"FBC" (space) message & send to 7575

جو بائیڈن کی پٹاری

میدانِ جنگ کی مانند دکھائی دینے والے امریکی دارالحکومت میں 78سالہ جوبائیڈن نے نئے امریکی صدر کا حلف اُٹھا لیا۔ ایسی صورتحال کے دوران کہ جس کا کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ کچھ ایسی اطلاعات تھیں کہ کیپٹل ہل میں چند روز قبل ہنگامہ آرائی کرنے والے تقریب حلف برداری میں بھی گڑبڑ کرسکتے ہیں۔تقریب حلف برداری کے دوران مسلح حملوں اور دہشت گردی جیسے واقعات کی بابت بھی باتیں ہورہی تھیں‘ ایسی کسی بھی گڑ بڑ سے بچنے کیلئے شہر میں تقریباً 50ہزار نیشنل گارڈز تعینات کیے گئے تھے۔ جب امریکی صدر جو بائیڈن نے 20جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تو اُس روزواشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا کو ملانے والے متعدد پلوں کو بند کردیا گیا تھا۔ کیپٹل ہل تک عوام کی رسائی بند تھی۔ اِن حالات پر امریکی بہت پریشان رہے ۔ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ امریکی ہمیشہ سے ہی اپنے نئے صدر کو کھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعدعمومی طور پر یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا تھا لیکن اب کی بار سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ امریکی دارالحکومت میدانِ جنگ دکھائی دے رہا تھا۔اِس حوالے سے ڈیموکریٹک رہنما سیتھ مولیٹن کے ایک ٹویٹ کو سوشل میڈیا پر خاصی پذیرائی ملی۔ اپنے ٹویٹ میں موصوف نے لکھا کہ اِس وقت جتنے فوجی واشنگٹن میں دکھائی دے رہے ہیں، اتنے تو افغانستان میں بھی نہیں ہیں اور یہ شاید ہمیں صدر سے تحفظ دلانے کیلئے ہیں۔ سینتھ مولٹن نے کچھ غلط نہیں کہا۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ پورا واشنگٹن ڈی سی بھوتوں کے شہر کا منظر پیش کرتا رہا۔ تمام کاروبار بند، جگہ جگہ رکاوٹیں ، گویا وہ سب کچھ دیکھنے میں آیا جو اِس سے پہلے ایسے کبھی دکھائی نہیں دیا۔یہ بھی امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ سابق صدر نے اپنے منصب پر نئے آنے والے کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے گریز کیا۔
دراصل یہ سب کچھ 6جنوری کو کیپٹل ہل میں ہونے والے ایک واقعے کے نتیجہ ہوا ۔ یہ وہ دن تھا جب ٹرمپ کی ہار کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اُن کے حامی پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوئے، توڑ پھوڑ اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 5افراد ہلاک ہوگئے۔ خدشہ تھا کہ ٹرمپ کے حامی جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کے دوران بھی ایسی ہی ہنگامہ آرائی کرسکتے ہیں۔ اِسی خدشے کے پیش نظر تقریب کی روایات ہی تبدیل کردی گئیں۔ سابق امریکی صدر تقریب میں شامل ہوئے نہ امریکی عوام شاہراہوں پر آکر اپنے نئے رہنما کو خوش آمدید کہہ سکے۔ یہ سب کچھ سب کو حیران کردینے کے لیے کافی تھا۔یہ خدشہ بھی رہا کہ واشنگٹن میں تو سخت حفاظتی اقدامات کرلیے گئے ہیں لیکن ملک کے دوردراز علاقوں کا کیا ہوگا‘ اگر وہاں ٹرمپ کے حامیوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی تو پھر کیا ہوگا لیکن امریکی حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ ہرجگہ صورتحال تقریباً قابو میں رہی۔ یہ سب کچھ امریکیوںکے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لیے بھی کافی حیران کن رہا۔عمومی طور پر نئے امریکی صدر کی آمد پر دنیا کو زیادہ دلچسپی اُن کی پہلی تقریر میں ہوتی ہے جس میں وہ اپنے دورِصدارت کی ترجیحات پر بات کرتا ہے۔ پھر تقریر پر تجزیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کس ملک کے لیے امریکا کا رویہ کیسا ہوگا۔ اِس مرتبہ حیران کن طور پر کئی رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اب کے جوبائیڈن کی تقریر میں زیادہ دلچسپی کے بجائے، دنیا سخت ترین حفاظتی انتظامات کو حیرت کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔تقریر کے دوران جوبائیڈن نے اپنی پٹاری کھولی اور اُن کی طرف امریکیوں کو یقین دلایا گیا کہ وہ پورے امریکا کے صدر ہیں ۔اپنی سی مشکل میں گرفتار جوبائیڈن کا زیادہ وقت اپنے ہم وطنوں کو یہی یقین دلانے میں گزر گیا کہ وہ ایسے صدر بنیں گے جو لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد کرے گا۔ موصوف نے یقین دلایا کہ وہ دل و جان سے اپنی قوم کا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں گے۔ اب موصوف امریکا کی روح کو دوبارہ بحال کرنے کے عزم کے ساتھ باقاعدہ امریکی صدر بن چکے ہیں تو دنیا کے ساتھ ساتھ ہم بھی منتظر ہیں کہ اُن کی پٹاری میں سے ہمارے لیے کیا نکلے گا۔ 
جوبائیڈن کی پٹاری سے دنیا کے لیے کیا نکلے گا، اُس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا لیکن ہمارے لیے اُن کے پاس کیا کچھ ہے، اُس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اُن کی نائب کملاہیرس بھارتی نژاد ہیں‘ گویا اگر جوبائیڈن کسی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہ پائیں گے تو اُن کی جگہ کملا ہیرس کام کریں گی۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی‘ کملا کے علاوہ بھی 11بھارتی نژاد باشندے وائٹ ہاؤس میں کلیدی نشستوں پر براجمان ہوں گے۔وائٹ ہاؤس کی بجٹ اور مینجمنٹ ڈائریکٹر کی سیٹ،اٹارنی جنرل، سرجن جنرل،صدر کا سپیچ رائٹر،ڈپٹی پریس سیکرٹری، جنوبی ایشیا کے لیے سینئر ڈائریکٹر سمیت متعدد اہم عہدے بھارتی نژاد افراد کے قبضے میں ہوں گے ۔ صدر اور نائب صدر کے بعد کابینہ میں سیکرٹری سٹیٹ کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اِس کے لیے جوبائیڈن کی نظر انتخاب اینٹونی بلنکن پر پڑی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2مئی 2011ء کو امریکی فورسز نے ایبٹ آباد میں آپریشن کیا تھا، اِس آپریشن کے انتظامات میں کلیدی کردار مسٹر بلنکن کا ہی تھا ۔ اس آپریشن کے بعد پاکستانی فورسز نے ڈاکٹر شکیل کو گرفتار کیا تو اینٹونی اُس کی رہائی کے لیے بھرپورکوششیں کرتے رہے لیکن بوجوہ اِ س میں کامیابی حاصل نہ ہوپائی۔ اب یہ جوبائیڈن کی کابینہ میں وزیرخارجہ کے فرائض انجام دیں گے۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بطور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اب اُنہیں زیادہ طاقت حاصل ہوگی۔ حسین حقانی والے معاملے میں بھی موصوف کا کردار کافی اہم تھا۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف کی جانب سے آئندہ ہمیں کس طرزِ عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لائیڈ آسٹن امریکی وزیردفاع کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔ یہ وہی لائیڈ آسٹن ہیں جو سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے دوران افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر تھے۔اگرچہ اِس حملے پر تب کی امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کی طرف سے ڈھیلی ڈھالی معذرت کر لی گئی تھی لیکن لائیڈ نے اِ س پر کبھی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ 
اہم سوال یہ ہے کہ اب جو وائٹ ہاؤس میں اہم عہدوں پر اتنے بھارتی نژاد باشندوں کو بٹھایا گیا ہے، اُس کے پاکستان کو کیا نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں؟وہ بھی اِن حالات میں کہ جب بھارت سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہوچکا ہے۔ چند روز قبل پہلے یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی دوکمیٹیوںکا سربراہ بننے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ خبر سامنے نہ لائے جا سکی کہ اِسی دورا ن اُسے تین کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے منتخب بھی کرلیا گیا ہے۔ اِن کمیٹیوں میں طالبان سینکشن کمیٹی، کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی اور لیبیا سینکشن کمیٹی شامل ہیں۔ اول الذکر دوکمیٹیوں کی سربراہی حاصل ہونے کے بعد بھارت ہمیں بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تنگ کرنے بلکہ مختلف پابندیاں لگوانے کی پوزیشن میں بھی آگیا ہے۔ کیونکہ طالبان سینکشن کمیٹی ہی اِس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون سے ممالک طالبان کی مالی معاونت کرتے ہیں یا کسی اور طرح اُن کی مدد کرتے ہیں۔اگر یہ کمیٹی کسی ملک کا نام اِس فہرست میں شامل کردیتی ہے تو اُس پر منی لانڈرنگ اور مالی معاونت پر بننے والے قوانین کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ اب اندازہ لگا لیجئے کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔ ذہن میں رکھیے گا کہ آئندہ ماہ ایف اے ٹی ایف کی اگلی سماعت ہونا ہے۔ ہم پہلے ہی گرے لسٹ میں شامل ہیں‘ اب اللہ خیر ہی کرے۔حالات سب کے سامنے ہیں‘ہمارے مسافروں سے بھرے طیارے کو دوسرے ملک کے ایئرپورٹ پر روک لیا جاتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ عدالت نے ہمارے خلاف یکطرفہ فیصلہ دیا۔ یہ زمینی حقائق ہیں لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں‘ ہم نے بداخلاق ٹرمپ کو نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، ان شاء اللہ ہماری دعاؤں سے بائیڈن کی پٹاری سے بھی ہمارے لیے کچھ اچھا ہی نکلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں