"FBC" (space) message & send to 7575

پرسیویرینس اور ہمارا سائنسی زوال

30 جولائی 2020ء کو امریکا کے خلائی ادارے ناسا کی طرف سے ایک مشن سرخ سیارے کی طرف روانہ کیا گیا۔ پرسیویرینس (perseverance) نامی اِس خلائی جہاز کو 20 کروڑ 22 لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کرکے مریخ تک پہنچنا تھا۔ مشن کی کامیابی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جانے کے باوجود کہیں نہ کہیں کچھ خدشات بھی موجود تھے کہ کیا سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوسکے گا یا نہیں۔ڈوبتی اُبھرتی اُمیدوں کے درمیان بالآخر سات ماہ تک سفر کرنے کے بعد 19 فروری 2021ء کو پرسیویرینس مریخ کی سطح پر لینڈ کر گیا۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ ایک خلائی جہاز سات ماہ تک سفر کرتا رہا اِس لیے کہ وہ مریخ پر پہنچ کر وہاں کی معلومات کے بارے میں اہلِ زمین کو آگاہی فراہم کرے۔ اہلِ زمین بھی کیا‘ اُنہیں جنہوں نے یہ مشن روانہ کیا تھا۔ منصوبہ ساز ہمیشہ سے ہی انسانی دلچسپی کے حامل اِس سیارے کے اندرونی خدوخال کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ وہاں پانی موجود ہے یا نہیں، ہوا چلتی ہے یا نہیں؟ اب یہ خلائی جہاز اپنی کامیاب لینڈنگ کے بعد سے مسلسل وہاں کی تصاویر زمین پر بھیج رہا ہے۔
یہ تو سب کے علم میں ہو گاکہ قدیم رومی مذہب میں اِس سیارے کو سرخ سیارے کے نام سے پکارا جاتا تھا اور وہ لوگ اِس کی پرستش بھی کیا کرتے تھے۔ اِس کی سطح پر زمین کی مانند وادیاں اور صحرا بھی موجود ہیں۔ ایک بہت بڑا آتش فشاں پہاڑ بھی مریخ پر موجود ہے جسے اولیمپس مونس کا نام دیا جاچکا ہے۔ یہ معلومات بھی پہلے سے موجود تھیں کہ اِس سیارے کے جنوبی قطب پر اتنی برف موجود ہے کہ اگر یہ پگھل جائے تو پورے سیارے کی سطح پر گیارہ میٹر تک پانی کھڑا ہوجائے گا۔ برف کے حوالے سے یہ اندازہ 2016ء میں ہی لگایا جا چکا ہے جس کے ساتھ بہت سی دوسری معلومات بھی حاصل کی جا چکی تھیں۔ اب کے مقصد یہ تھا کہ سیارے کے بارے میں فرسٹ ہینڈ معلومات حاصل کی جاسکیں جس کے بعد یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ وہاں کبھی زندگی موجود رہی ہے یا نہیں۔ یہ جاننا بھی مقصود ہے کہ کیا وہاں پر انسان کو بسایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اِن تمام مقاصد کے حوالے سے اب پرسیویرینس مریخ کے بارے میں معلومات زمین پر بھیج رہا ہے۔
اب تک جو تصاویر وہاں سے موصول ہوئی ہیں‘ اُن میں سے بہت سی تصاویر میں وہاں موجود پتھروں پر ہواچلنے کے آثار واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مریخ پر بھی ہوا وہاں موجود پتھروں وغیرہ پر ویسے ہی اثر انداز ہوتی ہے جیسے زمین پر ہوا ایسی چیزوں کو متاثر کرتی ہے۔ناسا کی طرف سے پرسیویرینس کی مریخ پر لینڈنگ کی ایک وڈیو بھی ریلیز کی جاچکی ہے۔ تین منٹ پچیس سیکنڈ کی اِس وڈیو میں مشن کے اُترنے کے دوران پیراشوٹ کھلنے اور دھویں کے بادل واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ پس منظر میں ایک ہلکی سی آواز بھی سنائی دے رہی ہے جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ہوا چلنے کی آواز ہوسکتی ہے۔ سرخ سیارے پر ایک ریگستانی حصہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ اِس سے پہلے بھی ناسا کی طرف سے پانچ مشن اِس سیارے پر بھیجے جاچکے ہیں لیکن حالیہ مشن کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ ماضی میں بھیجے جانے والے مشنزکی نسبت زیادہ جدید ہے جسے پہلے سے حاصل ہونے والی معلومات کے پیش نظر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اب یہ مشن دوسال تک سیارے پر موجود رہ کر یہ کھوج لگانے کی کوششوں میں مصروف رہے گا کہ آیا کبھی یہاں زندگی موجود تھی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ناسا کو مطلوبہ حد تک معلومات حاصل نہ ہوسکیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اُس کے پاس مریخ کے بارے میں معلومات کا ایک نیا خزانہ ضرور جمع ہوجائے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے چاند کو مسخر کرنے کی دوڑ میں امریکا بازی لے گیا تھا۔ بہت سی یادداشتوں میں 16 جولائی 1969ء کا دن محفوظ ہی ہو گا جب امریکی خلائی جہاز اپالو نے چاند کے لیے اپنے سفرکا آغاز کیا تھا۔ چار دن بعد 20 جولائی 1969ء کو پہلے انسان نیل آمسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا تھا جس کے ساتھ ہی چاند کی تسخیر عمل میں آگئی تھی۔ چاند کی زمین پر قدم رکھنے کے عمل کو نیل آرمسٹرانگ کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ قرار دیا گیا تھا۔ اب معلوم نہیں یہ انسانیت کے لیے بڑی چھلانگ تھی یا پھر امریکا کے لیے؟ اپنے مسافروں کو لے کر اپالو 24جولائی کو واپس زمین پر اُتر آیا لیکن اِس حقیقت کو آشکار کر گیا کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی پر دسترس کتنی ضروری ہے۔
اب پرسیویرینس کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔ظاہری بات ہے کہ جو یہ سب کچھ کررہا ہے، وہ اِس سے فائدہ بھی اُٹھائے گا اور ہم اپنی ہرمشکل کے حل کے لیے ترقی یافتہ اقوام کی طرف سے دیکھتے رہیں گے۔ ہم آج تک ''پدرم سلطان بود‘‘ کا شکار ہیں اور ایسی باتوں سے دل کو تسلی دیتے رہتے ہیں کہ آج جتنی بھی ترقی ہورہی ہے، اِس کا آغاز ہمارے سے ہی ہوا تھا۔ ہم فخر سے بتاتے ہیں کہ جب یورپ دورِ جاہلیت سے گزر رہا تھا‘ تب مسلمانوں اور مشرق کا سائنسی دور اپنے عروج پر تھا۔ تب قرطبہ پوری دنیا کا علمی مرکز تھا۔ ہم عظیم جغرافیہ دان الادریسی سیوطی کی مثال دیں گے جنہوں نے ریاضیاتی نقشہ نویسی کو شاندار فروغ دیا جو آگے چل کر البیرونی کے لیے بھی معاون ثابت ہوا۔ ماہرفلکیات، موسیقار، ریاضی دان اور طبیب ابوبکر محمدکی قصیدے پڑھیں گے جنہوں نے فلسفے اور طب کے شعبوں میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ البتہ یہ بتانا پسند نہیں کریں گے کہ بعد میں ہمارے حکمرانوں نے اِس پاداش میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ 12ویں صدی کے شاندار ریاضی دان اور ماہرفلکیات ابن رشد کی تمام کتب جلا دی گئی تھیں جس کے بعد اُسے اپنی باقی کی زندگی گوشہ گمنامی میں گزارنا پڑی تھی۔ مثال تو ہم یعقوب الکندی کی بھی بڑھ چڑھ کر دیں گے جنہوں نے طب اور کیمیا کے شعبوں میں اپنی تحقیق سے شاندارنتائج اخذ کیے تھے مگر دوسرا رخ یہ ہے کہ خلیفہ مامون کے بعد جب خلیفہ متوکل برسراقتدار آئے تو یعقوب الکندی کو دن میں تارے دکھا دیے۔ اختلافات کے باعث اِس عظیم سائنسدان کو سرعام پچاس کوڑے لگوائے گئے۔ ایسی کسی بھی بحث میں ہم بھلا الرازی اور ابن خلدون کو کہاں بھولتے ہیں‘ بس یہ فراموش کردیتے ہیں کہ حکمرانوں کی طرف سے ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا تھا۔
ان چیزوں کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم سائنسی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے زوال کا شکار ہو گئے۔ زوال کا یہ سلسلہ آج تک تھما نہیں۔ مسلم دنیا میں ایسے ایسے امیر حکمران موجود ہیں جن کی دولت کو کوئی شمار نہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک چھوٹے سے ملک کے ایک شہزادے کی شاہ خرچیوں کا احوال سامنے آیا ہے۔ موصوف نے دس سالوں کے دوران جو دولت خرچ کی‘ اس کی یومیہ اوسط سات لاکھ ڈالر بنتی ہے۔ یہ صرف ایک چھوٹے ملک کے شہزادے کی شاہ خرچیوں کا احوال ہے‘ جس سے دیگر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے ممالک کے حکمرانوں کا تو یہ حال ہے کہ سونے اور چاندی کے واش رومز اور جن طیاروں پر سفر کیا جاتا ہے ‘وہ طیارے محلات کی صورت میں اُڑان بھرتے ہیں۔ اصطبل دنیا کے قیمتی ترین گھوڑوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن مجال ہے کہ بین الاقوامی معیار کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی موجود ہو۔ ایسے کسی ادارے کے قیام کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے کیونکہ بدقسمتی سے یہ سوچ آج بھی موجود ہے کہ تعلیمی میدان میں ترقی بادشاہتو ں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اِس سوچ کے خاتمے تک یہ زوال جاری رہے گا اورظاہر ہے کہ جب تک یہ زوال ختم نہیں ہوگا تب تک ہمیں دوسروں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں