"FBC" (space) message & send to 7575

کھیلوں کا زوال

خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے کرکٹ کے ڈھانچے میں لائی جانے والی تبدیلیوں کے کیا ''شاندارنتائج‘‘ برآمد ہورہے ہیں۔ اداروں کی کرکٹ بند کردینے سے ملکی سطح پر بے شمار کرکٹرز بے روزگا ر ہوچکے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ٹیم نے جیسے ہار کا طوق مستقل طور پر گلے میں ڈال لیا ہو۔ دورۂ نیوزی لینڈ میں ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کی پالیسیوں کا پول کھول دینے کے لیے کافی سمجھا جانا چاہیے۔ مختصراً یوں جان لیجئے کہ کرکٹ نے بھی ہاکی کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیا ہے۔ کہنے کو ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے لیکن اب بین الاقوامی سطح پر ہماری قومی ہاکی ٹیم کا دوردور تک کہیں نام و نشان تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہ اُس ٹیم کے ساتھ ہوا جو کسی دور میں میدان میں اُترنے سے پہلے ہی جیت چکی ہوتی تھی۔ مطلب یہ کہ ہاکی کے بیشتر شائقین کو یقین ہوتا تھا کہ جیت نے بہرحال پاکستان کی ہاکی ٹیم کا مقدر ہی بننا ہے۔ ماضی کی ایسی ٹیم‘ جو تین اولمپک گولڈ میڈلز، چار مرتبہ ہاکی کا ورلڈ کپ اور تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کرچکی ہے‘ کا اب یہ عالم ہے کہ وکٹری سٹینڈ پہنچنا تو دور کی بات‘ کسی بڑے ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے کوالیفائنگ میچز کھیلنا پڑتے ہیں۔چشم فلک نے 1994ء کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کی ہاکی ٹیم کی تابانیوں کو مسلسل مانند پڑتے ہی دیکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 1994ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ہمارے ہاں ہاکی کا کھیل ترقی کرتا لیکن سب کچھ اِس کے برعکس ہوا اور یہ کھیل مسلسل زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔ ہاکی فیڈریشن میں عہدوں کے حصول کی خاطر لڑی جانے والی لڑائیوں میں شدت آتی گئی اورکھیل کے تانے بانے بکھرتے چلے گئے۔اِس لڑائی میں کسی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہ رہی کہ اِس کھیل کی بہتری کی بابت بھی سوچنا چاہیے۔ سب غفلت کی نیند سوتے رہے اور ہمارا قومی کھیل برباد ہوگیا۔ اب کانوں میں پڑنے والی وہ آوازیں قصہ پارینہ ہو گئیں جنہیں ریڈیو پر سن کر ہی سامعین نعرے لگایا کرتے تھے۔ اکثرہاکی میچز کی لائیو کمنٹری کے حوالے سے اس طرح کی آوازیں سنائی دیا کرتی تھیں کہ گیند سینٹر ہاف اختر رسول کے پاس ہے جنہوں نے اِسے سمیع اللہ کی طرف بڑھا دیا، سمیع اللہ آگے بڑھے، دوکھلاڑیوں کو ڈاج دے کر گیند کورشید جونیئر کی طرف بڑھا دیا اور یہ گول...
کھیل برباد ہوتا رہا اور ذمہ داران کے بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہے کہ بہت جلد ہماری ہاکی ٹیم پھر سے میدانوں میں اپنا رنگ جمائے گی۔ اِس بیچاری ٹیم نے رنگ تو کیا جمانا تھا، اُلٹا یہ میدانوں سے اب غائب ہوچکی ہے۔ شاید ہی آج تک کسی ذمہ دارنے ٹیم کی اِس حالت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری قبول کی ہو۔ یہی کچھ اب کرکٹ کے ساتھ ہورہا ہے۔ہمارے موجودہ وزیراعظم‘ جن کی قیادت میں کرکٹ ٹیم نے 1992ء کا واحد ورلڈ کپ جیتا تھا اور جن کے بدولت دنیائے کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن ہوا تھا‘ اب معلوم نہیں اُن کے ذہن میں کہاں سے یہ خیال آگیا کہ محکمانہ ٹیموں کے بجائے ٹیموں کی تشکیل علاقائی سطح پر ہونی چاہیے۔ سمجھانے والوں نے لاکھ سمجھایا کہ اِس سے کرکٹ کے ڈھانچے کے شدید نقصان پہنچے گا لیکن وزیراعظم اپنی دھن کے پکے رہے۔ جس طرح اُن کی طرف سے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کیے گئے تھے، اُسی طرح وہ کرکٹ میں قومی ٹیم کو بلندیوں پر لے جانے کے دعوے بھی کرتے رہے۔ قدرت نے اُنہیں مسندِ اقتدار پر لا بٹھایا تو اُس کے بعد سے جو کچھ ملک کے ساتھ ہورہا ہے، اُس سے برا کرکٹ کے ساتھ ہورہا ہے۔ بیک جنبشِ قلم مختلف محکموں کی ٹیمیں ختم کردی گئیں جس سے درجنوں کھلاڑی بے روزگار ہوگئے۔ بارہ‘ چودہ ٹیموں کی جگہ چھ علاقائی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور سمجھ لیا گیا کہ اب یہ کھیل خوب ترقی کرے گا۔یہ تجربہ جنوبی افریقہ نے بھی کیا تھا لیکن 17سالوں کے بعد اُسے سمجھ آگئی کہ اس طرح کرکٹ کا معیار بلند نہیں کیا جا سکتا۔ اِس تجربے پر کرکٹرز نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا، وزیراعظم صاحب سے اپیلیں بھی کیں کہ خدارا! یہ اقدام مت کریں لیکن وہ اپنی سی کرکے رہے ۔ اِس سے قبل وزیراعظم نے اپنے دوست احسان مانی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نامزد کیا جنہوں نے اپنے دوست وسیم خان کو بورڈ کا چیف ایگزیکٹو تعینات کردیا اور وسیم خان نے اپنے دیرینہ دوست مصباح الحق کو نامزد کر دیا۔ کرکٹ بورڈ کی ریوڑیاں اپنوں میں بانٹنے کے اِس کھیل کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ وزیراعظم صاحب کے فیصلے نے کرکٹ کے ساتھ جو کیا‘ سو کیا،بورڈ حکام نے بھی ایسے ایسے تجربات کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم جیسے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ آخر یہ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی مصباح الحق کو بیک وقت چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مقرر کرنے کے نتائج بھگتے تھے، اس پر کافی شور بھی مچا تھا۔ سابق کرکٹر محمد یوسف نے سب سے زیادہ اس کی مخالفت کی تھی لیکن پتا نہیں کیوں اب انہوں نے بھی خاموشی اختیار کر لی ہے۔ 
قومی کرکٹ ٹیم زمبابوے سے ہاری، انگلینڈ میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اب نیوزی لینڈ میں جو گل کھلائے جارہے ہیں ، وہ بھی سب کے سامنے ہیں لیکن محمد یوسف سمیت سب خاموش ہیں۔ہمارے ایک شہرہ آفاق سابق باؤلر ثقلین مشتاق صاحب بھی گاہے گاہے بورڈ حکام کے لتے لیتے رہتے تھے‘ وہ بھی اب مہر بلب نظر آتے ہیں۔ جب اُن سے انگلینڈ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کی بابت سوال کیا گیا تو جواب ملا: کھیلنا تو ٹیم ممبران نے ہے اور ہم تو صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔ ہمارے ایک لیجنڈ کرکٹر چند روز پہلے بذریعہ سوشل میڈیا میدان میں آئے اور وزیراعظم کے علاوہ بورڈ حکام پر بھی خوب گرجے برسے ۔ اُمید تھی کہ وہ اپنی باتوں کی لاج رکھیں گے لیکن دوچار روز بعد اُن کے بھانجے کو بلوچستان کی کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کردیا گیا اور تمام مسائل خود بخود ہی حل ہو گئے۔ 
لگے ہاتھوں ہائی پرفارمنس کرکٹ اکیڈمی کی بابت بھی جان لیجئے۔ یہ پہلے نیشنل کرکٹ اکیڈمی ہوا کرتی تھی۔ بورڈ حکام کو بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ اِسے کوئی ہائی فائی نام دیا جائے ۔طویل سوچ بچار کے بعد اِسے ہائی پرفارمنس کرکٹ اکیڈمی کانام دیا گیا۔ اکیڈمی کا ڈائریکٹر ندیم خان کو مقرر کیا گیا جنہیں کسی زمانے میں پاکستان کی طرف سے دوٹیسٹ میچز کھیلے تھے اور اس کے بعد اُن کا کیریئر اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ یہ تو صرف دیگ کے چند ایک دانے ہیں ورنہ اِس وقت تو پوری کی پوری دیگ ہی کچی پکی دکھائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے اِس صورت حال کے وہی نتائج نکلنا تھے جو اِس وقت برآمد ہورہے ہیں۔ 2016ء میں ہماری ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں ٹاپ پر تھی اور اب ساتویں نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ بہت جلد ہم نیچے سے ٹاپ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 2018ء میں جب ہمارے موجودہ بورڈ چیئرمین نے عہدہ سبنھالا تھا تو ٹیم ٹی ٹونٹی میں سرفہرست تھی ۔ اب اس کیٹیگری میں یہ چوتھے نمبر ہے۔ ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں پاکستان چھٹے نمبر پر براجمان ہے۔ اِن حالا ت میں آئی سی سی کی ایوارڈز فہرست میں بھلا ہمارے کھلاڑی کیونکر دکھائی دیں گے؟ اب کرکٹ کے شائقین کی نہ صرف مایوسی بڑھتی چلی جارہی ہے بلکہ دلچسپی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اب بہت کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ ٹیم کہاں ہے اور کس کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جو ہاکی کی بربادی سے پہلے پیدا ہونا شروع ہوئی تھی۔ تب ہاکی کے کرتا دھرتا غفلت کی نیند سوتے رہے اور آج کرکٹ کے کرتا دھرتا بھی اُنہی کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک کرکٹر کے وزیراعظم بننے پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نہ صرف کرکٹ بلکہ دیگر کھیلوں میں بھی کھویا ہوا وقار بحال ہو جاتا اورہماری ٹیموں کی جیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا لیکن صورتحال اس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔میری نظر میں یہ سب کچھ نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کسے کب کون سا قدم اٹھانا ہے اور ٹیم کو کیسے تیار کرنا ہے‘ اس کے ادراک کا فقدان ہے۔ اس بحران سے 'رائٹ مین فار رائٹ جاب‘ کا اصول اپنا کر ہی نکلا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں