"FBC" (space) message & send to 7575

احتساب کا اونٹ

وزیراعظم کے سابقِ مشیر احتساب اور سربراہ ایسَٹ (اثاثہ جات) ریکوری یونٹ شہزاد اکبر کو اپنا عہدہ چھوڑے ہوئے اب کچھ وقت گزر چکا ہے؛ تاہم اُن کے جانے کے بعد اُٹھنے والے بہت سے سوالات ہنوز جواب طلب ہیں‘ سب سے اہم یہ کہ آخر اُن کی کارکردگی سے حاصل حصول کیا ہوا؟ اب تو وہ شاید ایک مرتبہ پھر ملک سے باہر چلے جائیں گے جیسے پرویز مشرف کا دور ختم ہونے کے بعد انہوں نے پاکستان کو الوداع کہہ دیا تھا۔ اور جیسے روایت رہی ہے ‘ اُن کے جانے کے بعد جو کچھ بھی اُنہوں نے کیا‘ وہ سب قصہ پارینہ بن جائے گا۔ کوئی بھی اُن سے نہ پوچھ پائے گا کہ آپ کے اتنے بڑے بڑے دعووں کا کیا بنا؟صبح شام پریس کانفرنسز، ہاتھوں میں کاغذات کے لہراتے ہوئے پلندے، جانے والوں کی کرپشن کی کہانیاں اور کروڑوں کے اخراجات۔ اب محترم شہزاد اکبر تو جاچکے لیکن بہت سے سوالات اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ بظاہر تو اُن کے دعووں کی حقیقت ثابت نہ ہونا اور بالآخر اپنا عہدہ چھوڑ دینا یہی ثابت کررہا ہے کہ یا تو وہ غلط بیانی سے کام لے رہے تھے یا پھر کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اُن کے اِس طرز عمل کا سب سے منفی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ احتساب کے نعرے کو ایک مرتبہ پھر بری طرح دھچکا لگا۔ احتساب کے اُس نعرے پر‘ جسے موجودہ حکومت کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے‘ کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے اپوزیشن کا کوئی قابلِ ذکر رہنما نہیں‘ جسے جیل میں نہ ڈالا گیا ہو۔ نواز شریف کے خلاف تین ریفرنسز بنائے گئے جن پر احتساب عدالت میں طویل سماعتیں ہوئیں۔ العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں قید کے دوران ہی اُنہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوایا گیا جہاں سے وہ ابھی تک واپس نہیں آئے۔ آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس میں پابندِ سلاسل رہے۔ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار ہوئیں۔ حمزہ شہباز غیرقانونی ٹرانزیکشنز اور دیگر الزامات کے تحت نیب کی حراست میں رہے۔ شاہد خاقان عباسی اور خواجہ برادران بھی جیل یاترا کرآئے۔ مریم نواز اور پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ سمیت اپوزیشن کے تقریباً سبھی نمایاں رہنمائوں کو جیل میں ڈال گیا لیکن سب لاحاصل رہا۔
اب نواز شریف ملک سے باہر ہیں اور دیگر تمام ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں۔ اِس دوران شاید ہی کوئی دن ایسا ہو گا ‘جب اپوزیشن رہنماؤں کی کرپشن کی کہانیاں بیان نہ کی گئی ہوں۔ ہاتھوں میں کاغذات کے پلندے لہرا کر یہ دعوے کیے جاتے رہے کہ کرپشن کرنے والوں کو سزائیں اب چند دنوں کی بات ہے۔ اِسی اثنا مشیرِ احتساب سرکاری مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ اِسی طرح کا طرزِ عمل اختیار کرکے وہ پرویز مشرف کے دور میں بھی احتساب کے معاملات میں کافی 'اِن‘ رہے تھے۔ اِس دوران اُنہوں نے جتنے بھی بیرونی دورے کیے، سب کے اخراجات سرکار ہی نے برداشت کیے تھے۔ جب مشرف حکومت ختم ہوئی تو شہزاد اکبر بھی بیرونِ ملک چلے گئے۔ عمران خان کا دورِ حکومت آیا تو شہزاد اکبر صاحب نے حالات کو موافق سمجھتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کا رخ کرلیا۔ اُنہیں دوبارہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور بدعنوان عناصر کو قرار واقعی سزائیں دلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کئی سالوں تک وہ کم از کم پریس کانفرنسز اور بیانات کی حد تک تو اپنی ذمہ داری 'شاندار‘ طریقے سے نبھاتے رہے۔ باتوں اور دعووں کے اِس کھیل میں اُنہیں حکومت کی بھرپور اشیر باد حاصل رہی۔ گاہے گاہے کچھ دیگر حکومتی زعما بھی اُن کے ساتھ پریس کانفرنسز کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اِسی دوران بوجوہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیاتو ان کے حوالے سے عدالت میں بہت سے سوالات بھی اُٹھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ عدالت کو یہ بتایا جائے کہ شہزاد اکبر کی شہریت کیا ہے؟ جسٹس صاحب کی طرف سے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے گئے۔ یہ استفسار بھی کیا گیا کہ شہزاد اکبر نے اپنی اور اپنے بچوں کی بیرونِ ملک یا پاکستان میں موجود جائیدادوں کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس خارج کردیا تھا۔
یہ تمام ایکسر سائز ہوتی رہی لیکن حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ مبینہ طور پر وزیراعظم کی ناراضی کے بعد شہزاد اکبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہی بنی۔ اب جو وجوہات سامنے آرہی ہیں‘ اُن کے مطابق موصوف صرف بڑھکیں ہی مارتے رہے‘ حقیقت میں اُن کے پاس کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ وہ ''بدعنوانوں‘‘ کو سزا دلا سکتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے جیسے بدعنوانی کے الزامات میں جیلوں میں ڈالے گئے افراد کی ضمانتیں ہوتی گئیں‘ ویسے ویسے احتساب کے غبارے سے ہوابھی نکلتی رہی۔ بطورِ سربراہ ایسَٹ ریکوری یونٹ‘ وہ بیرونِ ممالک سے ایک پائی بھی واپس لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اُن کا دعویٰ تھاکہ بیرونی ممالک میں پاکستانیوں کے280 ارب ڈالر پڑے ہیں جو جلد وطن واپس لائے جائیں گے۔ قومی خزانہ لوٹنے والے ایک سو بڑے مگرمچھوں کی نشاندہی کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔ اتنے بڑے بڑے دعووں پر سادہ لوح عوام کا خوش ہونا تو بنتا تھا‘ حکومتی سطح کے ساتھ عوامی سطح پر بھی یہ اُمیدیں پیدا ہوچکی تھیں کہ بہت جلد بدعنوانی جڑ سے اُکھڑنے والی ہے لیکن عملاً کچھ بھی نہ ہو سکا۔ ظاہری بات ہے کہ جن کو سہانے خواب دکھائے گئے‘ اُن کی ناراضی تو بنتی تھی۔ پھر وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔ ایک طرف کسی کو سزا نہیں ہوپارہی تھی‘ دوسری طرف قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہورہے تھے‘ تیسری طرف عوام کا احتساب کے بیانیے سے اعتماد اُٹھتا جارہا تھا۔ اِس عرصے میں 19کروڑ پونڈ کی رقم کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جس میں ایک بڑے نام کا چرچا ہوا۔ شہزاد اکبر نے ایک سے زائد مواقع پر اِس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا۔ پھر یوں ہواکہ وقت کے ساتھ ساتھ سب کی اُمیدیں بھی دم توڑ گئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک فرد بڑے بڑے دعوے کر رہا تھا تو کیا یہ دعوے سننے والے اِس قدر ناسمجھ تھے کہ وہ اِن کی حقیقت نہ سمجھ سکے؟اُلٹا یہ بھی ہوتا رہا کہ مشیرِ احتساب کے دعووں کی بنیاد پر اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے ایسے ہی دعوے سامنے آتے رہے لیکن حاصل حصول کچھ نہ ہوسکا۔ اِس پر ناراضی یقینا جائز تھی جس کا کابینہ کے ایک اجلاس میں بھرپور اظہار سامنے آیا۔ شاید زیادہ غصہ اِس بات پر رہا تھا کہ آخر شہباز شریف کیوں قابو میں نہیں آ رہے۔ حکومت بخوبی جانتی ہے کہ نواز شریف کی نسبت شہباز شریف طاقتور حلقوں سے معاملات طے کرنے میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں‘ اِس لیے اُنہیں سزا ہونا بہت ضروری ہے۔ افسوس کہ یہ توقع اب تک پوری نہیں ہو سکی اور اس دوران احتساب کا نعرہ لگانے والے کو خود ہی رخصت ہونا پڑ گیا۔ اب یہ بات طے ہے کہ اُن سے یہ حساب کوئی نہیں لے گا کہ آپ جو کروڑوں روپے کے اخراجات کرتے رہے‘ وہ کس کھاتے میں ڈالیں؟حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ان کا وقت ضائع کیا گیا۔ اب حکمرانوں کی بابت کیا بات کی جائے جو بیرونِ ملک سے بلا کر زلفی بخاری کو سیاحت کا مشیر بنا دیتے ہیں۔ سیاحت کے مشیر سے جب یہ پوچھا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے کوئی ایک پوائنٹ بتا دیں تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ جب وزیراعظم صاحب سے پوچھا گیا کہ زلفی بخاری صاحب لندن میں کیا کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ مجھے کیا پتا‘میں اُس کا بزنس پارٹنر نہیں۔ فیصل واوڈا صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ جلد ہی دوسرے ممالک سے لوگ نوکری کے لیے پاکستان آیا کریں گے۔ امریکا پلٹ شہباز گل صاحب کی باتیں بھی دن رات کانوں میں' رس گھولتی‘ رہتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ معاون اور مشیر کے لیے کسی قابلیت یا ہنر کا ہونا ضروری نہیں‘ ضروری یہ ہے کہ مخالفین کے لتے لینے میں کس قدر مہارت ہے۔ موجودہ دورِ حکومت میں اسی پالیسی پر عمل ہوتا نظر آیا۔ شاید شہزاد اکبر نے بھی اِسی پالیسی پر عمل کیا اور اب اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ کرچلتے بنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں