"FBC" (space) message & send to 7575

مسکان خان کی آواز

مسکان خان کا بھائی یا اس کے والد اُس کے ساتھ ہوتے تو شاید اُسے راستہ بدل دینے کی تلقین کرتے ۔ اُسے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ جے شری رام کے نعرے لگانے والوں کے منہ لگنا ٹھیک نہیں‘ دیکھو! وہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں اور ہم صرف دو ہیں‘ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ کالج جانے کا ارادہ ترک کر دو‘ ہمیں اپنا راستہ بدل لینا چاہیے۔ وہ اسے بتاتے کہ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں تو سرکار خود ملوث ہے‘ہمیں مقابلہ کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرنی چاہیے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا! بلکہ صرف ایک مسکان خان کی للکار نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک کالج کی ایک اکیلی اور نہتی طالبہ نے ثابت کردکھایا کہ تاریخ کے دھاروں کو اُس جیسی ہمت رکھنے والے ہی بدلتے آئے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک کالج کی طالبہ مسکان خان اپنی ایک اسائنمنٹ جمع کرانے کے لیے اپنے کالج پہنچی۔ حجاب میں ملبوس یہ طالبہ ابھی اپنی سکوٹی کالج کی پارکنگ میں پارک کر ہی رہی تھی کہ ڈیڑھ سو کے قریب نوجوان جے شری رام کے نعرے لگاتے‘ زعفرانی رنگ کی شالیں اوڑھے ہوئے نمودار ہوئے۔ اِن نوجوانوں نے اکیلی طالبہ کے گرد گھیرا ڈال کر حجاب مخالف اور مذہبی نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔ یہ سب دیکھ کر اگر اکیلی طالبہ ڈر جاتی تو یہ کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہ ہوتی۔ ایسے وقت میں کہ جب بھارتی حکومت ہندوتوا کو سرکاری سطح پر بڑھاوا دے رہی ہے‘ ایسے وقت میں کہ جب کرناٹک میں بی جے پی کی ریاستی حکومت حجاب میں ملبوس مسلم طالبات کے سرکاری کالجوں میں داخلے پر پابندی لگا چکی ہے‘ ایسے وقت میں کہ جب کرناٹک کی ریاستی حکومت بھی ہندوانتہا پسندوں کی بھرپور پشت پناہی کررہی ہے‘ ایسے میں مسکان خان نے جس ہمت اور دلیری کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر پوری دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ اِس اکیلی طالبہ نے جے شری رام کے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کے نعرے لگا کر اپنی ہمت اور حوصلے کا ایسا ثبوت دیا کہ جس کی شاید ان نوجوانوں کو توقع بھی نہیں تھی۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے اِک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اُجالے اِک نہتی لڑکی سے
اِس تمام تناظر میں اَحسن بات یہ رہی کہ اِس واقعے کی مذہب سے بالاتر ہوکر بے شمار بھارتی شہریوں نے بھی کھل کر مذمت کی ہے۔ شاید انتہاپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والے ہندوئوں کی خاموش اکثریت بھی ایسے ہی کسی واقعے کے انتظار میں تھی۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ ایک بھارتی خاتون صحافی 'نویدیتا نرینجن کمار‘ کی ایک پوسٹ نظروں سے گزری ۔ اِس پوسٹ میں اُن کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ طلبہ میں زعفرانی رنگ کی شالیں ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے تقسیم کی گئی تھیں۔ اِس خاتون صحافی کی طرف سے ایسی ہی دیگر پوسٹیں بھی شیئر کی ہیں جن میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندو طلبہ کے ساتھ طالبات بھی زعفرانی شالیں اوڑھے نعرے لگا رہی ہیں۔ اِنہی پوسٹوں کے حوالے سے یہ خاتون صحافی استفسار کرتی ہے کہ آخر مودی حکومت ہمیں کس طرف لے جانا چاہتی ہے؟ وہ بھارت کے مستقبل میں زہر بھرتی چلی جا رہی ہے۔ دلت ہندوؤں کی طرف سے بھی مسکان کے حق میں بڑا مظاہرہ کیا گیا‘ اداکارہ راکھی ساونت سمیت کچھ دیگر شوبز شخصیات نے بھی واقعے پر ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔ اداکارہ پوجا بھٹ نے ٹویٹ کیا کہ ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو خوفزدہ کرنے کے لیے آدمیوں کے جتھے کی ضرورت پڑی ہے۔ بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ کا غصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید لکھتی ہیں کہ یہ لوگ انسانوں کے نام پر ایک دھبہ اور توہین ہیں‘ (بھارت کی) بھٹکی ہوئی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی بھینٹ چڑھ چکاہے۔ بھارت کے معروف ماہر طبیعیات ڈاکٹر این ایس استھانہ کہتے ہیں کہ اِس واقعے کی مذمت کے لیے اُن کے پاس الفاظ کی شدید کمی ہے، (اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو)حکومت اور کالج کے خلاف احتجاج کریں‘ ایک نہتی لڑکی کوکیوں ہراساں کر رہے ہیں؟ خالصہ ایڈ کے بانی رویندر سنگھ نے اِسے بھارت کا خوفناک چہرہ قرار دیا ہے۔ اس واقعے پر اتنے شدید رد عمل کے بعد کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسوا راج کی طرف سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیلیںبھی سامنے آئی ہیں۔
انتہاپسندی کی سرکاری سرپرستی کا جو نتیجہ نکلتا ہے‘ ہم بخوبی جانتے ہیں۔ جب بھی ایسی تنظیموں کی سرپرستی کی گئی تو یہاں بھی عوام کی بڑی تعداد کی طرف سے پذیرائی نہیں مل سکی۔ جب حکومتیں اپنے مخصوص مقاصد کے لیے خود ہی انتہا پسندی کی پشت پناہی شروع کر دیںتو بالآخر اِس کے انتہائی خوفناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہم اِس روش کا خمیازہ بڑی حد تک بھگت چکے ہیں اور اب بھی ہمارے امتحان ختم نہیں ہوئے۔ یہ حالات اپنی بدترین صورت میں اِن دنوں بھارت میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں کبھی گاؤ ماتا کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے تو کبھی مسلمانوں سے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ کبھی مسلمان دکانداروں اور ٹھیلے والوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں سامنے آتی ہیں تو کبھی ہری دوار کے اجتماع میں بھارت کے کم از کم بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کئی صورتوں میں اِس تمام صورت حال کو صرف انتخابی حربہ ہی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ بھارتی سیکولرازم‘ جو بھارت کے آئین کا حصہ ہے‘ کے مقابل 'رام راج‘ کی طرف پیشقدمی ہے۔ رام راج دراصل بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کی ایک یوٹوپیا طرز کی اصطلاح ہے جس کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ اِس تصور کے نام پر بھارتی نسل میں جو زہر بھرا جارہا ہے‘ اُس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ مسلمان اور دلتوں کی صدائے احتجاج بتدریج بلند ہوتی جا رہی ہے۔ دلتوں نے تو مسکان خان کے حق میں مظاہرہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ بھی اس نفرت سے متنفر اور اپنے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ مسکان خان نے مسلمانوں کو نیا حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ بھارت کی نچلی ذاتوں اور انتہاپسندی کو ناپسند کرنے والے بھارتی شہریوں کو بھی زبان دی ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ اِس واقعہ کے بعد ہندوؤں کی بڑی تعداد نے جس طرح مسکان خان کے حق میں آواز بلند کی‘ اس نے کسی حد تک بھارتی حکومت کو بھی پریشان کیا ہے۔ امرواقع یہ ہے کہ بھارت شروع سے سیکولر ملک چلا آرہا ہے۔ اگرچہ گاہے گاہے سیکولرازم کا چہرہ اقلیتوں کے لہو سے رنگین ہوتا رہا لیکن اِس کے باوجود سیکولرازم بھارتی عوام کے خون میں رچ بس چکا ہے اوریہی بھارت کے متنوع معاشرے کی بقا کا ضامن بھی ہے‘ بصورت دیگر وہی کچھ ہو گا جو اس وقت دیکھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت ملک اور معاشرے کی بقا کی خاطر سیکولرازم کو باقی رکھنا چاہتی ہے۔ حالیہ واقعے پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی صدائے احتجاج نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اکیلی مسکان کی آواز اب بے شمار بھارتیوں کی آواز بن گئی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب ظلم و جبر ناقابل برداشت ہوجائے تو پھر کوئی ایک ہی ایسی آواز ابھرتی ہے جو تاریخ کا دھارا تبدیل کر دیتی ہے۔ آغاز میں اُبھرنے والے نحیف سی آواز آگے چل ایسی توانا ہوجاتی ہے کہ ظلم و جبر کا نظام ملیا میٹ ہوکر رہ جاتا ہے۔ مسکان خان کی آواز بھی کچھ ایسا ہی رخ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے جس نے مسلمانوں کونیا حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی بڑی تعداد کو بھی آواز بلند کرنے کی ہمت دی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں