"FBC" (space) message & send to 7575

لاہور کاہچکولے کھاتا بیڑا

کچھ عرصہ پہلے کمشنرلاہور اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ایک مرتبہ پھر لاہور کوخوبصورت بنانے کی مہم کا آغاز لبرٹی مارکیٹ سے ہوا تھا۔ دعوے ماضی جیسے ہی تھے کہ سوہنا لاہور مہم کے تحت شہر کو خوبصورت بنایا جائے گا وغیرہ وغیر ہ۔ اِس مہم کے آغاز پر ہمیں کچھ خوشی ہوئی اور کچھ ہنسی آئی۔ خوشی اِس لیے ہوئی کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انسان تصویر کے روشن رخ کو دیکھنا پسند کرتا ہے۔ البتہ ذہن میں یہ خیال بھی اُبھرا کہ شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔ ہنسی اِس بات پر آئی کہ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ اِس مہم کا شور محض دوچار ہفتوں تک ہی ہے۔ اُس کے بعد اِسے شروع کرنے والوں کو بھی یاد نہیں رہے گا کہ اُنہوں نے کسی کام کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ اِس مہم کے تحت پہلے تو لبرٹی مارکیٹ کے گول چکر کو سات رنگوں سے رنگ دیا گیا، خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جیسے کوئی قوس قزح زمین پر اُتر آئی ہو۔ بعد میں یہ ہوا کہ اِن رنگوں کی وجہ سے ایک ٹریفک وارڈن سمیت کچھ موٹرسائیکل سوارپھسل کر حادثات کا شکار ہوگئے۔ مزید ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے وہاں ایک وارڈن کی ڈیوٹی لگانا پڑی اور آج وہ رنگ خوردبین کے ساتھ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ کچھ انڈر پاسز میں بھی رنگ و روغن ہوتے دیکھا، ایئر پورٹ کے قریب ایک گاؤں کے کچھ مکانات کو بھی خوبصورت رنگوں سے مزین کیا گیا۔ اِس تقریب میں شرکت کے لیے کمشنر صاحب کی طرف سے ہمیں بھی دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ بدقسمتی سے کچھ دیگر مصروفیات کی بنا پر ہم اِس تقریب میں جانے سے محروم رہے۔ بعد میں کمشنر صاحب سے ملاقات ہوئی تو سوہنا لاہور مہم کے حوالے سے خاصی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ہمارے دل سے بے اختیار دعا نکلی کہ اللہ کرے لاہور کو خوبصورت بنانے کے جس کام کا بیڑا اُٹھایا گیاہے‘ وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہو۔ تسلیم کہ ہمیں خود بھی قبولیت کا کچھ زیادہ یقین نہیں تھا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانیاں بیان کررہے ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا یہی رویہ رہا تو مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں‘ ختم نہیں ہوسکتے۔
کیا ہم ہروقت یہی رٹ لگاتے رہیں گے کہ لاہور لاہور اے، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا، اونچے برج لاہور دے وغیرہ وغیرہ۔ اب تو یہ عالم ہے کہ گندگی، ٹوٹی پھوٹی شاہراہوں اور تجاوزات کے علاوہ لاہور میں کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ معلوم نہیں وہ کون سا دور تھا جب لاہور کی شامیں گلابی ہوا کرتی تھیں، جب یہاں کی ہواؤںمیں مستی اور سرور محسوس ہوتا تھا، جب یہاں ادیبوں اور شاعروں کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ اب تو بلاوجہ ہروقت یہ صدا بلند کی جاتی ہے کہ یہ تو باغوںکا شہر ہے جس کا پوری دنیا میں ڈنکا بجتا ہے۔ تاریخ کی بات چھیڑ لیں تو بات سیدھی راجہ لوہ تک جا پہنچتی ہے جس نے‘ تاریخ کے بعض حوالوں کے مطابق‘ تقریباً ایک ہزار سال قبل اِس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ لوہ کی ایک نشانی لوہ مندر کی صورت میں آج بھی شاہی قلعہ کے عالمگیری دروازے کے قریب موجود ہے۔ یہ الگ بات کہ اب اُس جگہ تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں کہ وہاں تعینات اہلکار ہرکسی کو وہاں جانے سے روکتے ہیں۔ راجہ لوہ سے بات آگے بڑھتی ہے تو پھر اِس شہر کی اتنی طویل تاریخ ہے کہ سنتے سنتے انسان اوب جائے لیکن یہ داستان ختم نہ ہو۔ یہ سچ ہے کہ لاہور میں جگہ جگہ تاریخ کی بکھری ہوئی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ دیگ کے چند دانے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالا مار باغ، مقبرہ نورجہاں اور جہانگیر، مقبرہ دائی انگہ، چارلز بریڈلوہال، مقبرہ زیب النسا وغیرہ کی صورت چکھ لیجئے۔ سکھوں اور انگریزوں کی تعمیرات بھی جابجا ملتی ہیں جس کے ساتھ مختلف تعلیمی ادارے بھی تاریخ میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ باقی خود تحقیق کرنے کی کوشش کریں کہ اِس شہر میں تاریخ کی مزید کیا کیا نشانیاں موجود ہیں۔ شاید اتنی طویل تاریخ اور اِس کے ہرجگہ بکھرے ہوئے نقوش کو دیکھ کر ہی وہ کہاوتیں بن گئیں جن کا تذکرہ آغاز میں کیا جاچکا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی بے شمار نابغہ روزگار شخصیات کے حوالے دے کر بھی لاہور کے حوالے سے دوسرو ں کو مرعوب کرنے کی کوششیں بکثرت کی جاتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب محض ماضی کے حوالوں کی وجہ سے ہی کچھ دال دلیا ہورہا ہے ورنہ آج کی صورتحال سے واضح محسوس کیا جاسکتا ہے کہ شہرِ نادر کے بیڑے مسلسل ہچکولے کھا رہے ہیں۔
کبھی فیس سیونگ کے لیے کوئی بیان داغ دیا جاتا ہے کہ لاہور کو خوبصورت بنا یا جائے گا، یہ کیا جائے گا، وہ کیا جائے گا لیکن اِس حقیقت کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا کرناممکن ہی نہیں رہا۔ سنتے ہیں کہ کسی دور میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن پھر اِسے ختم کردیا گیا۔ آج سے بیس‘ پچیس سال پہلے تک پھر بھی کہانیوں والے لاہور کی کچھ جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ سماجی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں بکثرت جاری رہتی تھیں مگر اُس کے بعد سے تو شہر اِس قدر بے ہنگم طور پر پھیلا کہ خدا کی پناہ! جس طرف بھی نکل جائیں میلوں دور تک لاہور ہی لاہور دکھائی دیتا ہے۔ کھمبیوں کی طرح اُگنے والی ہاؤسنگ سکیموں میں کوئی پلاننگ نظرآتی ہے نہ کوئی جمالیاتی حسن۔ بس اونے پونے داموں زمین خریدواور خو بصورت اینیمیشنز سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر بیچ دو۔ لاہور کے نالے، دریائے روای کی زمین، سرکاری زمینیں سب کچھ اِن کی زد میں آچکا۔ کیا کوئی یہ گمان کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ہوا ہوگا؟ پورا شہر غیرقانونی عمارتوںکا جنگل بن چکا‘ اس دوران متعلقہ اداروں کے اہلکاروں نے بھی دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی۔ آج جب سرکاری اداروں کی تجاوزات کے خلاف مہم کی بابت کوئی خبر سننے کو ملتی ہے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ نجانے کس کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ یہ اگر تجاوزات ختم کرنے کے قابل ہوتے تو تجاوزات قائم ہی کیوںہوتیں۔ جان لیجئے کہ یہ صرف دکھاوا ہے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی تجاوزات کے خلاف جو آپریشن شروع کیا تھا، وہ بھی ناکام ہو چکا اور بیشتر مقامات پر تجاوزات دوبارہ قائم ہوچکی ہیں، البتہ نذرانہ کچھ بڑھ گیا ہے۔ اس وقت تجاوزات کا یہ عالم ہے کہ فٹ پاتھ تو سرے سے غائب ہوچکے ہیں۔ ہمارے بچوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ شاہراہوں کے ساتھ پیدل چلنے والوں کیلئے فٹ پاتھ بھی ہوتے تھے۔ 
یہ ہے ہمارے لاہور کا حال لیکن اِس کے باوجود ہم یہ نعرے لگاتے نہیں تھکتے کہ لاہور، لاہور اے۔ آج کے لاہور کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی لاہور ہے جس کی شان و شوکت بیان کرتے ہوئے ہم تھکتے نہیں، جس کی خصوصیات گنواتے ہوئے قلم کی سیاہی ختم ہوجاتی ہے لیکن خصوصیات ختم نہیں ہوتیں۔ آج اگر گندگی سے اٹے پڑے اِس شہر کی فضاؤں کو مستی بھرا قرار دیا جائے تو ایسا کرنے والے کی عقل پر ماتم ہی کیا جائے گا۔ آج اگر ٹوٹ پھوٹ جانے والی شاہراہوں کے پس منظر میں اِس شہر کی شان بیان کی جائے تو اِس پر سینہ کوبی ہی کی جائے گی۔ یہ بات جان لیں کہ لاہور کی اِس بربادی کے سب سے بڑے ذمہ دار حکومتی ادارے ہیں۔ اِنہی اداروں کی ملی بھگت سے تجاوزات قائم ہوتی ہیں، اِنہی کے تعاون سے غیرقانونی عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔ شہریوں کے حقوق کے محافظ ادارے ہی صورتِ حال میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ تجاوزات وغیرہ کے خلاف کارروائیاں صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں۔ اِنہی کے باعث پیرس بنتا بنتا یہ بیچارہ شہر لاہور بھی نہ رہا۔ بس اب اِس کے قصے کہانیاں باقی رہ گئی ہیں۔ وہ تو لاہوریوں کی زندہ دلی ہے کہ ہم برائی سے بھی کچھ اچھا ڈھونڈ لیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں، اِسی لیے تو گندگی سے بھرے، ٹوٹی پھوٹی شاہراہوں، تجاوزات اور ایسے دیگر مسائل کے باوجود ہم آج بھی اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لاہور لاہور اے، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں