"FBC" (space) message & send to 7575

یہ صرف ایک قتل نہیں!

کون ہے جو کسی بے گناہ کی جان جانے پر خوشی محسوس کرتا ہوگا‘ شاید وہ جو جان لیتا ہے۔ یقینا ایسی ہی کوئی خوشی حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد کی نو رمقدم کو بھی اُس کی زندگی سے محروم کردیا گیا۔ 20جولائی کواسلام آبا د کے ایف سیون فور میں واقع ایک بڑے گھر میں قتل کی یہ ہولناک واردات ہوئی۔ قتل کی اِس واردات کو انجام دینے کے الزام میں ایک امیر کبیر گھرانے کا نوجوان ظاہر جعفر تادم تحریر پولیس کی حراست میں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملزم کے والدین اور چند ملازمین بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ حسبِ روایت وہ سلسلہ بھی جاری ہے جس کے تحت اپنے تعلقات اور پیسے کو استعمال کرکے خود کو بے گناہ ثابت کرنے یا پھر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوشش اُس وقت بھی ہوئی جب ابھی ملزم کے والدین کو حراست میں بھی نہیں لیا گیا تھا۔ قتل کے بعد پولیس کو جب اِس بات کا یقین ہوگیا کہ ملزم ظاہر ہی اِس کا ذمہ دار ہے تبھی اُس کو حراست میں لیا گیا۔ اُسی روز کراچی سے اسلام آباد پہنچنے والے اِس نوجوان کے والدین نے مبینہ طور پر پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کافی کوشش کی کہ اُن کے بیٹے کو ناحق گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے نہ صرف یہ دباؤ برداشت کیا بلکہ جب یہ معلوم ہوا کہ اگر نوجوان کے والدین معاملے کو سنجیدگی سے لیتے تو نورمقدم کی جان بچ سکتی تھی‘ تو تمام تر دباؤ کے باوجود ملزم کے والدین کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ دونوں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے کافی ہاتھ پاؤں مارے لیکن بے سود! وکیلوں کی تمام کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ یہ یقینا کوئی معمولی اقدام نہیں کیونکہ گرفتار ہونے والے افراد اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوملازمین کو بھی حراست میں لیا گیا کیونکہ یہ سب کچھ اُن کی آنکھوں کے سامنے ہوا لیکن اُنہوں نے نور کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ دونوں ملازمین کم از کم تین گھنٹے تک سارا معاملہ دیکھتے رہے لیکن اُنہوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ ملک کے ایک سابق سفارت کار کی بیٹی کے قتل کا مختصر سا احوال ہے۔ واقعہ تو جو بھی پیش آیا‘اب یہ دیکھنا اہم ہے کہ اِس معاملے میں قصور وار کو سزا مل سکے گی یا نہیں!
ایسی سوچ ذہن میں آنی تو نہیں چاہیے لیکن ماضی کے تجربات کے باعث اذہان میں شکوک و شبہات اُبھرنے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں کہ جب قصور وار دولت مند ہوں اور وسیع تعلقات بھی رکھتے ہوں تو ایسی سوچیں کچھ زیادہ گہری ہوجاتی ہیں کہ ذمہ داران کو سزا ملے گی یا نہیں؟ قاتل کیفرکردار تک پہنچے گا نہیں ؟ ہر معاملے کی طرح اِس واردات کے حوالے سے اُمید تو بہرحال رکھی ہی جاسکتی ہے کہ مجرم کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ پولیس رپورٹ کے مطابق خاتون کو قتل کرنے سے پہلے اُسے تین گھنٹوںتک شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اُس کے جسم پر چاقو کے متعدد وار کیے گئے جن کی تصدیق پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوچکی ہے۔ اِسی دوران نور نے اپنی جان بچانے کے لیے کوٹھی کی پہلی منزل کی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگائی، کوٹھی کے دوملازمین نے اُسے نیچے گرتے ہوئے اور پھر ملزم ظاہر کو اُسے بالوں سے پکڑ کر دوبارہ اندر لے جاتے ہوئے دیکھا۔ جب تشدد سے اس کا جی بھر گیا تو لڑکی کو گولی مارنے کے بعد اُس کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔
اس سارے معاملے کا جو افسوسناک معاشرتی پہلو سامنے آیا ہے وہ یہ کہ پولیس تحقیقات بتاتی ہیں کہ ملازمین نے پولیس کو اطلاع تک دینے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ جب مقتولہ نے کوٹھی کی پہلی منزل سے نیچے چھلانگ لگائی تو ایک ہمسایے نے بھی یہ منظر دیکھا لیکن اُس نے بھی معاملے میں دخل دینے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اگر کسی اور نے یہ سب کچھ دیکھا تو وہ بھی چپ سادھے رہا۔ البتہ اِس دوران کوٹھی کے ملازمین ظاہر کے والدین کو فون پر تمام معاملے کی اطلاعات پہنچاتے رہے لیکن وہ اِسے بہت سرسری انداز میں لیتے رہے۔یہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہ اُن کا بیٹا ایک مظلوم خاتون پر کیا ستم ڈھا رہا ہے‘ وہ خاموش رہے۔ اگر اُن کی طرف سے پولیس کو اطلاع دی جاتی تو شاید نور کی زندگی بچ سکتی تھی۔ بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ جب ظاہر کے والدین کراچی سے اسلام آباد پہنچے تو وہ گناہگار کو سزا دلوانے کے بجائے مبینہ طور پر وہ پولیس پر دباؤ ڈال کر اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ واقعہ محض قتل کی ایک واردات نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ مبینہ قاتل اور مقتولہ کے مابین دوستی کا رشتہ استوار تھا‘ جس سے دونوں کے والدین آگاہ تھے، دونوں اکٹھے رہتے اور ساتھ گھومتے پھرتے بھی تھے۔ دونوں کے والدین کے نزدیک‘ اُن کے بچے بالغ تھے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ دونوں کے مابین کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوا جس کا نتیجہ اتنے ہولناک انداز میں سامنے آیا ۔قاتل اپنے وسیع تعلقات اور دولت کے نشے میںاپنی دوست کو اتنے بہیمانہ انداز میں موت کے گھاٹ اُتارتا ہے کہ اِس واردت کے بعد موقع پر پہنچنے والے تمام افراد یہ منظر دیکھ سکتے میں آگئے۔ اب کیس کو دبانے اور سزا سے بچنے بچانے کے وہی روایتی ہتھکنڈے شروع ہوچکے ہیں جو ہمیشہ سے امیر کبیر افراد کا خاصا رہے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کہ اِن ہتھکنڈوں کے نتیجے میں اکثر وبیشتر معاملہ صلح صفائی پر ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے بے شمار کیسز میں سے کراچی کے بیس سالہ شاہ زیب کے قتل کا کیس کسے یاد نہیں ہوگا۔ اُسے صرف اِس پاداش میں قتل کردیا گیا تھا کہ اُس نے بعض نوجوانوں کو اپنی بہن سے چھیڑخانی سے روکا تھا۔ اِس نوجوان کو قتل کرنے والے دورانِ سماعت جب بھی عدالت میں پیش ہوئے تو ہمیشہ وکٹری کا نشان بنایا کرتے تھے اور بالآخر وکٹری اُنہیں کی ہوئی۔
اِسی برس فروری میں اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر چار نوجوان ایک بڑی گاڑی کے نیچے کچلے گئے تھے۔ ایک خاتون سیاستدان کے شوہر اور بیٹے کی گاڑی نے ٹریفک سگنل توڑا اور چار نوجوانوں کو زندگی سے محروم کردیا۔ ہل جل تو تب بھی بہت ہوئی اور سنتے تھے کہ حکومت نے اِسے ٹیسٹ کیس بنا لیا ہے لیکن یہ ٹیسٹ کیس بھی بالآخر ڈرا ہوگیا۔ اسلام آباد ہی کی سڑکوں پر اسامہ ستی نامی ایک نوجوان کو پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کرکے موت کے گھات اُتار دیا تھا۔ تحقیقات میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ اسامہ کا چند روز پہلے پولیس اہلکاروں سے جھگڑا ہوا تھا اور پولیس نے محض ذاتی پرخاش کی بنیاد پر درجنوں گولیاں اس کے سینے میں پیوست کر دیں۔ اس کیس میں بھی کسی اہلکارکو اپنے کیے کی کوئی سزا نہیں مل سکی۔ سانحہ ساہیوال کیس بھی بہت ہائی لائٹ ہوا تھا جب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ایک ہنستے بستے خاندان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اِسے بھی ٹیسٹ کیس بننا تھا لیکن... اب جو اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے تو حکومت کی طرف سے اِسے بھی ٹیسٹ کیس قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کرے کہ ذمہ داروں کو سزا مل جائے لیکن اِس واقعہ نے ہمارے ہاں فروغ پاتے جن رویوں کو اُجاگر کیا ہے، وہ بہت خوفناک مستقبل کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ قتل کی یہ واردات بتا رہی ہے کہ ہم کیا سے کیا ہو چکے ہیں۔ متعدد افراد کا چپ چاپ ایک قتل ہوتے ہوئے دیکھتے رہنا‘ دولت کے نشے میں چور نوجوان کا محض اپنی تسکین کے لیے تین گھنٹوں تک مقتولہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنانا اور پھر اُسے بہیمانہ طریقے سے قتل کردینا۔ امیر کبیر والدین کا اپنے بچے کی کرتوتوں پر پردہ ڈالنا اور پھر اس کی گرفتاری کے بعد ناجائز طور پر پولیس پر دباؤ ڈالنا۔ یہ سب کچھ اِس طرف اشارہ کررہا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے خول میں بند ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنی اناکی تسکین کے لیے جیتے جاتے انسان کو پرزہ پرزہ کرسکتے ہیں۔ ہم دولت کے بل پر کچھ بھی کرگزرنے کی سوچ کے حامل بن چکے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں یہ راسخ ہوچکا ہے کہ اگر ہمارے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں اور ہم دولت مند ہیں تو پھر کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں