"FBC" (space) message & send to 7575

معاملہ ایک دن میں تو نہیں بگڑا

پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی چوں بھی کرسکے۔ وہ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ نواز شریف کو جلا وطن کیا جاچکا تھا اور وہ خود کو ایک متنازع ریفرنڈم کے نتیجے میں ملک کا صدر منتخب کراچکے تھے۔ کمال مہارت سے کام لیتے ہوئے وہ اپنے اِس فیصلے کی اسمبلیوں سے بھی توثیق کراچکے تھے تو پھر کون بچا تھا جو اُن کے سامنے دم مار سکتا۔ اِس دوران بعض ایسے واقعات پیش آئے کہ تب کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اُن کی نظروں میں کھٹکنے لگے۔ جب عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کی وطن واپسی کی پابندی ختم کی تو یہ فیصلہ ڈکٹیٹر کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب سٹیل ملز کی نجکاری روکے جانے پر پرویز مشرف اور افتخار محمد چودھری کے درمیان ٹھن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ تب کے سٹیل ملز کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)عبدالقیوم نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر واضح کیا تھا کہ سٹیل ملز کی نجکاری سے ملکی مفادات کو زک پہنچے گی۔ اِس خط اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر عدالت عظمیٰ نے سٹیل ملز کی نجکاری روک دی جس کا نتیجہ چیف جسٹس کی معزولی کی صورت میں سامنے آیا۔
حکمرانوں کے اِس فیصلے پر ملک بھر میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا لیکن عملاً اِس کے خلاف وکلا ہی میدان میں آئے۔ پرویز مشرف کا یہ فیصلہ اُس تحریک کے آغاز کا باعث بنا جس نے ملک کی تاریخ ہی تبدیل کرکے رکھ دی۔ تپتی دھوپ اورشدید گرمی میں ہم بھی پاپیادہ وکلا کے ساتھ چلتے رہے۔ بس ایک ہی دھن اور لگن تھی کہ ایک ڈکٹیٹر کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جائے۔ اِس تحریک کے دوران نشیب و فراز بھی آتے رہے۔ تحریک میں شامل متعدد وکلا کو نوکریاں اور دیگر کئی ترغیبات دی گئیں کہ کسی طرح تحریک کا زور توڑا جاسکے تھے لیکن وکلا کی بڑی تعداد اپنے عزم پر ڈٹی رہی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اِس تحریک کے نتیجے میں پرویز مشرف بدستور کمزور ہوتے چلے گئے اور بالآخر ملک میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت بحال ہوگئی۔ اِس تحریک نے وکلا کو پوری قوم کے سر کا تاج بنا دیا تھا جن کی بدولت ملک کو ڈکٹیٹرشپ سے نجات ملی۔
لیکن معلوم نہیں کہ اُس کے بعد کس کی نظر لگ گئی ہے کہ اب آئے روز وکلا کے بعض گروہوں کی طرف سے بے جا اظہار طاقت کے مظاہر دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ اِس کی نئی قسط اسلام آباد ہائی کورٹ میں سامنے آئی ہے۔ اسلام آبا دہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر غلغلہ تو خوب مچا، کئی ایک اطراف سے شور بھی اُٹھا کہ اب تو لگام ڈالنا ہی ہوگی۔ بعض وکلا تنظیموں کی طرف سے بھی اِس واقعے کی مذمت کی گئی ہے؛ البتہ حکومتی سطح پر اِس واقعہ کی مذمت جاری نہ ہونا کافی حیران کن قرار دیا جا رہا ہے۔ حسب ِ روایت کچھ دن گزرنے کے بعد اب اِس واقعے پر مٹی پڑنا شروع ہوچکی ہے لیکن ذرا سوچئے تو کیا منظر ہوگا جب ایک ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اپنے ہی شہر کے بعض وکلا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوں گے۔ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ جب پولیس نے ضلعی عدالتوں میں سرکاری اراضی پر تعمیر کیے گئے چیمبرز مسمار کیے تو‘ مبینہ طور پر بعض قانون دان دوست آپے سے باہر ہوگئے۔ لگ بھگ تین سو کے قریب کالے کوٹ میں ملبوس افراد اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے، نعرے بازی کی، توڑ پھوڑ کی اور جب تسلی نہ ہوئی تو وہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر میں داخل ہوگئے اور تین گھنٹوں تک اُنہیں یرغمال بنائے رکھا۔ اندازہ کیجئے کہ اِس موقع پر بھی شہر کے ڈپٹی کمشنراور اعلیٰ پولیس حکام ان کی منت سماجت کرتے رہے لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی، اس پر رینجرز کو طلب کیا گیا جس پر وہ چیف جسٹس کے چیمبر سے باہر نکلے۔ اب اونٹ جس بھی کروٹ بیٹھے‘ اُس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ البتہ اِس معاملے میں اتنا ضرور ہوا ہے کہ دوسو کے قریب وکلا کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جاچکا ہے؛ تاہم کوئی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آسکی۔ پولیس حکام کی طرف سے قرار دیا جارہا ہے کہ توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کی شناخت کی جا رہی ہے، اب یہ الگ بات کہ کچھ کی شکلیں تو میڈیا دکھا چکا ہے اور کچھ کو پولیس حکام بھی بخوبی جانتے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ معاملہ گرفتاریوں تک پہنچنے سے پہلے ہی رفع دفع ہوجائے گا کیونکہ ماضی کی یہی روایت رہی ہے۔ ایک آدھ نہیں بلکہ درجنوں مواقع پر ماردھاڑ کے ایسے واقعات سے درگزر کیا گیا، تبھی تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا۔
بے شک یہ ماضی میں پیش آنے والے اُنہی واقعات کا تسلسل ہے جنہیں بوجوہ ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ یاد پڑتا ہے کہ 2017ء میں بھی لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے ایک معزز جسٹس صاحب کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ بات ہڑتال تک پہنچ گئی تھی۔ اِس واقعے میں تب بار کے اعلیٰ عہدیدار کا نام سامنے آیا تھا جو مقدمہ درج ہونے کے باوجود ایک دن کے لیے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں نہیں آسکے تھے۔ بعد میں پھر معاملہ معافی تلافی پر ختم ہوگیا تھا۔ یہاں پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماتحت عدالت کے جج صاحبان کن حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوں گے۔ ماتحت عدالتوں میں تو آئے روز عدالتوں کو تالے لگائے جانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ سائلین کو، پولیس اہلکاروں کو مارنا پیٹنامعمول کی بات بن جائے تو پھر شیشے کے گھروں میں رہنے والے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ تو ابھی کل کی ہی بات ہے۔ اِس حملے کے دوران بھی قوم نے طاقت کے کیا شاندارمظاہر دیکھے تھے۔ جھگڑا چند ڈاکٹروں اور وکلا کے درمیان ہوا تھا لیکن اِس کے نتیجے میں ایک ایسے ہسپتال پر حملہ کردیا گیا جہاں بے شمار مریض زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ کوئی بھی ذی شعور ایسا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوا۔ پوری دنیا نے مریضوں کو جان بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھا اور جو نہ بھاگ سکے وہ بے بسی کے عالم میں یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے رہے۔ کئی مریضوں کے تو آکسیجن ماسک اتارے جانے اور وینٹی لیٹر آف کرنے کی وڈیوز بھی سامنے آئی تھیں۔ تب بھی انسداد ِدہشت گردی ایکٹ کے تحت ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن اِس معاملے کا حتمی نتیجہ کیا نکلا تھا؟ یہ تو صرف چند ایک واقعات ہیں ورنہ تو...
ایسے واقعات سے مسلسل درگزر کرنے کے رویے نے آج ایک مرتبہ پھر ہمیں پوری دنیا میں شرمندہ کردیا ہے۔ معلوم نہیں کہ جب دنیا ایسے مناظر دیکھتی ہو گی تو ہمارے متعلق کیا سوچتی ہوگی؟یہ سب کچھ اُس ملک میں ہورہا ہے جوپہلے ہی انصاف فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں انتہائی نچلے درجے پر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ سامنے آئی تھی جس کے مطابق دنیا کے 128ممالک میں پاکستان انصاف کی فراہمی کے اعتبار سے 120ویںنمبر پر کھڑا ہے۔ مطلب صرف 8ممالک ایسے ہیں جہاں نظام انصاف کی صورت حال ہم سے بھی ابتر ہے۔ افسوس کہ ہم پہلے سے بوسیدہ نظام کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونکنے میں مصروف ہیں۔ یہ سب کسی اور کے ہاتھوں نہیں بلکہ ہمارے باشعور قانون دان طبقے کے کچھ افراد کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ آج وکلا کے بارے میں جو عمومی تصور پایا جاتا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایسے میں جب کوئی ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو پھر ہمیں غصہ آتا ہے لیکن اندر سے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ یقینا معاملات کے اِس سطح تک پہنچنے میں ہماری اپنی کوتاہیوں کا ہی عمل دخل ہے کہ جب چھوٹی برائی کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر بڑی برائی کے پنپنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں