"FBC" (space) message & send to 7575

پیکا کا ٹیکا

17 مئی 2017: ''سوشل میڈیا کو جو بھی بند کرنے کی کوشش کرے‘ اُسے سمجھ ہی نہیں کہ سوشل میڈیا ہے کیا، یہ بہت فاشسٹ ٹیکٹیکس (حربے) ہیں، آپ کبھی بھی میڈیا کا منہ اِس طرح بند نہیں کر سکتے، سوشل میڈیا میں اِس کا اور زیادہ بیک لیش آئے گا، یہ جو کر رہے ہیں اِس کا اور زیادہ منفی ردعمل آئے گا‘‘۔
23 مئی 2017: ''سوشل میڈیا کو کوئی نہیں روک سکتا، سوشل میڈیا پر اگرکوئی تھوڑی سی کمپین بناتا بھی ہے تو اُس کا ری ایکشن آ جاتا ہے، کئی مرتبہ میں نے کوئی فیصلہ کیا تو ہمارا سوشل میڈیا ہم پر ہی اٹیک کر دیتا ہے‘ تو میں کیا کہوں کہ اسے بند کر دو کیونکہ وہ مجھ پر ہی اٹیک کر رہا ہے؟ دیکھیں یہ 21ویں صد ی ہے اور یہ سوشل میڈیا کا ٹائم ہے، لوگ تنقید کریں گے تو کیا آپ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر بند کر دیں گے؟ کیا ایف آئی اے کا یہ کام ہی رہ گیا ہے کہ اُن کو پکڑ کر جا کر حراست میں لے لیں؟ اُن کو شرم آنی چاہیے کہ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ اداروں کی بدنامی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کو اب کوئی نہیں روک سکتا، اِس نے دنیا بدل دی ہے اور عرب سپرنگ جو تحریک اٹھی‘ وہ بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے تھی، ٹرمپ جو جیتا ہے تو مین سٹریم میڈیا اُس کے خلاف تھا لیکن سوشل میڈیا اُس کے حق میں تھا، اِس کو کوئی قابو نہیں کر سکتا لیکن اب یہ اداروں کی آڑ لے کر آزادیٔ رائے کو سلب کریں گے اپنی حکومت کو تنقید سے بچانے کے لیے‘‘۔
بہت سے دیگر فرمودات میں سے یہ صرف دو بیانات ہیں جو تب کے اپوزیشن رہنما اور آج کے وزیراعظم محترم عمران خان نے دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان اپوزیشن بنچوں پر ہوتا ہے تو تب اُس کی ترجیحات اور ہوتی ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اب شاید اِنہی تبدیل شدہ ترجیحات کے پیش نظر ہی ''پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا)‘‘ آرڈیننس میں نئی ترامیم متعارف کرائی گئی ہیں جن کے تحت ''شخص‘‘ کی تعریف کو ہی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے مطابق اب کسی کے تشخص پر حملہ کرنے والے کی قید کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے۔ اِس جرم کو قابل دست اندازی قرار دے کر ناقابل ضمانت بھی قرار دیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے مطابق عدالتیں ایسے کسی بھی کیس کا فیصلہ چھ ماہ میں کرنے کی پابند ہوں گی اور اگر ایسا نہیں ہو گا تو ہائیکورٹ متعلقہ عدالت سے باز پرس کر سکے گی۔ ہاں! اِس میں کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکے گا۔ سو اب ''پیکا‘‘ میں کی جانے والی ترامیم آرڈیننس کی صورت میں لاگو ہو چکی ہیں۔ (تاہم فی الحال اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس آرڈیننس کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے) نئی ترامیم میں ''شخص‘‘ کی تعریف میں اداروں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی جان لیجئے کہ موجودہ حکومت اگست 2018ء سے اب تک لگ بھگ 70 آرڈیننس جاری کر چکی ہے۔
یہاں یہ تذکرہ بھی بے جا نہیں ہو گا کہ پیکا اصل میں اگست 2016ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تب کی اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی طرف سے اِس قانون کے خلاف سخت ردعمل آیا تھا۔ یہی وہ قانون تھا جس کے خلاف ہمارے موجودہ وزیراعظم صاحب نے وہ بیانات دیے تھے‘ جو کالم کے آغاز میں تحریر کیے گئے ہیں۔ بالکل ایسے ہی‘ جیسے اِس وقت اپوزیشن کی جماعتیں چیخ و پکار کر رہی ہیں‘ دیگر حلقوں کی طرف سے بھی پیکا میں کی جانے والی ترامیم کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے‘ تب نون لیگ کی حکومت نے تمام تر مخالفت کے باوجود یہ قانون لاگو کیا‘ بعد میں متعدد مواقع پر جس کے تحت نون لیگ کے اپنے کارکن ہی نشانہ بنے۔ چونکہ حکومتیں من مانی کرتی ہیں‘ اس لیے نون لیگی حکومت نے بھی ہر قسم کی تنقید کو رد کر دیا تھا‘ اب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اُس نے بھی اپنی ترجیحات کے مطابق قانون میں نئی ترامیم متعارف کرائی ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جیسے پہلے یہ قانون نون لیگ کے کارکنوں کے خلاف استعمال ہوا‘ آئندہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف استعمال نہیں ہو گا؟ یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جو بھی حکومت میں آیا، اُس نے یہی خیال کیا کہ اب اقتدار کا ہما ہمیشہ اُس کے سر پر ہی بیٹھا رہے گا۔ جب کبھی محسوس ہوا کہ زمین پاؤں کے نیچے سے سرکتی چلی جا رہی ہے تو پھر تبدیلی کے عمل کو روکنے کے لیے سخت قوانین کا سہارا لیا گیا۔ پتا نہیں کیوں حکمران یہ سامنے کی بات نہیں سمجھ پاتے کہ وقت کی میز ہر وقت حرکت میں رہتی ہے۔
اب مختصراً یہ جان لیتے ہیں کہ اِس آرڈیننس سے حکومت کو کس نوعیت کے اختیارات حاصل ہوئے ہیں۔ یہاں ہتک عزت کے اُن قوانین کا تذکرہ کرنا بھی مناسب ہو گا جو پہلے سے موجود ہیں۔ اُن قوانین کے تحت اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے خلاف جھوٹی خبر چلائی گئی ہے تو وہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں فوجداری استغاثہ دائر کر سکتا ہے۔ اگر درخواست کنندہ اپنا موقف ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے تو فیک نیوز چلانے والے کو سات سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ نئی ترامیم کے بعد‘ یہ طے کیے بغیر ہی کسی کو بھی بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکے گا کہ چلائی جانے والی خبر فیک تھی یا صحیح۔ نئے قوانین کے تحت ایف آئی اے جھوٹی خبر کے الزام میں کسی بھی بلاگر کو گرفتار کر سکے گی۔ یہ سب کچھ عدالت سے ماورا ہو گا کہ خبر جھوٹی تھی یا سچی۔ مطلب یہ کہ ترامیم متعارف کرانے والوں کے ہاتھ میں یہ اختیار آ گیا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکیں۔ اب یہ بعد میں طے ہوتا رہے گا کہ خبر جھوٹی تھی یا سچی۔ تب تک جیل جانے والا تاریخیں بھگتتا رہے گا اور اُس وقت کو کوستا رہے گا جب اُس نے حکومتی منشا کے خلاف کوئی اقدام کیا تھا۔ بعد میں چاہے وہ بے گناہ ثابت ہو جائے‘ لیکن کچھ عرصے تک مصیبت میں ضرور مبتلا رہے گا۔
اگر موجودہ سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو اِن ترامیم کا مقصد بہت آسانی سے واضح ہو جاتا ہے۔ جب کارکردگی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کچھ زیادہ مواد موجود نہ ہو تو پھر تنقید سے بچنے کے لیے ایسے حربوں کا استعمال ہی بنتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جھوٹی خبروں کی روک تھام بہت ضروری ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اِس کے لیے پہلے سے موجود قوانین کو فعال بنایا جاتا۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ کوئی خبر جھوٹ چلائی گئی ہے‘ خبر چلانے والے 'فرد‘ کی گرفتاری کو کیا نام دیا جائے گا؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ڈنڈے کے زور پر احترام کرایا جا سکے؟ حکومت کو خود پر ہونے والی تنقید کی روک تھام کے لیے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہیے تھا لیکن اِس کے بجائے وہ کسی دوسری راہ پر چل نکلی ہے۔
تاریخ کا یہی المیہ ہے کہ اِس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ تحریک انصاف میں تو ویسے بھی سب کے سب گرگ باراں دیدہ ہیں‘ کیا اِنہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسے حربوں سے اقتدار کو زیادہ دیر تک طول دینا ممکن نہیں۔ کیا اِنہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اِن سے پہلے‘ کئی زیادہ طاقتور آمر بھی ہمیشہ حکمران رہنا کے خواب آنکھوں میں سجائے قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ کیا ان کے پیشروئوں نے اپنے مخالفین کی آوازوں کو دبانے کی کوشش نہیں کی تھی؟ بالکل کی تھی اور بھرپور کوشش کی تھی لیکن انجام کیا ہوا؟ آج اُنہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ چلن رہا ہے اور معلوم نہیں کب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ افسوس کہ جن مسائل کی طرف توجہ دینا چاہیے تھی‘ وہ حکومتی ترجیحات میں دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ مہنگائی کے باعث عوام کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے‘ معیشت کی دگر گوں حالت الگ ستم ڈھا رہی ہے۔ قرضوں کے انبار نے کمر دہری کر رکھی ہے لیکن کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ کسی طرح مخالفانہ آوازوں کو دبایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں