسم توڑ ڈالا اور جاگیرداری نظام کو قصہ پارینہ بنا دیا۔ اس انقلاب کے بعد ہی فرانس کی‘ آج کا فرانس بننے کی راہ ہموار ہوئی‘ وگرنہ تو یہ کلیسا کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک مکمل تباہ حال سماج کی تصویر پیش کرتا تھا۔ حالانکہ اِس ملک کے پاس بہترین زرعی اراضی تھی لیکن اس کا بیشتر حصہ جاگیرداروں کے تسلط میں بیکار پڑا رہتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ہوتے ہوتے پورا معاشرہ ہی گھٹنوں پر آ گیا۔ بھوک اور ننگ اپنی جگہ لیکن ذمہ داران کی طرف سے اِس کسمپرسی کا مذاق اُڑائے جانے کا رویہ ہمیشہ ایک چنگاری سلگائے رکھتا تھا۔ حکمرانوں کی تجوریاں توزر و جواہر سے بھری ہوئی تھیں لیکن عام آدمی پر ٹیکسوں کی بھرمار تھی۔ اندازہ اِس بات سے لگا لیجئے کہ 2018ء میں اس ملکہ کا صرف ایک ہار 3کروڑ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ ایک طرف اتنی دولت مند اور دوسری طرف اتنی بے خبری کہ ملکہ کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ عوام کن حالوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اُس کی گرد وپیش کے ماحول اور طرزِ زندگی کے تناظر میں اس کا یہ مشورہ بالکل صائب تھا کہ اگر کسی کو روٹی نہیں ملتی تو اسے کیک کھا لینا چاہیے۔ 
آج ہمیں بھی کچھ ایسے ہی مشورے سننے کو مل رہے ہیں۔ آج کے مشوروں اور باتوں کی طرف تو بعد میں آتے ہیں‘ پہلے 2016کا ایک نادر مشورہ سن لیجئے۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک موقع پر مہنگائی بڑھنے لگی تو پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے یہ معاملہ اسمبلی میں اُٹھایا۔ شور شرابا بڑھا تو تب کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب کا یہ مشورہ سامنے آیا کہ اگر دال مسور مہنگی ہوگئی ہے تو مرغی کھائیں۔ یادداشتوں میں یہ سب کچھ اچھی طرح محفوظ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کی اِس بات پر کتنا ہنگامہ برپا ہوا تھا‘ تب کچھ ایسے مشورے اس وقت کے وزیرِصحت کی طرف سے بھی آئے تھے کہ اگر کوئی شخص مہنگی دوائی افورڈ نہیں کر سکتا تو اُسے چاہیے کہ وہ سستی میڈیسن خرید لے۔ اِس پر بھی کافی شورمچا تھا۔ دنیا بدل گئی لیکن مشوروں اور باتوں کا انداز تبدیل نہیں ہوسکا۔وہی چلن کہ منہ کھلتے ہی بے یقینی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ دیکھ لیجئے کہ آج ریاست مدینہ کو اپنا رول ماڈل قرار دینے والے اپنے پیشروئوں کے قدموں پر قدم رکھ کر چل رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان باتوں پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی۔ حقائق کوایسے مسخ کیا جاتا ہے گویا شہر میں سب بے عقل بستے ہیں۔ اعلیٰ ترین سطح سے کہا جارہا ہے کہ مہنگائی اُتنی ہے نہیں جتنا اِس کا شور مچایا جارہا ہے۔مہنگائی کے شور و غوغے کو اپوزیشن کاپروپیگنڈا قرار دے کر بات ہی ختم کردی گئی۔ اِس بات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ تمام اشاریے مثبت اور معاشی ترقی کی طرف اشارہ کررہے ہیں، ملک ٹیک آف کی پوزیشن میں آیا ہی چاہتا ہے۔
ملک میں ہونے والی ترقی اور مہنگائی کے جھوٹے پروپیگنڈے کو عوام کے سامنے ببانگ دہل آشکار کرنے کی ہدایات بھی آئی ہیں۔کتنا ہی اچھا ہو کہ اگر یہ سب کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ 'سب اچھا ہے‘کی رپورٹ دینے والوں کے نرغے سے باہر نکل کر زمینی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا جائے۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران بے شمار لوگوں سے میل ملاقات رہتی ہے‘ یقین جانئے‘ ہر شخص کی زبان پر صرف مہنگائی کا نوحہ ہے‘ ہر شخص چاہتا ہے کہ مہنگائی میں کمی لائی جائے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ جس کی جیب میں پیسے نہیں‘ اُس کے لیے ہمیشہ مہنگائی ہی رہتی ہے۔ اِس لیے مہنگائی کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ مجموعی طور پر لوگوں کی آمدن میں کتنی کمی ہوئی ہے‘ چیزوں کے نرخوں میں کس تناسب سے اضافہ ہوا ہے، کتنے لوگ مہنگائی کے باعث غربت کی لکیر سے نیچے گئے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب مہنگائی دس یا پندرہ سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے تو بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اشاریے کس سمت کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
اِس تمام صورتحال کے دوران یہ بھی چل رہا ہے کہ جو بھی خود کو گفتار کا غازی ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے‘ اُسی کی بلّے بلّے ہے۔ اسی بلّے بلّے کے چکر میں قومی اسمبلی جیسے معتبر فورم پر ایسی ایسی باتیں کردی جاتی ہیں کہ بعد میں اِن کی حدت پورا ملک محسوس کرتا ہے۔ اِن باتوں کے مضمرات کو جائزہ لیں تو آپ بہ آسانی سمجھ جائیں گے کہ اِن باتوں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ اُلٹا ملکی مفادات کو زک پہنچ رہی ہے۔ غداری کے الزامات تو ایسے لگ رہے ہیں جیسے کوئی کارِ ثواب ہو۔ایک وزیر موصوف نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے جھنڈے پکڑنے والے اور نعرے لگانے والے بھی غدار ہیں۔ کیوں ذاتی مفادات کی خاطر ایسی باتیں کرتے ہیں جو سرے سے ہی اخلاقیات سے عاری ہوں۔ اگر خود میں کوئی اچھا عمل کرنے کی صلاحیت نہیں پاتے تو کم ازکم باتوں کے چرکے تو مت لگائیں۔ مہنگائی کم نہیں کرسکتے تو اِسے پروپیگنڈا تو مت قراردیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ مہنگائی کے عفریت نے عام آدمی کو بے بس کردیا ہے اور اب وہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بھی خود کو لاچار پاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں