"FBC" (space) message & send to 7575

طاقت کا اظہار اور قانون کی حکمرانی

آٹھ سال کا خوب صورت، معصوم سا بچہ ہاتھ جوڑ رہا ہے، منتیں کر رہا ہے لیکن اُس کا مکینک اُستاد اُسے بہیمانہ انداز میں پیٹتا ہی چلا جا رہا تھا۔ وہ اُسے اتنی بے دردی سے پیٹتا تھا کہ وائرل ہو جانے والی وڈیو دیکھنے والے کانپ کر رہ جاتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ اگر صرف وڈیو دیکھنے سے ہی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے تو اُس کا کیا حال ہوگا جو یہ تشدد برداشت کر رہا تھا۔ لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ کے رہنے والے اِس معصوم بچے کے والدین اِسے ایک موٹرمکینک کے سپرد کر گئے تھے۔ مقصد یہی ہو گا کہ چلوکچھ کام سیکھ لے گا اور دو پیسے کمانے لگے گا۔ شاید وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اُن کے بچے کے ساتھ ایسا سلوک ہو سکتا ہے لیکن... ہائے یہ مجبوریاں! وہی ہوا کہ ایک روز بچہ قدرے تاخیر سے دکان پر آتا ہے اور اُس کا اُستاد اُسے بے دردی سے پیٹتا ہے۔ اگر آپ وڈیو غور سے دیکھیں تو اُستاد کے چہرے پر ایسا کروفر دکھائی دے گا کہ جیسے وہ پوری دنیا کا حکمراں ہو۔ اُس کا چہرہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ سکندر اعظم کے بعد دوسرا فاتح عالم ہو۔ اِس لیے کہ تب وہ خود کو کسی بھی طرح کی اخلاقیات اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے بچے کو محض اس لیے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا کہ بچہ کمزور تھا۔ با لکل راولپنڈی کے اُس بچے کی مانند‘ جسے کچھ عرصہ قبل اُس کے سوتیلے باپ نے بغیر بتائے پھل کھانے کی پاداش میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پلاسٹک کا پائپ بچے کی کمر پر تابڑ توڑ برستا رہا۔ بچہ درد کی شدت سے چلاتا رہا لیکن اُس کا سوتیلا باپ اُسے مارتا ہی چلا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے چند روز پہلے منظر عام پر آنے والی ایک وڈیو میں خود کو رستم زماں سمجھنے والا گوجرانوالہ کا ایک شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا دکھائی دیا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے سامنے ہی بیوی کو اِس طرح پیٹتا ہے جیسے دنیا میں اُسے روکنے والا کوئی باقی نہیں بچا۔ ایسی ہی ایک وڈیو خیبر پختونخوا کی سامنے آئی جس میں دو بھائی جائیداد میں حصہ مانگنے پر اپنی بہن پر ظلم و بربریت کو مات دیتے نظر آتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ایک کٹے (بھینس کے بچے) کی زبان کاٹ دی گئی کیونکہ وہ ایک وڈیرے کی زمینوں میں گھس گیا تھا۔ یہ ہر روز سامنے آنے والی وڈیوز میں سے چند نمونے ہیں جن میں ظالم کا کردار نبھانے والے ایک ہی فطرت کے مالک دکھائی دیتے ہیں۔ اُس فطرت کے مالک‘ جو یا تو بحیثیت مجموعی پوری قوم کی فطرت بن چکی ہے یا پھر یہ کہ قانون کا خوف لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا ہے اور لوگ کمزور پر ظلم ڈھانے میں آزاد ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ایسے واقعات تقریباً دنیا کے ہر خطے‘ ہر ملک میں رونما ہوتے ہیں لیکن جس کثرت سے یہ اب ہمارے ملک میں سامنے آ رہے ہیں، وہ انتہائی تشویش ناک صورتِ حال کی غمازی کرتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ایسا کرنے والے پکڑے جاتے ہیں تو تب سب ہیکڑی‘ سارے کس بل نکل جاتے ہیں۔ مکنیک اُستاد جب پولیس کے ہتھے چڑھا تو تب اُس کا ''متانت بھرا‘‘ چہرہ دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اِس جیسا آدمی دنیا میں کوئی دوسرا نہیں۔ اپنے چہرے پر یاسیت طاری کیے ہوئے یہ شخص اتنی شرافت سے پولیس کی حراست میں کھڑا تھا کہ گویا اِس کے ساتھ سخت زیادتی ہو رہی ہے۔ اپنے سوتیلے بیٹے کو بہیمانہ انداز میں تشدد کا نشانہ بنانے والا شخص جب پولیس کی گرفت میں آیا تو اُس کے چہرے پر بھی ایسے ہی تاثرات دکھائی دیے تھے۔ اپنی اہلیہ کو زمین پر گھسیٹنے، اُس کے بال کھینچنے اور تشدد کرنے والے کا چہرہ دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کی بیوی نہیں‘ وہ خود مظلوم ہے۔ بہن پر تشدد کرنے والے پولیس حراست میں اپنے کیے پر ایسے نادم نظر آ رہے تھے جیسے یہ تشدد صرف ایک بار اور جذبات سے مغلوب ہو کر سرزد ہو گیا۔ مذکورہ تمام کیسز میں جو قدرِ مشترک ہے وہ یہ کہ یہ تمام وڈیوز پہلی بار تشدد پر نہیں بنائی گئی تھیں‘ تمام مظلومین کے مطابق‘ یہ تشدد معمول کی بات ہے۔
یہاں ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ کسی کام کے سلسلے میں لاہور کے ایک پولیس سٹیشن جانا ہوا‘ وہاں ایس ایچ او صاحب کے پاس کچھ پولیس اہلکار ایک نوجوان کو لے کر آئے۔ اہلکاروں نے بتایا کہ سر یہی وہ شخص ہے جس کی اہلیہ نے گزشتہ روز تھانے میں شوہر کے تشدد کی شکایت کی تھی۔ ایس ایچ او نے اُس نوجوان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور اُسے ایک کونے میں کھڑا رہنے کا کہا۔ یقین کیجئے کہ وہ نوجوان ایسے بے حس و حرکت کھڑا تھا کہ محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی روح قفسِ عنصر ی سے پرواز کرچکی ہو۔ کچھ دیر کے بعد ایس ایچ او صاحب نے اُس نوجوان کو بلا کر کہا کہ آؤ میرے چہرے پر ویسے ہی تھپڑ مارو جیسے اپنی بیوی کے چہرے پر مارتے ہو۔ مجال ہے جو اُس نوجوان نے ذرا سی بھی جنبش کی ہو۔ اِس مرتبہ اُس کے سامنے اس کی کمزور بیوی نہیں بلکہ ایک طاقتور شخص موجود تھا۔ اب وہ طاقتور اُسے کہہ رہا تھا کہ اُس تھپر مارو لیکن نوجوان اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہا تھا۔ یہی ہماری مجموعی فطرت بن چکی ہے۔
عام افراد کی طرح‘ پولیس اہلکاروں کے کمزوروں پر ظلم و زیادتی کی وڈیوز بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ یہ کچھ روز پہلے ہی کی بات ہے جب ڈسکہ میں چند پولیس اہلکار خواتین کو اُٹھا اُٹھا کر پولیس وین میں پٹختے دکھائی دیے تھے۔ جب یہ افراد لوگوں پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اِن میں ہلاکو خان کی روح حلول کر چکی ہے۔ پھر جب اِن کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو اِن کے چہرے بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ افسران کے سامنے یہ ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے تمام عمر انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ پولیس کے معاملے میں تو صورتِ حال اِس حوالے سے زیادہ سنگین ہو جاتی ہے کہ یہ عوام کے محافظ ہیں۔ جب یہ محافظ ہی عوام پر ظلم ڈھانے لگ جائیں تو پھر اور کون سا دروازہ کھٹکھٹایا جائے؟ افسوس کہ یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ بلاشبہ پولیس نے دہشت گردی اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے حوالے سے بہت سی قربانیاں دی ہیں لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنی قربانیوں کے بعد بھی عوام میں پولیس کا تاثر بہتر ہونے میں کیوں نہیں آ رہا۔ لاکھ دعوے کیے جاتے رہیں‘ میری دانست میں منفی تاثر تب ہی بہتر ہو گا جب عام آدمی اِنہیں حقیقت میں اپنا محافظ سمجھنے لگے گا۔ شہروں میں تو شاید پولیس اہلکاروں کو کسی کارروائی کا خوف ہو‘ دیہات اور دور دراز علاقوں میں یہ اپنے اپنے علاقے کے بادشادہ ہوتے ہیں۔ وہاں اِنہیں رتی برابر خوف بھی نہیں ہوتا کیونکہ ظلم کی داستانیں وہیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ موجودہ دورِ حکومت میں پولیس کے خلاف شکایات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ جواب طلبی کا ڈھیلا ڈھالا نظام مزید کمزور ہوگیا ہے۔ ہاں کبھی شکنجے میں آ جائیں تو اعلیٰ افسران اور شکایت کنندہ کے سامنے ایسے گڑگڑاتے ہیں کہ وہ انہیں معاف کر دیتے ہیں اور یوں معاملہ ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔
کمزور پر ہاتھ اُٹھانے اور طاقتور کے سامنے جھک جانے والی سوچ ہمارے معاشرے میں پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ جو جتنا طاقتور ہے‘ اُس کا ظلم اُتنا ہی زیادہ ہے‘ الا ماشاء اللہ! جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے‘ سبھی اُس سے ڈرتے ہیں لیکن جب ڈنڈے والے کو کوئی اور ڈنڈا دکھانے والا مل جائے تو پھر اُس کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔ بھیڑ چال کے شکار معاشروں میں یہ صورتِ حال کسی اچنبھے کا باعث نہیں۔ جہاں طاقت کی زبان سمجھی جاتی ہو، وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ عام شہریوں کے ہاتھ میں کچھ اور نہیں ہوتا تو وہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرکے اپنی ''طاقت‘‘ کا اظہار کر لیتے ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے سے کبھی تشدد کی وڈیوز وائرل ہو جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آخر ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں۔ جب معاشروں میں طاقتوروں کے سامنے جھکنے اور کمزورں پر ظلم کرنے کی روش عام ہو جائے تو بربادیوں کی داستانیں رقم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ صورتحال میں بہتری کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے؛ قانون کی حکمرانی۔ مگر یہ ہمارے ہاں دیوانے کا خواب بن کر رہ چکی ہے... لیکن خواب دیکھتے رہیں تو کبھی نہ کبھی تعبیر مل ہی جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں