"FBC" (space) message & send to 7575

صحت کی یکساں سہولتیں!

ملک کے مایہ ناز فن کار عمر شریف اِن دنوں شدید علیل ہیں۔ پوری قوم دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ اپنی علالت کے حوالے سے اُنہوں نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کا سہارا لے کر وزیراعظم سے اپنا علاج کرانے کی اپیل کی۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے بروقت اقدامات کیے اور ممکن ہے کہ اِن سطور کی اشاعت تک اُنہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک روانہ کیا جاچکا ہو۔ ہماری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوکر وطن لوٹیں۔ اِس تمام صورت حال کے حوالے سے ذہن میں ایک خیال سا اُبھرا ہے۔ یہ بات قدرے عجیب محسوس ہوتی ہے کہ کئی کھلاڑی، فنکار، اداکار اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور افراد‘تمام عمر بہت اچھا کماتے ہیں، لیکن جب علاج وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر اِس کے لیے حکومت سے اپیلیں کی جاتی ہیں۔ اگر استطاعت نہ ہوتو تب تو کسی حد تک بات سمجھ آتی ہے مگر عمر شریف کا شمار تو ہمارے ملک کے مہنگے ترین فن کاروں میں ہوتا تھا۔ اُن کا رہن سہن دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کافی آسودہ حال ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ہم اپنا علاج اپنے پلے سے کرا سکتے ہیں تو پھر حکومت سے اپیلیں کیوں کی جاتی ہیں؟ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کافی عرصہ پہلے ہمارے ملک کی ایک مایہ ناز فنکارہ کافی عرصے تک حکومت سے پلاٹ کا مطالبہ کرتی رہیں۔ اُن کا موقف تھا کہ اُنہوں نے تمام عمر فن کی خدمت کی ہے لہٰذا اِس اعتراف میں حکومت اُنہیں پلاٹ سے نوازے۔ اپنے وقت کی مشہور ترین ہیروئن کی طرف سے یہ مطالبہ ایک آدھ نہیں‘ درجنوں مرتبہ سامنے آیا تھا۔ اُنہی دنوں ایک تقریب میں اُن سے ملاقات ہوئی تو موقع دیکھ کر ہم نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ میڈیم! آپ تو خود اتنی امیر کبیر ہیں‘ پھر حکومت سے پلاٹ کا مطالبہ کیوں کررہی ہیں؟ اُن کا جواب تھا کہ میں نے تمام عمر فن اور ملک کی خدمت کی ہے لہٰذا میری خدمات کے اعتراف میں مجھے پلاٹ ملنا چاہیے۔ ایک دوسری ملاقات میں ہم نے ان پوچھا کہ فن کی خدمت تو یقینا آپ کرتی رہی ہیں لیکن ملک کی آپ نے کون سی خدمت کی ہے؟یوں بھی اگر آپ نے فن کی خدمت کی ہے تو اِس کے عوض اچھا خاصامعاوضہ بھی وصول کیا ہے، اس سوال پر انہوں نے نہایت برا سا منہ بنایا اور دوبارہ ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
ہمارے ملک کے ایک امیر کبیر کھلاڑی کی اہلیہ بیمار ہوئیں تو اُن کی طرف سے بھی یہی مطالبہ سامنے آیا کہ اُن کی اہلیہ کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے۔ بوجوہ وہ اِس کوشش میں کامیاب تو نہ ہوسکے لیکن تادیر اِس بات کا گلہ کرتے رہے۔ اُن کی طرف سے اکثر قرار دیا جاتا تھا کہ اُنہوں نے طویل عرصے تک کھیل اور ملک کی خدمت کی ہے لیکن حکومت نے اُن کی اہلیہ کا علاج سرکاری اخراجات پر کرانے سے انکار کردیا۔ بعد میں لاہور میں کچھ مواقع پر ان سے ٹاکرا بھی ہوا لیکن یہ پوچھنے کاوقت نہیں مل سکا کہ بھائی جان! آپ کے پاس اتنی دولت ہے کہ شاید آپ کو خود بھی معلوم نہیں ہوگا لیکن پھر بھی اہلیہ کا علاج سرکاری خرچ پر کرانے کا مطالبہ کیوں؟ کاش میں اُن سے پوچھ سکتاکہ اگر آپ جیسے ''رہتے سہتے‘‘ کو بھی یہ سہولت ملنی چاہیے تو پھر دوسرے بیمار پاکستانیوں کا کیا قصور ہے کہ جو سرکاری ہسپتالوں میں بھی اپنا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ کیا دوسرے افراد کو بھی یہ سہولت حاصل ہے کہ بیماری کی صورت میں اُنہیں بیرونِ ملک علاج کے لیے بھیجا جائے؟ یہاں پر یہ واضح رہے کہ ہم غریب کھلاڑیوں‘ فنکاروں اور دوسرے نامور افراد کی بات نہیں کرتے لیکن جو دولت مند اور اچھے خاصے ہیں، کیا اُنہیں زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے علاج معالجے کے لیے حکومت کی طرف دیکھیں؟ وہ بھی اِس صورت میں کہ جب وہ خود اپنا علاج کرانے کی سکت رکھتے ہوں؟ سچی بات ہے کہ یہ اُن غریب ہم وطنوں کا حق ہے جو بیمار ہوتے ہیں تو اُنہیں مفت میں سر درد کی گولی تک میسر نہیں ہوتی۔ اُن کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں جو چھوٹی موٹی سہولتیں دستیاب تھیں‘ وہ بھی ان سے چھین لی گئی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی فیس میں دو سو فیصد تک اضافہ کیا جاچکا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں یہ عالم ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ میں غریب ہوں اور پلے سے علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتا‘ اُسے اپنے غریب ہونے کا حلف نامہ جمع کرانا ہوتا ہے۔ ذرا ہسپتالوں میں جا کرتو دیکھیں کہ وہاں پڑے بے بس مریضوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہورہا ہے۔
جنہیں سب سے پہلے مفت علاج کی سہولت ملنی چاہیے، وہ تو قطاروں میں لگے اپنے غریب ہونے کا حلف نامہ جمع کرا رہے ہیں‘ اس کے بعد بھی کچھ ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی کسی حد تک اشک شوئی ہوپاتی ہے ورنہ تو ان افراد کے نصیب میں دھکے ہی رہ جاتے ہیں۔ ذرا صاحبانِ اختیار و اقتدار کے طرزِ عمل کی بابت بھی ایک واقعہ سن لیجئے۔ اِس واقعے کی راوی لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کی ایک لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ کہتی ہیں: ایک روز ایک رکن اسمبلی کی والدہ کو ہسپتال لایا گیا، مجھے اُن خاتون کا چیک اَپ کرنے کے لیے بھیجا گیا، معلوم ہوا کہ اُن کا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہے، میں نے مریضہ کو بلڈ پریشر کی ایک گولی دینے کا کہا۔ جب آدھ گھنٹے بعد دوبارہ اُنہیں دیکھنے گئی تو ان کا بلڈ پریشر ویسے کا ویسا تھا۔ استفسار پر بتایا گیا کہ خاتون کو جو گولی لکھ کر دی گئی تھی، وہ ہسپتال کے سٹور میں دستیاب نہیں ہے اور مریض کے ساتھ آئے صاحب کا اصرار ہے کہ یہ ہسپتال کی ذمہ داری ہے اوروہ کہیں سے بھی گولی کا انتظام کر کے دے۔ بقول ڈاکٹر صاحبہ‘ تقریباً پینتیس منٹ بعد گولی کا انتظام ہوا‘ تب کہیں جا کر مریضہ کو وہ گولی کھلائی گئی۔ اس سوچ کا اور اس طرزِ فکر کا اندازہ کیجئے جو ہمیں پلے سے ایک گولی تک خریدنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ عجیب نظام ہے کہ جو غریب ہیں‘ وہ علاج کے لیے ترستے رہتے ہیں، دوسری طرف افسر شاہی، سیاستدان،اعلیٰ عہدیداران، امیر کبیر فنکار اور کھلاڑی سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک علاج کی سہولت حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ کیسا چلن ہے کہ عام مریض تو سرکاری ہسپتال میں سر درد اور بخار کی معمولی گولی کے لیے بھی ترستا رہے اور جو لوگ اپنے علاج کے اخراجات خود اُٹھانے کی سکت رکھتے ہیں‘ وہ سرکاری خرچ پر علاج کی سہولت سے مستفید ہوتے رہیں۔
سوشل میڈیا پر ہرروز کتنے ہی افراد اپنے یا اپنے کسی بچے کے علاج کے لیے اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں، اِن میں سے کتنوں کی اپیلوں پر حکومت دستِ تعاون بڑھاتی ہے؟اِنہی دنوں پیپلزپارٹی کی ایک نہایت فعال اور متحرک خاتون رہنما بھی سوشل میڈیا پر اپنے بیٹے کے علاج کی اپیلیں کررہی ہیں۔ سامنے آنے والی اپیل کے مطابق‘ کینسر میں مبتلا اُن کے بیٹے کا علاج ایک ہسپتال میں چل رہا تھا لیکن پیسے ختم ہونے کے بعد ہسپتال کی انتظامیہ نے بچے کا مزید علاج کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اُن کی طرف سے حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ خدارا! اُن کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ ایسے اور کتنے ہی افراد ہیں جو علاج کی سکت نہیں رکھتے اور حکومت سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں‘ کچھ کیسز میں حکومت آگے بڑھ کر علاج کرا دیتی ہے مگر یہ تناسب اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ رہنے والے تو سب اِسی ملک کے ہیں تو پھر یہ امتیازی سلوک کیوں؟حکومتی خرچ پر علاج ضرور کرائیں مگر کم از کم یہی پیمانہ بنا لیا جائے جسے یہ سہولت فراہم کی جارہی ہے‘ کیا وہ اِس پوزیشن میں نہیں کہ اپنا بوجھ خود برداشت کرسکے؟ اگر اُسے اللہ تعالیٰ نے نواز رکھا ہے تو پھر اُسے اپنے اخراجات خود ہی اُٹھانا چاہئیں۔ رہی بات ملک کی خدمت کی تو کیا اِس ملک میں رہنے والے دوسرے افراد ملک کی خدمت نہیں کر رہے؟ ہر کوئی اپنے اپنے تئیں اس ملک کی خدمت میں مگن ہے، تو پھر ضرورت پڑنے پر اُنہیں ایسی سہولتیں کیوں فراہم نہیں کی جاتیں؟یہاں آپ یہ بھی دیکھ لیجئے کہ ملک کی خدمت کرکے بے تحاشا دولت کمانے والے دور دور تک رفاہی کاموں میں نظر نہیں آتے ۔ پیٹ اگر ضرورت سے زیادہ بھرا ہو تو تب بھی کچھ کھانے کو مل جائے تو ہم اُسے پیٹ میں انڈیلنے سے گریز نہیں کرتے۔ ضرورت نہیں‘ زیادہ سے زیادہ کی طلب اور ہوس نے ہمیں اس مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے کہ ہم وہ کام‘ جو خود کر سکتے ہیں‘ اس کیلئے بھی حکومت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں