"FBC" (space) message & send to 7575

کمبھ کا میلہ اور کورونا

دنیا کے کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جہاں راج نیتی کرنے والے اکثریت کو خوش کر کے حکومت کرنے کے سنہری اصول کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ اقلیتوں کو دبا کر اکثریت کو خوش کرنے کا چلن شاید اقتدار تک پہنچنے کا مختصر راستہ فراہم کرتا ہے‘ اِسی لیے اکثر ترقی پذیر معاشروں میں اِس طرف بہت دھیان دیا جاتا ہے۔ اِسی سوچ کا یہ شاخسانہ ہے کہ ایک کام اگر اقلیتی گروہ کرے تو وہ غلط اور اگر وہی کام اکثریت کے ہاتھوں انجام پائے تو ٹھیک کہلاتا ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے لگ بھگ انہی دنوں میں جب بھارت میں کورونا کا آغاز ہوا تو بھارتی مسلمان اکثریت کے ہاتھوں بری طرح رگیدے جا رہے تھے۔ اکثریت کی طرف سے اِنہیں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا تھا۔ حکومتی سطح سے بھی اِس رجحان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی۔ مسلمانوں پر الزام تھا کہ دہلی کے تبلیغی مرکز میں ہونے والا اجتماع کورونا کے پھیلائو کا سبب بنا ہے۔ معاملہ اتنا زیادہ بڑھ گیا تھا کہ بھارت میں مسلمان دکانداروں کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی گئی۔ حکومتی سطح پر ہونے والی حوصلہ افزائی نے اکثریت کے حوصلوں کو مزید طاقت بخشی جس کے نتیجے میں کئی مقامات پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ تمام کا تمام بھارتی میڈیا بڑھ چڑھ کر یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا کہ بھارت میں کورونا کے پھیلاؤ کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ یہ مطالبات بھی کیے جا رہے تھے کہ تبلیغی اجتماع کے لیے اکٹھے ہونے والوں کو سزائیں ملنا چاہئیں۔ انتہا پسندوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا کہ کسی طور اقلیت کو دن میں تارے دکھا دیے جائیں۔ یہ وقت بھارت میں بسنے والے
مسلمانوں کے لیے بہت کٹھن تھا۔ اتنا کٹھن کہ اِن کے ساتھ ہسپتالوں میں امتیازی سلوک کی شکایات بھی کثرت سے سامنے آئیں۔ جھاڑکھنڈ کے شہر جمشید پور کی ایک خاتون کے خط کا عالمی سطح پر بھی کافی چرچا رہا۔ رضوانہ نامی اِس خاتون نے جھاڑ کھنڈ کے وزیراعلیٰ کے نام اپنے خط میں لکھا ''ہسپتال کے عملے نے مجھے نام اور مذہب سے جوڑ کر گالیاں بکیں، مجھے کہا گیا کہ جہاں جہاں پر خون گرایا ہے وہاں سے خود صاف کرو، جہاں سے بھی علاج کراتی ہو وہاں کورونا پھیلاتی ہو‘‘۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ یہ تب کی بات ہے جب پورے بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر لگ بھگ تین‘ چار سو کیسز رپورٹ ہو رہے تھے مگر میڈیا پر اور بھارت کے اکثریتی حلقوں کو مسلمانوں کو ''کورونا بم‘‘ اور''کورونا جہاد‘‘ کا نام دیا جا رہا تھا۔
آج پورے ایک سال بعد یہ عالم ہے کہ بھارت میں ایک ہی دن میں تین‘ تین لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ ہرجانب سے مدد، مدد کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ آکسیجن کی اتنی قلت ہے کہ فیکٹریوں، دکانوں پر سلنڈروں کی لوٹ مار تک شروع ہو چکی ہے۔ حالت یہ ہے کہ خوف کے باعث بے شمار افراد کی دماغی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شمشان گھاٹوں کی ایسی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں دن رات لاشیں جلائے جانے کے باعث اِن کی چمنیاں تک پگھل چکی ہیں۔ اب اندازہ لگائیں کہ اِن حالات میں بھی بھارت میں کمبھ میلے کا انعقاد کیا گیا۔ ریاست اُتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں جاری اِس میلے میں کتنے افراد شریک ہوئے، اِس کا اندازہ اِس بات سے لگا لیجئے کہ ایک دن میں 30، 30 لاکھ افراد گنگا میں نہاتے رہے۔ ایس او پیز کا کوئی دھیان نہ کسی قسم کی احتیاطی تدابیر‘ ہرکوئی اپنا گناہ دھونے کیلئے گنگا میں نہانے کو بیتاب دکھائی دیا۔ یہاں سے ہر روز ہزاروں کورونا پازیٹو کیسز سامنے آ رہے ہیں ۔ اس کا انعقاد کیوں کیا گیا؟ اِس لیے کہ یہ اکثریت کا تہوار ہے اور اکثریت پر بھلا کون سا قانون لاگو ہوتا ہے؟ وہ بھارتی رہنما‘ جو ایک سال پہلے مسلمانوں کے تبلیغی اجتماع کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، آج اِس میلے کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک سال پہلے اُتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ کی طرف سے تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والوں کو ''انسانی بم‘‘ قرار دیا گیا تھا، آج وہ کمبھ میلے میں شریک ہونے والوں کو عقیدت مند کہہ کر پکار رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ تیرتھ سنگھ کی دلیل ملاحظہ کیجئے ''تبلیغ کے لیے اکٹھے ہونے والے ایک عمارت میں جمع ہوئے تھے جبکہ کمبھ کے میلے میں شریک افراد کھلے آسمان تلے نہا رہے ہیں، یوں بھی گنگا میّا کی مہربانی سے میلے میں شریک افراد سے کورونا وبا دور ہی رہے گی‘‘۔ اب ذرا میلے کے حوالے سے بھارتی میڈیا کا طرزِ عمل بھی دیکھ لیجئے۔ وہی میڈیا‘ جس نے گزشتہ سال مسلمانوں کے خلاف آسمان سر پر اُٹھایا ہوا تھا‘ آج چپ سادھے بیٹھا ہے اور اسے میلے میں کوئی قباحت دکھائی نہیں دے رہی؛ البتہ غیرملکی میڈیا کھل کر کمبھ پر تنقید کر رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں قرار دیا گیا ہے کورونا وائرس نے بھارت کو نڈھا ل کر دیا ہے لیکن کمبھ میلے میں شرکت کرنے والوں کو اِس کی کوئی فکر نہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ اگر وہ اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اِس کے نتیجے میں بھگڈر مچ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں پولیس خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ اب تھوڑی دیر کے لیے سوچئے کہ اِن حالات میں اگر مسلمان یا کوئی اور اقلیتی گروہ بھارت میں کوئی اجتماع منعقد کر رہا ہوتا تو اُس کے خلاف کیا کیا نہ کیا جاتا۔ کمال ڈھٹائی سے کمبھ میلے کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ کورونا میلے میں شرکت کرنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ سب کچھ اُس حکومت سے تعلق رکھنے والے کہہ رہے ہیں جس نے تبلیغی اجتماع منعقد کرنے پر متعدد مسلمان علما اور رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے تھے۔ یہ رہنما نہ صرف مقدمات بھگتتے رہے بلکہ اِن کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ یہ اُسی حکومت سے تعلق رکھنے والے ہیں جس نے کورونا کے باعث سکھ یاتریوں کی کرتارپور آمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اب اکثریت کا معاملہ ہے تو لاکھوں‘ کروڑوں لوگ بغیر احتیاطی تدابیر کے میلے میں شرکت کر رہے ہیں لیکن مجال ہے جو کہیں سے بھی اِس صورت حال کے خلاف کوئی مضبوط آواز اُٹھی ہو۔ گو کہ اب دبے دبے الفاظ میں ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ خدشات بلاجواز بھی نہیں ہیں کیونکہ کمبھ کے میلے میں بھارت بھر سے افراد شرکت کرتے ہیں اور بغیر احتیاطی تدابیر کے میلے میں شرکت کرنے والے لاکھوں افراد اپنے اپنے علاقوں میں وائرس لے جانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
کمزور معاشروں کا المیہ یہی ہے کہ وہاں اکثریت کے اصول چلتے ہیں۔ وہاں کی حکومتیں بھی بات بے بات اکثریت کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ ایسے کتنے ہی واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں اکثریت نے اپنے کسی مفاد کے لیے اقلیت کو نشانہ بنایا۔ دوسروں پر جھوٹے الزامات لگا کر اُن کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ صورتحال تب زیادہ افسوسناک ہو جاتی ہے جب ایسے معاملے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خود کو عوامی دباؤ کے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اقلیتوں کے حالات بھارت کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ہیں اور ماضی کی نسبت صورتحال میں مزید مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اِس کے لیے حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی بیداریٔ شعور کی ضرورت ہے۔ اگر اپنا گھر ٹھیک نہ ہو تو ہم دوسروں پر تنقید کرنے کا اخلاقی جواز بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ جب کبھی بھی کہیں پر بھی کسی اقلیتی گروہ سے زیادتی کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ ایسی داستانیں معاشرے کے بہت سے تاریک پہلوؤں کو اُجاگر کرتی ہیں۔ یوں بھی اپنے سے کمزور پر ہاتھ اُٹھانا کون سی مردانگی ہے۔ بقول میاں محمد بخش صاحب ع
لسّے دا کی زور محمدؔ نس جانا یا رونا
(محمد بخش بھلا کمزور کا کیا زور ہوتا ہے، اتنا ہی کہ یا وہ بھاگ جاتا ہے یا رونے لگ جاتا ہے )
اقلیتوں سے زیادتی بھارت میں ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ تمام صورتوں میں اِیسے واقعات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ ہم پر اِس حوالے سے زیادہ ذمہ داری اس لیے بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم ایسے دین کے پیروکار ہیں جس میں اقلیتوں کے حقوق کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں