"FBC" (space) message & send to 7575

خراب موسم، اونٹ اور پہاڑ

اُس کا چہرہ جھلسا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اُس کے دوستوں نے جب استفسار کیا کہ وہ اِس حالت کو کیونکر پہنچا کہ ایک روز پہلے تک تو وہ بالکل ٹھیک تھا تو اس سوال پر اُس نے ایک سرد آہ بھری اور اپنی کہانی کچھ یوں سنائی: یارو! آپ جانتے ہوکہ گزشتہ روز بہت تیز بارش ہوئی‘ اور بار بار آسمان پر بجلی بھی چمک رہی تھی۔ مجھے ساتھ والے گاؤں میں جانا تھا اور وہاں تک جانے کے لیے ایک بلند پہاڑ عبور کرنا پڑتا ہے‘ موسم تو خراب تھا ہی لیکن جانا بھی بہت ضروری تھا‘ سو میں اونٹ پر بیٹھا اور سفر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ ایک طرف زوروں کی بارش برس رہی تھی اور دوسری جانب آسمانی بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ میں اونٹ پر بیٹھ کر بلند پہاڑ کو عبور کر رہا تھا کہ اچانک آسمانی بجلی گری اور میرا چہرہ جھلس گیا‘ بس یہ ہے میری مختصر سی کہانی۔ اِس پر کہانی سننے والا ایک نوجوان بولا کہ میاں اِس میں آسمانی بجلی کا تو کوئی قصور نہیں کیونکہ بجلی کو تو تم نے خود دعوت دی تھی کہ آؤ مجھ پر گرو۔ بھلا تمہیں کس نے کہا تھا کہ اِس موسم میں اونٹ پر بیٹھ کر پہاڑ کو عبور کرو۔ یہ حکایت مجھے تحریک انصاف کی حکومت کے حالات دیکھ کر یاد آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی بھی آج کل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک کے بعد ایک ایسا قدم اُٹھایا جا رہا ہے جو اپنی ہی صفوں میں بھی انتشار کا باعث بن رہا ہے۔ اِس سلسلے کی نئی کڑی وزرا کی کارکردگی کے حوالے سے رینکنگ ہے‘ جس پر حکمران جماعت کی اپنی صفیں ہی درہم برہم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اِس پر سب سے پہلی آواز وزیر مملکت برائے پارلیمانی اُمور علی محمد خان کی اُٹھی۔ اُن کی طرف سے برملا اِس بات کا اظہار کیا گیا کہ جو وزرا اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، وہ ایوارڈ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باقاعدہ خط لکھ کر یہ وضاحت طلب کی ہے کہ آخر وزرا کی کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ کیا تھا اور واضح کیا جائے کہ وزارتوں کی گریڈنگ کس طریقہ کار کے مطابق کی گئی۔ اِس حوالے سے مزید آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ آخر معاملہ ہے کیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ تقریباً چھ ماہ پہلے تمام وزرا نے وزیراعظم کے ساتھ ''پرفارمنس ایگریمنٹ‘‘ پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اہداف کی بنا پر وزارتوں کی کارکردگی کو جانچا جائے گا اور اِسی بنا پراُن کی درجہ بندی بھی کی جائے گی۔ جب تمام وزرا نے اِس معاہدے پر دستخط کر دیے تو وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد ارباب کو تمام وزارتوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ ذمہ داری ملنے پر شہزاد ارباب نے اپنی معاونت کے لیے مختلف وزارتوں سے گریڈ 21 کے پانچ افسران چنے اور اس چھ رکنی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا۔ کمیٹی نے کچھ دیگر افسران کی معاونت سے 41 وزارتوں اور مختلف ڈویژنز کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا اور گزشتہ دنوں اپنی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی۔ اِسی رپورٹ کی بنا پر 10 بہترین وزارتوں کا اعلان ہوا جس میں مراد سعید کی سربراہی میں وزارتِ مواصلات پہلے نمبر پر رہی۔ کارکردگی کے اعتبار سے اسد عمر کی وزارتِ منصوبہ بندی کو دوسرا نمبر دیا گیا۔ ثانیہ نشتر کی سماجی تحفظ اور تخفیفِ غربت کی وزارت تیسرے نمبر پر رہی‘ وزیر تعلیم شفقت محمود کارکردگی کے اعتبار سے چوتھے‘ شیریں مزاری کی وزارتِ انسانی حقوق پانچویں، وزارتِ صنعت و پیداوار چھٹے، قومی سلامتی کی وزارت ساتویں، عبدالرزاق داؤد کی وزارتِ تجارت آٹھویں، شیخ رشید کی وزارتِ داخلہ نویں اور فخر امام کی وزارتِ نیشنل فوڈ سکیورٹی کارکردگی کے اعتبار سے دسویں نمبر پر رہی۔ پہلی دس پوزیشنوں والی وزارتوں کے سربراہان کو وزیراعظم عمران خان نے ایک خصوصی تقریب میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے۔ اس رپورٹ کی ایک اہم بات یہ بھی رہی کہ درجہ بندی میں سبھی وزارتوں نے 80 فیصد سے زائد پوائنٹس حاصل کیے۔ گویا کسی وزیر کو یہ خطرہ لاحق نہیں کہ بری کارکردگی کی بنا پر اُسے وزارت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ وزرا کی کارکردگی جانچنے کا جو بھی پیمانہ رہا ہو‘ اُس کے نتیجے میں بہرحال سب وزارتوں کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیاگیا ہے۔
اِس تمام پریکٹس کا مدعا تو یہی بیان کیا گیا تھا کہ اِس کا مقصد وزرا کے درمیان مقابلے کی فضا کو فروغ دینا ہے لیکن حالات کچھ اور ہی رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اِس کا ایک پہلو تو یہ سامنے آیا ہے کہ پہلے دس نمبروں میں شامل نہ ہونے والے وزرا کی طرف سے مسلسل چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے اور رقابت کی یہ آنچ تیز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مختلف وزارتوں کی طرف سے استفسار کیا جا رہا ہے کہ ہمیں کارکردگی جانچنے کے طریقہ کار سے آگاہ کیا جائے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے تو یہ تک کہا گیا ہے کہ وزارتِ خارجہ کی کارکردگی کا ٹھیک طریقے سے جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وزارتِ خارجہ نے ایگریمنٹ کی پہلی سہ ماہی کے دوران دیے گئے 26 میں سے 22 اہداف حاصل کیے۔ دوسری سہ ماہی کے لیے دیے گئے 24 میں سے 18 اہداف پایہ تکمیل تک پہنچائے جبکہ باقی پر بھی پچھتر فیصد سے زائد کام ہو چکا ہے۔ اِس پر جواب آں غزل کے طور پر ارباب شہزاد کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر شاہ محمود قریشی ناراض ہیں تو اِس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اِس تما م پریکٹس کا دوسرا پہلو عوامی سطح پر ردعمل کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے کمنٹس اور پوسٹوں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے کہ اگر اِن وزارتوں نے اتنی شاندار کارکردگی دکھائی ہے تو ان کے مثبت نتائج عوام کو کیوں دکھائی نہیں دے رہے؟ حکومتی سطح پر ترقی کے بھلے جتنے بھی دعوے کیے جاتے رہیں‘ یہ حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر حکومت کے خلاف جذبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ خصوصاً مہنگائی نے جس طرح سے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے‘ اُس کے بعد سبھی باتیں ''کھوٹی‘‘ نظر آتی ہیں۔ بار بار یہ کہتے رہنا کہ حکومت کو مہنگائی سے پیدا ہونے والی مشکلات کا پورا احساس ہے‘ مسائل کا حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈالر کا بے محابا بڑھتا ہوا ریٹ‘ غیر ملکی قرضوں کا انبار‘ مہنگائی کا طوفان‘ کرپشن میں اضافہ اور ایسے ہی دیگر مسائل کے پس منظر میں وزارتوں کو ''بہتر کارکردگی‘‘ کی وجہ سے ایوارڈ دیا جانا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اِن حالات میں‘ جب سیاسی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ نہ جانے حکومت کو کیا سوجھی کہ پہلے سے ہی اُتار چڑھاؤ کی شکار اپنوں صفوںمیں مزید ابتری پیدا کر دی۔ ایک مصیبت یہ بھی آن پڑی ہے کہ جنہیں پہلے دس نمبروں میں جگہ ملی ہے‘ اُن میں سے بھی متعدد کو یہ بھی شکایت ہے کہ ٹاپ نمبروں کے بجائے نچلے نمبروں پر کیوں آئے۔ خصوصاً محترمہ شیریں مزاری اِس پر کافی دکھی دکھائی دیتی ہیں کہ جائزہ کمیٹی کی طرف سے اُنہیں کم نمبر دیے گئے اور اسی وجہ سے ان کی وزارت ٹاپ نمبروں میں نہیں آ سکی۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ اسد عمر کو پہلے نمبروں میں اِس لیے جگہ مل گئی کیونکہ اُن کی وزارت کے ایک اعلیٰ افسر جائزہ کمیٹی کے رکن تھے۔ شکایت یہ بھی ہے کہ غیر منتخب نمائندوں کو منتخب نمائندوں کی کارکردگی جانچنے کا ٹاسک کیوں دیا گیا اور یہ بھی کہ غیر منتخب افراد کس طرح سے منتخب افراد کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ حالات تو پہلے ہی کچھ ایسے بن رہے ہیں کہ حکومتی اتحادی جماعتیں اپوزیشن سے ملاقاتیں اور رابطے کر رہی ہیں۔ بالکل ویسے ہی‘ جیسے کسی بھی تبدیلی سے پہلے دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری طرف حکومت نے کارکردگی کے حوالے سے اپنے وزرا میں ہی ایک نیا تنازع شروع کر دیا ہے۔ اِس چکر میں سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہو رہا ہے۔ دیکھا جائے تو بیشتر صورتوں میں شہریوں کی اکثریت حکومتی کارکردگی سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میںسمجھ میں نہیں آ رہا کہ ''انجمن ستائش باہمی‘‘ سجا لینے کو کیا نام دیا جائے۔
اِس سے کہیں بہتر تھا کہ کوئی ایسا طریقہ کار اپنایا جاتا جس کے تحت عوام سے یہ پوچھا جاتا کہ کس وزارت کی کارکردگی کسی رہی‘ پھر شاید کسی کو اِس پر اعتراض کی جرأت نہ ہوتی۔ شاید یہ بھی انتہائی خراب موسم میں اونٹ پر بیٹھ کر اونچا پہاڑ عبور کرنے جیسا ہی معاملہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں