"FBC" (space) message & send to 7575

نسل کُشی کے آخری دو مرحلے

17 سے 20 دسمبر تک بھارت کے مقدس سمجھنے جانے والے شہر ''ہری دوار‘‘ میں ہندوؤں کا جو مذہبی اجتماع ہوا تھا‘اِس حوالے سے ایک مفصل کالم تو شائع ہوچکا ہے؛ تاہم اِس اجتماع کے اثرات مسلسل گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ مختصر تفصیل یہ ہے کہ ہندوؤں کے اِس ''دھرم سنسد ‘‘میں ہندو رہنما برملا اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہندوؤں کو بھارت کے 20لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنا ہوگا۔ انتہائی متنازع ہندو انتہا پسند رہنما نرسنگھا نند، کالی چرن اور ہندو دھرم قبول کرنے والے وسیم رضوی عرف جتیندر تیاگی ہندوئوں کو اُکساتے ہیں کہ اُنہیں مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے بہترین ہتھیار خریدنے چاہئیں۔قصہ مختصر یہ کہ اِس اجتماع میں انتہائی اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔کالی چرن تو اپنے خطاب میں بھارت کے ''باپو‘‘ قرار دئیے جانے والے گاندھی جی کے بارے میں بھی انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتا ہے۔ اِس سب کے باوجود حیرت انگیز طور پر حکومتی سطح پر اِن انتہا پسندوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے احتراز برتا جاتا ہے۔ جب اس اجتماع میں کی جانے والی باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچنے لگیں اور بھارت بھر کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کی تو بھارت کے کچھ لبرل حلقوں کی آواز بھی مسلمانوں کی آواز میں شامل ہونا شروع ہوگئی۔صورتحال کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے بھارتی فوج کے پانچ سابق سربراہان سمیت سو سے زائد سرکردہ شخصیات بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو خط لکھتی ہیں جس میں واضح کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے قتلِ عام کی باتیں کرنا ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔خط لکھنے والی شخصیات نے قرار دیا کہ وہ ہندوئوں کے مذہبی اجتماع میں ظاہر کیے جانے والے عزائم اور اس زبان کے باعث سخت پریشان ہیں کہ یہ بھارتی قوم کے سماجی تانے بانے کو تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ بھارتی حکومت نے اہم شخصیات کے خط کو بھی کوئی اہمیت نہ دی۔
رفتہ رفتہ یہ بات بات پوری دنیا میں پھیل گئی‘ اِسی تناظر میں'' نسل کشی کے دس مراحل‘‘ کا نظریہ پیش کرنے والے امریکی پروفیسر گریگوری سٹینٹن کا ایک آنکھیں کھول دینے والا بیان سامنے آتا ہے۔ امریکی تنظیم ''جسٹس فار آل‘‘ کے پلیٹ فارم سے اپنے ایک خطاب میں پروفیسر گریگوری نے قرار دیا کہ بھار ت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ آٹھویں مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ گویا اب ان کی عملی نسل کشی میں ایک آدھ قدم اور اُٹھانے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔اُن کی طرف سے بجا طور پر قرار دیا گیا کہ نریندرمودی ایسا ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ گریگوری نے اپنے خطاب میں کافی تفصیل کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کو درپیش خطرات پر روشنی ڈالی۔جب اِس طرح کی آوازیں کچھ دیگر ممالک کی طرف سے بھی بلند ہوئیں تب بھارتی حکومت کو مجبوراً انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
اس اجتماع کے انعقاد کے لگ بھگ ایک ماہ بعد بھارتی حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔نرسنگھا نند‘ کالی چرن اور وسیم رضوی (جتیندر تیاگی) کو اب گرفتار کر لیا گیا ہے؛ تاہم اِن گرفتاریوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل دو وڈیوز کا احوال بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ایک وڈیو میں نرسنگھا نند نامی انتہاپسند یہ کہتاسنائی دیتا ہے کہ حکومت اور پولیس اُس کی جیب میں ہیں۔ اُس کی باتیں واضح کرتی ہیں کہ اُسے اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔اپنی باتوں میں وہ تامل ناڈو کے اعلیٰ پولیس افسران کو مخنث قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ پولیس اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اِس وڈیو کے کچھ ہی روز بعد ایک دوسری وڈیومنظرِ عام پر آتی ہے جس میں پولیس کالی چرن‘ وسیم رضوی اور نرسنگھا نند کو گرفتار کرتی نظرآتی ہے۔ اِس ویڈیو میں نرسنگھا نند پریشان اور گرفتاری سے بچنے کے لیے منتیں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب سر سے ہاتھ اُٹھ چکا ہو اور اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا ہو تو ہواؤں کا رخ بھی تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔
یہ ہے ایک اجتماع کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز کی داستان جس نے بزعم خویش دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بھارتی حکومت کی اشیرباد سے ہو رہا ہے۔ 2022ء سب سے بڑی بھارتی ریاست اُترپردیش میں انتخابات کا سال ہے۔ شنید ہے کہ یہ سب کچھ ہندو اکثریت کے ووٹرز کو راغب کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ انتہا پسندی کا گھوڑا بے لگام ہو جائے تو پھر اِسے قابو میں لانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی اکثر بیان کی جاتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود بھی مسلمانوں کے خلاف ایسی باتوں پر خوش ہوتے ہیں اور یہ اُنہی کی اشیرباد کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ اِس حوالے سے حالات اِس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ خود بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار سامنے آ چکا ہے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے واضح طور پر کہا کہ گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اب کے ہری دوار میں ہونے والے دھرم سنسد کے خلاف بھی بھارتی سپریم کورٹ ایک درخواست پر سماعت کر رہی ہے۔ گویا بھارت میں انتہا پسندی کے بھڑکائے گئے الاؤ کی تپش ہر سطح پر محسوس کی جا رہی ہے۔ بھارت کے سیکولر حلقے بخوبی سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارت کی بے شمار شخصیات واضح کر چکی ہیں کہ اگر حالات میں بہتری کی ابھی سے کوششیں نہ کی گئیں تو بہت کچھ برباد ہوکر رہ جائے گا۔ اِس سوچ کے پنپنے کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نہ صرف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تشدد کی وڈیوز کو پورے اعتماد کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اَپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ یہ رجحان اِس امر کا عکاس دکھائی دیتا ہے کہ تشدد کرنے والوں کو قانون اور سزا کا کوئی خوف نہیں رہا۔
یہ ہیں وہ حالات جو اِن دنوں بھارت کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ اِس پر نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ باہر سے بھی دردِ دل رکھنے والوں کی آوازیں بلند ہورہی ہیں مگر افسوس کہ اِن میں وہ آوازیں شامل نہیں جنہیں سب سے بلند ہونا چاہیے تھا۔ جن کا ایک بیان بھارتی مسلمانوں کے لیے حالات میں بہتری پیدا کرسکتا ہے‘ وہ سب مکمل طور پر خاموش ہیں۔ اِس وقت مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب یاد آ رہے ہیں۔ اُنہوں نے غالباً 1990میں اپنے ایک خطاب کے دوران اِس بات کی نشاندہی کردی تھی کہ اب مسلمانوں کا بطور امت کردار ختم ہوچکا ہے۔ آج ہم اِس صورت حال کا عملی مشاہدہ کررہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے تو بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ بوجوہ اِس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا‘ اگر وہ خلیجی ممالک‘ جہاں بھارتی باشندے کثیر تعدا دمیں بسلسلۂ روزگار مقیم ہیں‘ ایک مرتبہ یہ واضح کر دیں کہ بھارتی حکومت انتہا پسندوں کو لگا م ڈالے ورنہ بھارتی باشندوں کو ڈیپورٹ کردیا جائے گا تو کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی کہ بھارتی حکومت فی الفور حرکت میں نہ آئے اور حالات میں بہتری نہ محسوس ہو۔ کچھ عرصہ پہلے متحدہ عرب امارات کی ایک شہزادی ہند القاسمی نے بھارتی حکومت اور میڈیا کے خوب لتے لیے تھے‘ اِس ایک بیان پر بھارتی حکومت دفاعی پوزیشن میں آگئی تھی۔ اب اگر حکومتوں کی سطح پر یہ معاملہ اُٹھا یا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکومت کی کیا حالت ہوگی۔ افسوس کہ ایسی کوئی اُمید بر نہیں آرہی۔ اُس طرف سے بھارتی مسلمانوں کے حق میں ایک بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ اگر ہم خود کو انفرادی طور پر ظلم کا راستہ روکنے سے قاصر پاتے ہیں تو او آئی سی کا اجلاس توبلایا ہی جا سکتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ بلند آواز سے بھارتی حکومت کو متنبہ کردیا گیا تو حالات یقینا بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے لیکن ہم تو شاید نسل کشی کے آخری مراحل کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں