"FBC" (space) message & send to 7575

سیاست کے نرالے انداز

ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں چوہدری برادران شاید سب سے زیادہ خوش ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور اپوزیشن کے رہنماؤں کا چوہدری برادران سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے۔مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ طرفین میں سے کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ دونوں برادران کا وزن کس کے پلڑے میں جائے گا۔محسوس ہوتا ہے کہ فی الحال انہوں نے خود بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا اور وہ صرف حالات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ اقتدار میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے ہرجلسے میں وزیراعظم چوہدری برادران کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے‘ پھر چشم فلک نے وہ وقت بھی دیکھا کہ چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی بنے۔وفاقی اور صوبائی کابینہ میں اُن کے ساتھیوں کو وزارتیں ملیں‘ اُن کی مرضی سے اعلیٰ افسران کی تقرریاں کی گئیں۔مطلب یہ کہ ایک عرصے سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنما خود پر شدید تنقید کرنے والوں کی حکومت کے دوران بھی خوب کھیل رہے ہیں ۔کہاں ایک وقت میں خان صاحب اُنہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیاکرتے تھے اور کہاں یہ عالم کہ مونس الٰہی کی طرف سے حکومت کا ساتھ دینے کی یقین دہانی پر اُن کا چہرہ کھل اُٹھا۔
کون نہیں جانتا کہ مونس الٰہی کو وزیر بنوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے تھے۔وہ خود کہتے تھے کہ اُنہیں اس لیے وزیر نہیں بنایا جارہا تھاکہ وزیراعظم کو شاید اُن کی شکل پسند نہیں تھی۔بالآخرطویل کوششوں کے بعد وفاقی وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوہی گئے اور پھر اس پوزیشن میں آگئے کہ اُن کی یقین دہانی پر حکومت سکھ کا سانس لے سکی۔شاید اسی تناظر میں کہا جاتا ہے کہ سب وقت وقت کی بات ہوتی ہے اور وقت ہمیشہ ایک سا نہیںرہتا۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ بات ہمیشہ سوچ سمجھ کر منہ سے نکلنی چاہیے ورنہ اپنا ہی کہاآگے آ جاتا ہے۔ یہ مثال موجودہ حکومت اور اس کے رہنماؤں پر سب سے زیادہ صادق آتی ہے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو اپوزیشن کے ساتھ بھی چوہدریوں کی طرف سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دراصل چوہدری برادران کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے کہ وہ کبھی کسی کے ساتھ اس حد تک بگاڑ پیدا نہیں کرتے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں۔اس دوران کسی نہ کسی حد تک سیاسی رواداری کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔ یہی خوبی اُنہیں ہرموقع پر فائدہ پہنچاتی ہے۔ اب جب کہ حکومت کو( ق) لیگ کی حمایت کی اشد ضرورت ہے تو اُنہوں نے چودہ برسوں کے بعد شہباز شریف کو بھی مہمان بنا لیا۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن بھی ان کے ہاں آچکے ہیں۔ ان ملاقاتو ں کے ہم بھی عینی شاہد ہیں ۔ اگرچہ یہ مشاہدہ ایک خاص حدتک ہی محدود تھالیکن اس دوران دیگر ساتھیوں کے ساتھ تمام صورت حال پر دلچسپ تبصروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جب کبھی اس طرح کی اہم ملاقاتیں ہورہی ہوتی ہیں تو رپورٹر حضرات کی گفتگو اپنے اندر دلچسپی کے بے شمار پہلو لیے ہوتی ہے۔ایسے میں مختلف سیاسی رہنماؤں کا میڈیا کے نمائندگان سے رویہ بھی زیر بحث آتا ہے۔
بہرحال ان تمام مواقع پر ہمارے رپورٹر ساتھیوں کا یہی خیال تھا کہ چوہدری برادران ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی اپنے پتے بڑی مہارت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ایک ساتھی نے دورکی کوڑی لاتے ہوئے تبصرہ کیا کہ آپ دیکھ لینا (ق) لیگ کے رہنما آخری دن تک حکومت سے الگ نہیں گے اور پہلے ہی دن نئی حکومت میں نظرآئیں گے۔اس کمال کے تبصرے پرسبھی نے بلند قہقہہ لگایا کہ حالات اسی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔شنید تو یہی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ بیشتر معاملات تقریبا ًطے پاچکے ہیں تو دوسری طرف حکومت کے ساتھ بھی پیار محبت کے جھولے جھولے جارہے ہیں۔
کچھ ایسے ہی ملتے جلتے حالات 2019ء کے دوران بھی دیکھنے میں آئے تھے۔تب بھی ایک موقع پر(ق) لیگ کے سربراہان کے دوچار بیانات نے افراتفری پیدا کردی تھی۔حکومتی صفوں میں یہ خیال زور پکڑ گیا تھا کہ شاید انہوں نے کشتی سے اُترنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔وہ تو چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے وضاحتی بیان سامنے آگیا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور یہ کہ ہرصورت میں حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔ان بیانات پر تب بھی حکومت کو ویسی ہی تسکین حاصل ہوئی تھی جیسی اب ایسے بیانات پر حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب عدالت نے میاں نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف کی طرف سے جہاں ملک کی دیگر سیاسی قیادت کاشکریہ ادا کیاگیا تو وہیں چوہدری برادران کو بھی تھینکس بولا کیونکہ دونوں برادران کی طرف سے کھل کر اس بات کی حمایت کی گئی تھی کہ میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت ملنی چاہیے اور اس کے لیے بانڈ کی شرط نہیں رکھی جانی چاہیے۔تب بھی یہ رائے بننا شروع ہوگئی تھی کہ شاید (ن) لیگ کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے حوالے سے بھی چوہدری برادران کے کردار نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ تب واضح طور پر پوری حکومت ایک طرف اور چوہدری برادران دوسری طرف نظرآرہے تھے۔ چاہے کسی کے کہنے پر ہی سہی لیکن ان کے کردار کے بغیر مولانا کا دھرناختم ہونا ممکن نہیں تھا۔اس پر خود حکومت کی میڈیا ٹیم کی طرف سے دونوںکے بارے میں ناپسندیدہ باتیں بھی کی جاتی رہیں۔تب بھی چوہدری پرویز الٰہی کے دوتین انٹرویوز نے تہلکہ سا مچا دیا تھا۔ شاید انہوں نے سمجھا ہو کہ حکومت کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ بات ایک حد سے آگے نہیں بڑھنی چاہیے۔ اب بھی ان کی طرف سے حکومت کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ عوام کی نبض پر اُن کا ہاتھ بھی موجود ہے۔ مہنگائی کے خلاف بیانات‘ سیاسی رواداری کو فروغ دیے جانے کی باتیں‘حکومت کے غلط اقدامات پر دبی تنقید ۔ اپوزیشن کے ساتھیوں کے ساتھ بھی رابطے برقرار رکھے جاتے ہیں اور حکومت کے ساتھ بھی‘ گویا سیاست کے تمام لوازمات پورے رکھے جاتے ہیں۔
تمام لوازمات پورے ہوں اور پھر بھی سیاست کا بھرپورلطف نہ اُٹھایا جاسکے تو پھر یہ سب کچھ کرنے کاکیا فائدہ۔ سو جنہیں عمران خان صاحب کے مطابق جیل میں ہونا چاہیے تھا ‘ وہ اس وقت حکومت کی مجبوری بنے ہوئے ہیں۔ اُن کی حمایت پر حکومت سکھ کا سانس لیتی ہے تو مخالفت پر بے چینی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ایسے میں ان سوچوں کا در آنا بالکل بجا ہے کہ جب سب نے مل جل کر ہی ملک کے معاملات چلانے ہیں تو پھر موقع کی مناسبت سے ایک دوسرے کے اس قدر لتے کیوں لیے جاتے ہیں کہ جیسے اب ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھی جائے گی۔
شاید ہمارے ملک میں سیاست کا یہی چلن ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برساتے رہیں اور ضرورت پڑنے پر سب کچھ بھول کر صرف اپنے اقتدار کی بچانے کی کوشش کریں ۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت نے تو ماضی کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں۔ موجودہ کابینہ کے ایسے کتنے ہی اراکین ہیں‘ کس کس کا نام لیا جائے ‘ جن کی شکلیں تک نہ دیکھنے کے اعلانات سننے میں آتے رہے تھے‘ مگر آج وہ بھی کابینہ کا حصہ ہیں ‘جنہیں بیانات کے مطابق جیل میںہونا چاہیے تھا۔ہمارے سیاست کے یہی نرالے انداز ہیں کہ یہاں کسی کو بھی کسی بھی وقت کسی کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اسی لیے سب کے لیے مشورہ ہے کہ کسی کی بھی مخالفت میں اتنا آگے نہیں بڑھ جانا چاہیے کہ پھر اپنا کہا ہوا ہی کاٹنے لگے۔ پھر اپنا کہا ہوا ہی کاٹنے لگتا ہے اور اپنی کہی ہوئی باتیں ہی شرمندہ کرنے لگتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں