"FBC" (space) message & send to 7575

مبارک ہو!

دو روز پہلے لاہور کے لیے کیا شاندار دن گزرا ہے۔ کمشنر آفس سے دوفروری کی رات کو ہی پیغام مل گیا تھا کہ صبح یونیسکو کی طرف سے لاہور کو ادب دوست شہر قرار دینے کی تقریب طے پائی ہے‘ آپ کو بھی شرکت کرنی ہے۔ ایک تو لاہور کو اتنا بڑا اعزاز ملنے کا موقع اور پھر کمشنر لاہور کی طرف سے دعوت نامے کا ملنا، گویا ؎
یہ جو ہم ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
والی بات ہوگئی تھی۔ فرار کا کوئی راستہ باقی نہ رہا تھا۔ کمشنر آفس سے یاد دہانی کے لیے دوایک بار فون کا سہارا بھی لیا گیا کہ بھول نہ جانا، سیدھے سیدھے الحمرا آنا۔ یوں بھی جہاں بات لاہور کی آجائے تو وہاں باقی سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے حالانکہ یہ ''جو لاہور سے محبت ہے‘ کسی اور سے محبت ہے‘‘ والا معاملہ ہرگز نہیں ہے۔ یہ تو صرف لاہور ہی سے محبت ہے۔
اُچے برج لاہور دے جتھے بلدے چار مشال
اک پاسے میاں میرؒ دی بستی، اک پاسے شاہ جمالؒ
اک پاسے دا داتاؒ مالک، اک دا مادھو لعلؒ
اُچے برج لاہور دے جتھے بلدے چار مشال
یہ تو اُس شہر سے محبت ہے جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں یہاں کے محلہ مولیاں میں مہاتما بدھ نے بھی قیام کیا تھا، جہاں واقع ایک مقبرے کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سائپرس کا مقبرہ ہے۔ کیمرج میں ولفسن کالج سے وابستہ اور پکے لاہوری مجید شیخ تو اِس شہر کی تہذیب کے ڈانڈے ہڑپہ سے بھی ملاتے ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں: لاہور کی تاریخ اُس سے کہیں قدیم ہے جو بیان کی جاتی ہے۔ اپنی اِس تھیوری کا وہ یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جب 1959ء میں برطانوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم نے لاہور کے بعض مقامات کی کھدائی کی تو اُنہیں یہاں سے چار ہزار سال پرانے مٹی کے برتن ملے۔ اِسی طرح محلہ مولیاں میں 29 سو سال قدیم نوادرات ملے ، وہی محلہ جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہاں کبھی مہاتما بدھ نے قیام کیا تھا۔ اِس تناظر میں اُن کا یہ دعویٰ حقیقت کے کافی قریب محسوس ہوتا ہے کہ جب ہڑپہ ختم ہورہا تھا تو لاہور آباد ہورہا تھا۔
یہ اُسی شہر کا تذکرہ ہورہا ہے جس کے بارے میں تاریخ دان پروفیسر افتخار ملک یہ کہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک دہلی، لکھنؤ، ممبئی ، حید رآباد دکن وغیرہ لاہور کی نسبت کہیں بعد کے شہر ہیں۔ اُن کے نزدیک چاہے وہ آریائی دور ہو، سکندرِ اعظم کا زمانہ ہو یا پھر اُس کے بعد کا ہندوشاہی دور‘اِن سب زمانوں میں سب سے بڑا تجارتی، ثقافتی اور ادبی مرکز لاہور ہی رہا ہے۔ اپنی اِس تھیوری کے حوالے سے وہ یہ ثبوت بھی پیش کرتے ہیں کہ ہندوؤں کی سب سے پرانی کتاب رگ وید میں بھی لاہور کا ذکر ملتا ہے، اِسی لیے ہندوازم، بدھ ازم، اسلام اور سکھ ازم کے حوالے سے لاہور کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ زیادہ دور کیا جانا کہ آج بھی اندرونِ بھاٹی میں ڈیرے لگائے تاریخ دان فقیر سید اعجاز الدین تو لاہورکو ایک الگ ہی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ لاہور کی موجودہ حالت پر وہ قدرے ملول تو نظرآتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ لاہور بقا کی ایک شاندار مثال ہے کیونکہ یہ کئی مرتبہ برباد ہوا لیکن ہربارے ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سید فقیر اعجاز الدین سے ہماری زیادہ ملاقات تو نہیں ہے لیکن اِس شہر بے مثال کے لیے اُن کی خدمات کے ہم دل سے معترف ہیں۔ نئی نسل کو لاہور کی تاریخ سے آگاہی فراہم کرنے اور آرٹ کے اسرارورموز سکھانے کا فریضہ انہوں نے خوب نبھایا ہے۔ اُنہیں اِس بات کا بجا طور پر دکھ ہے کہ لاہور میں موجود تاریخ کے نقوش کے ساتھ انتہائی برا سلوک روا رکھا جارہا ہے جس کے باعث تاریخ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی جارہی ہے۔ اِس بات کی تائید تو ہم بھی کریں گے کہ لاہور کی سرزمین پر بکھرے ہوئے تاریخ کے آثار بتدریج اپنا وجود کھوتے جارہے ہیں۔ آج جاتے ہیں تو ایک صورت دکھائی دیتی ہے ، کل جاتے ہیں تو نقشہ ہی بدلا ہوا نظرآتا ہے۔ لاہور کو پیرس بنانے کا دعویٰ کرنے والے اگر اِسے لاہور ہی بنا دیتے تو شاید حالات کہیں بہتر ہوتے۔ افسو س کہ اِس شہر کی شناخت کو نقصان پہنچانے میں خود سرکار اور اِس کے ادارے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ کمرشلائزیشن کا جن سب کچھ نگلتا چلا جارہا ہے جس کی اجازت ظاہر ہے سرکار کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ اِس سب کے باوجود لاہور کی فضائیں اور دروبام آج بھی اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ تاریخ میں تو اِس شہر کا الگ ہی مقام ہے لیکن ثقافت اور ادب میں بھی یہ اپنا کوئی مقابل نہیں پاتا ، دورتلک اگرچہ زمانے میں سوائے تغیر کے کسی کو ثبات نہیں ہے لیکن پھر بھی بقول طارق چغتائی کے ؎
کھینچا نہ کبھی ہاتھ روایات سے طارقؔ
لاہور میں رہتا ہوں مگر میر کی صورت
عطاالحق قاسمی بھی ''شہرِ لاہور تیری گلیوں میں؍ اک سادہ مکان ہوتا تھا‘‘ کی گردان کے ساتھ پرانے لاہور کو ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُسی لاہور کو جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بھی ایک موقع پر بذلہ سنجی سے خوب کام لیا تھا۔ ایک مرتبہ اکبر الٰہ آبادی نے الٰہ آباد سے علامہ اقبال کو لنگڑے آموں کا تحفہ بھجوایا۔ تحفہ ملنے پر علامہ اقبال نے شکریے کے ساتھ یہ شعر بھی لکھ بھیجا ؎
اثر یہ تیرے انفاسِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
لاہور کے اِس طویل سفر کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے تین فروری کو شاندار تقریب سجائی گئی تھی۔ کیسے کیسے شاداں و فرحاں چہرے دیکھتی آنکھوں کو راحت بخش رہے تھے۔ بہت ہی بھلا محسوس ہوا کہ کمشنر لاہور ذوالفقار گھمن خود ہرمہمان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ایڈیشنل کمشنر قدوائی صاحب بھی اُن کے شانہ بشانہ نظرآرہے تھے۔ پھر جو نورالحسن نے اپنی کمپیئرنگ کے رنگ بکھیرنا شروع کیے تو جیسے پورے کا پورا لاہور الحمرا میں سمٹ آیا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر بھاگنے دوڑنے والے تانگوں، یہاں کی ادبی بیٹھکوں، اِس شہر کو رونق بخشنے والے ادیبوں اور دانشوروں کا تذکرہ بھی ہوتا رہا۔ پھر جو یونیسکو کی ڈائریکٹر پیٹریشیا مکفلپس نے باقاعدہ طور پر یونیسکو کی طرف سے لاہور کو ادب کا شہر قرار دینے کا اعلان کیا تو پورا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ چار سالوں سے جاری ایک کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوگئی تھی۔ وہ کوشش جس کا آغازپاکستانی نژاد جرمن شہری وسیم بٹ اور سابق لارڈ میئر لاہور کرنل (ر) مبشر نے کیا تھا۔ پھر اُن کے بعد آنے والوں نے بھی کندھے سے کندھے ملایا اور بالآخر یونیسکو کی ڈائریکٹر نے لاہور کے الحمرالان میں اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔ الحمرا کے ڈائریکٹر نے بھی تقریب کے کیا شاندار انتظامات کیے تھے۔ کسی ایک موقع پر بھی احساس نہیں ہوپایا کہ کہیں کوئی کمی باقی رہ گئی ہو۔ آرکسٹرا کی شاندار دھنوں نے ماحول کو الگ ہی ماحول عطا کررکھا تھا۔ گویا اگر یہ لاہور کو ادبی شہر قرار دینے کی تقریب تھی تو اِس میں ادب کی چاشنی بھی محسوس ہورہی تھی۔ لاہور کی یادوں میں ڈوبنے ، اُبھرنے کے دوران مہمانِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی آواز کانوں میں پڑی۔ اُن کی طرف سے شہر میں مربوط ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی نوید سنائی گئی۔ یہ وعدہ وفا ہو جائے تو کیا بات ہے۔ اللہ کرے کہ میرے لاہور کی یہ رونقیں ہمیشہ آباد رہیں۔ اِسی لیے ہم بھی شعیب بن عزیز صاحب کے ساتھ ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں کہ ؎
میرے شہر پر بھی اِک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں