"FBC" (space) message & send to 7575

پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک فضا میں

27فروری کا دن پھر آن پہنچا ۔ وہ دن جب ایک مرتبہ پھر وطن کے لیے ہر قربانی دینے کے عہد کی تجدید ہوئی۔ وہ دن جب ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا کہ عددی اعتبار سے دشمن چاہے ہم سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوہمارے حوصلے ہمیشہ جواں رہیں گے۔؎
مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے/ مری اُڑان کے آگے تو آسماں کم ہے
27فروری 2019ء کہ جب ملک کی فضاؤں میں مداخلت کرنے والے دشمن کے دوجہازوں کا شکار کیا گیا۔بے شک اُس روز جو تاریخ رقم کی گئی اُسے ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ اُن جانبازوں کو ہمیشہ خراج ِتحسین پیش کیا جاتا رہے گا جنہوں نے اس قول کو سچ ثابت کردکھایا کہ پاک فضائیہ مادرِ وطن کی فضاؤں کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ کہانی شروع ہوئی تھی 26فروری 2019کی صبح تین بجے جب بھارت کی طرف سے ہماری ملکی سالمیت پر شب خون مارا گیا۔ بعد میں اس بابت ائیرفورس کے کچھ ریٹائرافسران سے بات ہوئی تو ہم یہ سمجھ سکے کہ حقیقت میں ہوا کیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ 26فروری کی صبح تین بجے پاکستانی ریڈار پر چارمقامات پر پرواز کرنے والے تقریباً 20بھارتی طیاروں کو دیکھا گیا۔ سرکریک ، فاضلکا سیکٹر ، آزاد کشمیر اور بالاکوٹ کے علاقے میں بھارتی طیاروں کی موجودگی ظاہر ہوئی۔ان میں بارہ میراج اور باقی ایس یو 30فائٹر طیارے تھے۔ طیاروں کی پاکستانی سرحدوں کے نزدیک موجودگی پاتے ہی فضائیہ ہائی الرٹ پر چلی گئی۔ بھارتی طیاروں میں سے کچھ پاکستانی سرحدوں میں داخل ہوئے لیکن تب تک پاکستان کے جے ایف 17تھنڈر طیارے بھی فضا میں بلند ہوچکے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کرچار بھارتی طیاروں نے جلد بازی میں جابہ کے مقام پر اپنا پے لوڈ گرایا اور راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ بعد میں بھارتی فضائیہ کے تب کے چیف آرجی کپور کا دعویٰ سامنے آیا کہ سرجیکل سٹرائیک کے تمام اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بھارت اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا۔ بھارتی پروپیگنڈے کی حقیقت دنیا کے سامنے لانے کیلئے پاکستان کی طرف سے ملکی اور غیرملکی میڈیا کے نمائندوں کو جائے وقوعہ پر لے جایا گیا لیکن وہاں کچھ بھی ایسا نظر نہ آسکا جس سے بھارتی دعوے کی تصدیق ہوتی۔ یقینا یہ سراسر بھارتی جارحیت تھی جس کا جواب دینا پاکستان کا حق تھا اور پھر بھرپورجواب دیا گیا۔
کہانی کے دوسرے حصے میں ہماری طرف سے فیصلہ کیا گیا کہ بھارت نے تو رات کی تاریکی میں جارحیت کا ارتکاب کیا لیکن اُسے جواب دن کی روشنی میں دیا جائے گا۔ فیصلہ ہوا کہ بھارت نے تو سویلین علاقے کو نشانہ بنایا لیکن ہماری طرف سے اُس کے عسکری اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا۔ بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق فیصلہ ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے چھ اہداف کو چنا گیاجس کے ساتھ ہی 27فروری کو دن کی روشنی میں جے ایف 17تھنڈر اور میراج طیارے فضاؤں میں بلند ہوگئے۔ ان کے ساتھ ائیربورن ارلی وارننگ طیارے بھی موجود تھے جو دشمن کی سرحد کے اندر تک جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مقررہ مقامات پر پہنچنے کے بعد فیصلے کے مطابق چھ اہداف کو ٹارگٹ کیا گیالیکن انہیں تباہ کرنے کی بجائے تمام ایمونیشن کو ان اہداف سے قدرے فاصلے پر گرایا گیا۔ اس کا مقصد دشمن کو یہ بتانا تھا کہ یہ تمام ٹارگٹ ہماری زد میں تھے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں تباہ کرسکتے تھے ۔ حملے کے کچھ بعد میں آنے والی تمام رپورٹس نے ظاہر کیا کہ اس کارروائی سے بھارتی کیمپوں میں سراسیمگی پھیل گئی تھی اور ایک ہدف پر موجود ایک بریگیڈئیر کو افراتفری میں وہاں سے نکلنا پڑا۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے طیارے یہ تمام کارروائی اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر رہ کر انجام دے رہے تھے جس کے لیے دورمار ہتھیاروں کواستعمال کیا گیا تھا۔ اسی دوران دوسری طرف سے مقابلے کے لیے مگ 21اور کچھ دوسری اقسام کے طیارے آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے ایک ایس یو 30طیارے کو لاک کرنے کے بعد میزائل سے نشانہ بنایا جو مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں کے اندر گر کر تباہ ہوگیا۔ دوسری طرف ونگ کمانڈر نعمان ایک مگ 21کو لاک کرنے کے بعد اُسے نشانہ بناتے ہیں جس کا ملبہ پاکستانی سرحد کے اندر گرتا ہے۔ طیارہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کا پائلٹ ابھی نندن ایجکٹ کرجاتا ہے اور زمین پر گرنے کے بعد علاقہ مکینوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جسے بعد میں پاک فوج کی ایک ٹکڑی اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔دوبھارتی طیاروں کی تباہی اور ایک بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے ساتھ ہی معرکہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
27فروری 2019ء کو انجام پانے والی اس ولولہ انگیز داستان کے تیسرے حصے میں پاکستان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر امن و آشتی کا شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ابھی نندن کو باعزت طریقے سے بھارت کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ہماری حکومت کے اس اقدام پر ملک کے بعض حلقوں کی طرف سے اعتراضات بھی سامنے آتے ہیں کہ ہمیں یہ فیصلہ اتنی عجلت میں نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ٹھیک وقت پر ٹھیک فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس پر کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئی تھیں کہ بھارتی پائلٹ کو واپس بھجوانے کا فیصلہ ایک دوست ملک کے کہنے پرکیا گیا تھا۔ یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ بھارت نے پائلٹ واپس نہ کیے جانے کی صورت میں کسی جارحانہ کارروائی کا پیغام بھجوایا تھا۔ یہ سب وہ باتیں ہوتی ہیں جن کا کوئی ثبوت تو نہیں ہوتا لیکن بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ پس پردہ بہت سی چیزیں چل رہی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے جب دوست ممالک کی طرف سے کوئی مطالبہ کیا جائے تو اسے ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ہم اپنے تمام مقاصد بخوبی حاصل کرچکے تھے تو پھر بات کو بڑھانے کی بجائے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔یوں بھی ہمارا موضوع گفتگو حکومتی معاملات نہیں بلکہ وہ جانباز ہیں جو ملکی سالمیت کا تحفظ کرنے کے لیے ہمیشہ سربکف رہتے ہیں اور 27فروری 2019ء کو اُنہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت بھی کی۔
اِن تمام تر واقعات کے دوران ہم تین بڑی کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے‘بھارتی طیارے ہماری سرحدوں میں کوئی بڑی کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ ہم نے نہ صرف دو بھارتی طیاروں کو تباہ کیا بلکہ ایک بھارتی پائلٹ کو پکڑنے میں بھی کامیاب رہے۔ سب سے بڑی کامیابی ابھی نندن کو واپس بھجوا کر حاصل کی کہ ہم امن کے داعی ہیں۔ ہمارے اس اقدام کو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔یوں بھی دیکھا جائے تو ہماری طرف سے تو ہمیشہ بھارت کی طرف امن کا ہاتھ ہی بڑھایا گیا ہے لیکن معلوم نہیں سرحد پا رسے کیوں ہمیشہ جنگ و جدل کی باتیں کی جاتی ہیں۔ایک بات اور یاد آگئی کہ ہمیں پاک فضائیہ کے ریٹائر افسران کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ اگر ہمارے پائلٹ چاہتے تو بھارت کے مزید دو سے تین طیارے گرا سکتے تھے لیکن مقصود صرف پیغام دینا تھا جو بخوبی پہنچا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی وزیراعظم کی طرف سے کہا گیا کہ اگر اُن کے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔ اب تو خیر فرانس کے یہ طیارے بھی بھارت کے پاس آچکے ہیں لیکن بات وہی ہے کہ ؎
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
یقینا 27فروری 2019ء کے واقعات سے بھارت کو یہ مضبوط پیغام ملا کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں اُسے بھرپور جواب ملے گا لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اگر دونوں ممالک امن کی راہ اپنائیں۔ جو وسائل ہتھیاروں پر خرچ کیے جارہے ہیں ، اُنہیں غربت کے جبر میں پستے ہوئے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ بالآخر بات میز کے گرد بیٹھ کر ہی طے ہوتی ہے۔ باقی رہی بات کسی جارحیت کی صورت میں ہماری تیاریوں کی تو، دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج؎
پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں