"FBC" (space) message & send to 7575

معلوم نہیں کیوں؟

12 فروری 2022ء کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ایک بار پھر بہت سے سوالات پیدا کردیے ہیں۔ اُس روز شام کے وقت ذہنی طور پر معذور شخص مشتاق احمد‘ سکنہ تحصیل و ضلع میاں چنوں کو تلمبہ میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اُس پر چند مذہبی اوراق کی توہین کرنے کا الزام تھا جس پر اُسے ''ہجومی انصاف‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیاگیا۔ یہ سب کچھ مبینہ طور پر موقع پر موجود چند پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ہوا تھا۔ واقعے کی تفصیلات منظر عام پر آنا شروع ہوئیں تو معلوم پڑا کہ مقتول ذہنی طور پر بیمار تھا‘ جو اپنے گھر سے سگریٹ خریدنے کے لیے نکلا لیکن واپس نہ لوٹ سکا۔ پولیس کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے والے شخص کے خلاف ایک روز پہلے محمد رمضان نامی شخص کی مدعیت میں توہین کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مدعی کے مطابق اس نے شاہ مقیم مسجد سے دھواں اُٹھتے دیکھا۔ صورتحال جاننے کے لیے جب وہ دودیگر افراد کے ساتھ موقع پر پہنچا تو وہاں ایک شخص چند مقدس اوراق نذرِآتش کررہا تھا۔ پولیس موقع پر پہنچی اور ملزم کو اپنی تحویل میں لے لیا لیکن تبھی وہاں اکٹھے ہوجانے والے ہجوم نے مشتاق احمد کو پولیس سے چھین کر اُس پر پتھر برسانا شروع کر دیے۔ بعد میں اِس شخص کوایک درخت کے ساتھ باندھ کر سنگ باری کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ جب تک پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی‘ تب تک مشتاق احمد زندگی کی قید سے آزاد ہوچکا تھا۔ اُس وقت موقع پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد ضرور جمع تھے لیکن کسی ایک کی طرف سے بھی ایسی کوشش ہوتی دکھائی نہ دی کہ ہجوم کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔ اُسے بتایا جائے کہ اگر اِس نے کوئی جرم کیا ہے تو اِسے پولیس کے حوالے کرنا چاہیے۔ واقعہ پیش آنے کے بعد حسبِ روایت اب اِس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور اِس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ذمہ داران کسی صورت سزا سے نہیں بچ سکیں‘ وغیرہ وغیرہ۔
پولیس کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ پولیس نے ہجوم کی روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ملزمان نے پولیس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جس پر ایک سب انسپکٹر زخمی ہو گیا، موقع پر 200 سے 300 افراد جمع تھے‘ مزید نفری پہنچنے تک مشتاق احمد کو مارا جا چکا تھا۔ اب تک 112 افراد کوگرفتار کیا جا چکا ہے جن میں 31 مرکزی ملزمان ہیں۔ اب وہی عزم‘ وہی باتیں جو ایسے کسی بھی واقعے کے پیش آنے کے بعد کی جاتی ہیں‘ دہرائی جا رہی ہیں لیکن مجال ہے جو اِن باتوں کا ہماری بند سوچوں پر رتی برابر بھی اثر ہوتا ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب ایسے واقعات کی مذمت کے لیے الفاظ بچے ہیں نہ ذہن ساتھ دینے پر آمادہ ہے۔ نجانے یہ عفریت اور کتنی جانیں نگلے گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ماضی میں جو راستہ قوم کو دکھایا گیا تھا‘ ابھی اُس پر مزید کتنی دور تک چلنا پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کو تبھی استعمال کیا جاتا ہے جب سیاست کا مقصد قوم کی خدمت کرنے کے بجائے ''خود خدمتی‘‘ ہو۔ ایسا کر کے وقتی مفادات حاصل کرنے والے دراصل آنے والی نسلوں کو اپنے مفاد کے لیے یہی راستہ زیادہ شدت کے ساتھ اپنانے کی راہ سجھا رہے ہوتے ہیں۔ چار دہائیوں قبل لگایا گیا پودا اب ایسا تناور درخت بن چکا ہے جس کی چھتر چھایہ تلے انتہاپسندی کا کھیل پورے زور وشور سے جاری ہے۔
ماضی کے واقعات کو ایک طرف رکھ دیں توگزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران دو جانیں جاچکی ہیں۔ ایک تنظیم کے مارچ کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو تعداد کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حکومت نے تب بھی اِس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور بعد میں جس طرح کی ''کارروائی‘‘ کی گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ سب کچھ اُس ملک میں ہوا جو دینِ اسلام کے نام پر وجود میں آیا‘ جس کے پچانوے فیصد سے زائد عوام اس مذہب کے پیروکار ہیں جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے‘ جو خبر پر ردعمل دینے کے بجائے پہلے اس کی حقانیت کو پرکھنے کا درس دیتا ہے‘ مگر ہمیں ان سب سے کیا لینا دینا؟ یہاں تو یہ ریت بن چکی ہے کہ جہاں دوچار لوگ اکٹھے ہوکر جذباتیت کی کوئی بات کردیتے ہیں تو ہم پر اُن کا ساتھ دینا جیسے لازم ہوجاتا ہے‘ یہ جانے بغیر کہ اصل حقائق ہیں کیا۔
اِن حالات میں اب اِس کے علاوہ کون سی رائے باقی رہ جاتی ہے کہ ہم مجموعی طور پر اپنی انتہاپسند سوچوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کے ہمیشہ ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔ آج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود میں ہم آمرانہ دور میں دکھائے جانے والے راستے پر بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ ابھی ہمارا اِ س راستے کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ سیالکوٹ میں سری لنکن باشندے کے قتل پر باتوں کی حد تک زمین و آسمان ایک کردینے والی حکومت پولیس اہلکاروں کی شہادت پر خاموش نظرآئی۔ کیا یہ سب کچھ عجیب محسوس نہیں ہوتا کہ ایک ہی نوعیت کے واقعات پر ہمارا ردعمل یکسر مختلف ہوتا ہے؟ بلاشبہ پریانتھاکمارا کا قتل انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا لیکن پولیس اہلکاروں کی شہادت کو نظر انداز کر دیا جائے؟ یہ ایک ہی نوعیت کے واقعات میں تفریق برتنے کے رویوں کا نتیجہ ہے کہ انتہاپسندانہ سوچوں میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ اب حالیہ واقعے کے بعد تفتیش کا سلسلہ جاری ہے اور متعدد ذمہ داران کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِن میں سے چند ایک کو سزا بھی ہوجائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ '' ہجومی انصاف‘‘ کے اِس بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل کیوں نہیں بنایا جاتا؟ شاید ہمارا اصل المیہ یہی ہے کہ ہم صرف وقت پڑنے پر ہی حرکت میں آتے ہیں اور کچھ عرصہ گزرجانے کے بعد سب پرانی روٹین کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
بظاہر تویہی محسوس ہوتاہے کہ آئندہ بھی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔ جس معاشرے میں ہر معاملہ حساس نوعیت کا قرار دے کر آنکھیں موند لی جائیں‘ وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ جہاں ذرا ذرا سی باتوں پر ملکی مفاد خطرے میں پڑ جائے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو بدعنوانی کے اعتبار سے دنیا بھر میں 140ویںنمبر پر ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا بھر میں 124ویں نمبر پر ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جس کے پاسپورٹ کو دنیا کے پانچ کمزور ترین پاسپورٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاںدوسرے ممالک کی سپورٹس ٹیموں کو لانے کے منت ترلے کیے جاتے ہیں۔ کون سی برائی ہے جس نے ہمارے معاشرے میں اپنے قدم پوری مضبوطی کے ساتھ نہیں گاڑ رکھے؟ دراصل خود کو سنوارنا بہت مشکل کام ہوتا ہے شاید اِسی لیے ہم شارٹ کٹ طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ کوئی ایسا کام کہ ایک بار کرنے سے ہی دونوں جہانوں میں بھلا ہو جائے۔ یہ ایسی ہی سوچوں کا نتیجہ ہے کہ کبھی مسیحی میاں بیوی کو بھٹے میں پھینک دیاجاتا ہے توکبھی گورنر پنجاب پر گولیاں چلا دی جاتی ہیں۔کبھی مشال خان مشتعل ہجوم کا نشانہ بن جاتا ہے تو کبھی پولیس اہلکار نفرت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کبھی پریانتھا کمارا کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے تو کبھی مشتاق احمد کو سنگسار کر دیا جاتا ہے۔ اِس کے باوجود ہمارے ملک میں بدعنوانی کم ہوتی ہے اور نہ رشوت کے بغیر کوئی کام ممکن ہو پاتا ہے۔ اتنے اصلاح پسند ہونے کے باوجود بھی معلوم نہیں کیوں ہمارے ہاں مظلوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ معلوم نہیں کیوں اِس سب کے باوجود بھی ہمارے معاشرتی رویوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ پاتی‘ معلوم نہیں کیوں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں