"FBC" (space) message & send to 7575

بس اپنے حالات کا ادراک نہ ہوسکا

دعوے تو یہی ہوتے رہے تھے کہ کوئی تحریک عدم اعتمادنہیں آسکتی لیکن یہ توآچکی۔دعویٰ یہ بھی تھا کہ بفرضِ محال اگر تحریکِ عدم اعتماد آبھی جاتی ہے تو یہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن اس مرتبہ اس حوالے سے بھی صورت حال کافی مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے بعد بیانات تبدیل ہوئے اور حسبِ روایت ضمیرفروشی اور ہارس ٹریڈنگ کے الزامات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ۔ بات دھمکیوں سے آگے بڑھتے ہوئے گالم گلوچ تک جاپہنچی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کے لیے سخت زبان استعمال کی۔ اُنہوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ سننے والوں میں اس کا کیا تاثر جائے گا۔سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کوئی حکومتی نمائندہ کسی رکن پارلیمنٹ کے لیے اس طرح کی زبان استعمال کرسکتا ہے ۔اس سے رمیش کمار کو تو کوئی فرق نہیں پڑا ہوگا لیکن عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔عقل ودانش کا اندازہ لگائیں کہ پہلے سے ہی مشکل حالات کا سامنا کرنے والی جماعت کا رہنما اپنی طرزِ گفتگو سے اپنی جماعت کے لیے مزید گڑھے کھودنے کا باعث بن گیا۔ معلوم نہیں کل کلاںاپنے اس طرز ِعمل کا کیا جواب دیں گے۔ کیسے اپنی گفتگو کی کوئی منطق پیش کر سکیں گے؟ لیکن کیا کیا جائے کہ اب گالی گلوچ اور دھمکیوں کا چلن پہلے سے کہیں زیادہ ہوگیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس حوالے سے غیرمنتخب رہنماؤں کا کردار منتخب نمائندوں کی نسبت زیادہ منفی رہا ہے۔ کئی ایک صورتوں میں بیرونی ممالک سے لاکر ہمارے سروں پر مسلط کردیے جانے والے نابغوں نے اپنی گفتگو سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ ڈاکٹر شہباز گل کی مثال ہی لے لیجئے کہ اب وزرائے کرام بھی ان کے اندازِ گفتگو سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ شیخ رشیداور حماد اظہر صفائیاں پیش کررہے ہیں لیکن تیر تو کمان سے نکل چکا۔ دراصل غیرمنتخب افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے کون سا انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ کھیل ختم ہونے کے بعد وہ واپس وہیں چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے ‘‘اللہ اللہ خیرسلا۔ بھگتنا تو اُن کو ہوتا ہے جنہیں پھر سے اپنے حلقو ں میں جانا ہوتا ہے۔
گالم گلوچ سے آگے بڑھتے بڑھتے بات اسلام آباد میں سندھ ہاؤس پر حملے تک جا پہنچی۔ اس معاملے میں بھی شہباز گل صاحب کا کردار نمایاں طور پر سامنے آیا۔ پولیس نے حملے کے ذمہ داران کو گرفتار کیا اور شہباز گل اُنہیں ذاتی ضمانت پر چھڑا لے آئے۔ کیا اس سے یہ تاثر نہیں جائے گا کہ اس حملے کو کہیں نہ کہیں حکومتی سطح سے آشیر باد حاصل تھی؟ افسوس ناک بات یہ رہی کہ دھاوا بولنے والوں کو اُن کی طرف سے چھڑایا گیا جو اقتدار میں آئے ہی قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے نام پر تھے۔ افسوس صد افسوس کہ اپنے بہت سے دیگر وعدوں کی طرح وہ کسی ایک موقع پر اپنا یہ وعدہ بھی وفا نہ کرسکے ۔ اُلٹا قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو قانون کے شکنجے سے چھڑا لیا گیا۔ ان حالات میں کیونکر یہ خدشہ پیدا نہیں ہوتا کہ سیاست میں مزید منفی ہلچل پیدا ہونے کے قوی امکانات پید ا ہوچکے ہیں؟ گمان تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ ممکنہ طور پر حالات ایسی سطح پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں کسی تیسرے فریق کو میدان میں کودنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی طرف سے تو بجا طور پر یہ واضح کیا جاچکا کہ سپریم کورٹ کو تحریک عدم اعتماد اور سیاسی عمل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ اسلام آباد میں صورت حال بگڑتی جار ہی ہے اور تصادم کا خطرہ پیدا ہورہا ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرے لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے ایسے کسی بھی امکان کو رد کردیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ابھی بہت دور کی کوڑی ہو لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ صورت حال کے زیادہ بگڑنے پر کوئی اور فریق میدان میں آجائے۔ بلاشبہ یہ پورا منظر نامہ کسی طور بھی مثبت صورت حال کی طرف اشارہ نہیں کررہا۔ طرفین کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت اسلام آباد میں جلسے جلسوں کے اعلانات تو پہلے ہی کیے جاچکے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے کہ صورت حال تصادم کی طرف نہیں جائے گی۔ گزشتہ سطور میں بھی یہ عرض کیا جاچکا کہ حکومتوں کا یہ وتیرہ نہیںہوتا ہی جو موجود ہ حکومت نے اختیار کیا ہے۔ حکومت تو ایسی کسی بھی صورت حال سے بچنے کی کوشش کرتی ہے جو حالات کو تصاد م کی طرف لے جائے لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹ دکھائی دے رہا ہے۔
اب اس بیانیے کا سہارا لینے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ اراکین ِاسمبلی کی خریدوفروخت ہورہی ہے۔ یہ بات اُن کی طرف سے کی جارہی ہے جنہوں نے خود2018ء میں اراکین کی لوٹ سیل لگائی تھی۔مختلف جماعتوں سے منسلک لوگوں کو مختلف سبز باغ دکھا کر اپنی جماعت کا حصہ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اور عمران خان صاحب کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔جنہیں ''پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو ‘‘ کا خطاب دیتے تھے انہیں بھی حکومت کا حصہ بنایا ۔ ایم کیوایم بھی اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں شانہ بشانہ رہی اور تب کہیں جا کر ایسی حکومت وجود میں آئی جس نے سب کچھ ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اندازہ لگائیے کہ سوچے سمجھے بغیر اچھے خاصے چلتے ہوئے سلسلے کو پٹری سے اُتار دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے انا کی تسکین تو ہوگئی ہو لیکن ملک و قوم کو براحال ہوگیا ہے۔ اتنی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہونے والی جماعت نے پہلے ہلے میں ہی ڈھے جانا تھااور ممکنہ طور پر ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حکومت تو ایسے ہی واویلا کررہی ہے ورنہ تو اب یہ اُسی مقام پر واپس آرہی ہے جہاں سے اسے بڑھاوا دیا گیا تھا۔ جن لوگوں کو اس جماعت کے ساتھ شامل کیا گیا ‘ اب وہ واپس جارہے ہیں تو اس کے لیے اتنا زیادہ ہائپر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ رہی بات پیسوں کی تو ہوسکتا ہے کہ مبینہ طور پر کہیں ایسا معاملہ بھی ہو لیکن جماعت میں تو دھڑے بندیاں ہرجگہ ہی نمایاں طور پر نظر آرہی تھیں۔ سندھ اسمبلی میں سینیٹ کی نشست کے لیے تحریک انصاف کے بائیکاٹ کے باوجود جماعت کے بعض اراکین نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ بلوچستان میں سردار یار محمد رند کا اقدام بھی سب کے سامنے ہے تو پنجاب میں بھی واضح دھڑے بندیاں موجود ہیں۔کے پی کے کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ ان حالات میں صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ اراکین کی خریدوفروخت سے تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خود اس بات کا جائزہ بھی لینا ہوگا کہ ساڑھے تین سال کے دوران‘ اُس کو نہیں چھوڑوں گا‘اس کو اُلٹا لٹکا دوں گا سے بڑھ کر کیا کیا جاسکا ہے۔ جو مغرب کو سب سے زیادہ جانتا ہے ‘جو اسلام کو سب سے زیادہ جانتا ہے ‘جو سیاست کو سب سے زیادہ جانتا ہے ‘ وہ نہ جان سکا تو اپنی جماعت کے حالات کا ادراک نہ کرسکا۔ نہ سمجھ سکے تو ملکی حالات کو نہ سمجھ سکے۔دیکھا دیکھا وزیرمشیر بھی یہی کرتے رہے اور جب حالات کا کچھ کچھ ادراک ہوا تو تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔موجودہ حالات کے ساتھ دل تو مستقبل کی ممکنہ صورت حال کے حوالے سے بھی دھک دھک کررہا ہے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ جنہوں نے ساڑھے تین سال تک ناکام گورننس کی ہے‘ مستقبل میں اُن کے ساتھ یہی کچھ ہوسکتا ہے۔یہ بھی خیال آتا ہے کہ بے شمار مقدمات قائم کردینے والوں کو خود بھی مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہناچاہیے ۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ایسی کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت اپنا وجو د کس طرح سے قائم رکھ پائے گی ‘ جو اپنی تقریباً اپنی اصل کے قریب قریب واپس لوٹنے والی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں