"FBC" (space) message & send to 7575

جسٹس فار پوجا

سکھر کی رہائشی پوجا کماری صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ اُس کا ایک بااثر ہمسایہ مبینہ طور پر کافی عرصے سے اس کو شادی کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اولاً تو دونوں میں مذہب کا فرق‘ پھر اس کا ہمسایہ اسے کچھ ایسا پسند بھی نہیں تھا کہ وہ شادی کے لیے ہاں کرتی ‘ اسی لیے وہ مسلسل انکار کرتی رہی۔ کئی مواقع پر اسے ہراساں کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔ ایک ایسے ہی واقعے کے بعد ملزم کے خلاف پولیس کو درخواست دی گئی جس پر پولیس نے کارروائی بھی کی لیکن بعد ازاں ملزم کو کو شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ ملزم اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ پوجا کے گھر میں گھس گیا۔ پہلے اُسے اپنی بات ماننے کے لیے رضامند کرتا رہا اور ناکامی پر اُسے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اِسی دوران پوجا کے ہاتھ میں ایک قینچی آگئی اور اُس نے ملزموں کے خلاف اِسی ہتھیار کو استعمال کیا۔ اس نے اپنے اغوا کی بھرپور مزاحمت شروع کی توتنگ آ کر ملزمان نے اس پر فائرنگ کر دی ۔پوجا خود کو بچانے کی جدوجہد میں زندگی کی بازی ہارگئی اور ہم سب کو شرمندہ کر گئی۔
سندھ میں ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغوا کے اتنے واقعات سامنے آچکے ہیں کہ شاید اب ان میں خبریت کا عنصر بھی باقی نہیں رہا۔ ایسے واقعات کو معمول کی بات سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ضمیر کی آواز پر کان دھرنا پڑ جاتے ہیں۔ پوجاکماری کے واقعہ میں بھی روشنی کی یہی کرن دکھائی دی کہ اِس واقعے پر سندھ حکومت اور پولیس کا فوری ردعمل سامنے آیا ۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مبینہ قاتل کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے نہ صرف واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی بلکہ پولیس کو فوری کارروائی کا حکم بھی دیا گیا۔ صوبائی وزیربرائے اقلیتی اُمورگیان چند بھی کافی متحرک دکھائی دیے اور نتیجتاً ملزم بہت جلد گرفتار ہوکر سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ اِس واقعے کی سوشل میڈیا پر بھی بھرپورمذمت کی گئی۔ بیشتر صارفین کی طرف سے اس واقعے کو انتہائی افسوناک قرار دیا گیا اور ملزمان کے خلاف فوری اور کڑی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ بلاشبہ یہ ردعمل آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا لیکن اب بھی معاشرے کے بہت سے ایسے طبقات نے اس واقعے پر مسلسل چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے جن کی طرف سے مذمت ذہنوں کو بدلنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ عمومی طور پر جب ایسے واقعات کی مذمت میں آوازیں بلند ہوتی ہیں تواِسے لبرل لابی کا پروپیگنڈا قرار دے کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مذکورہ حالات کے تناظر میں 1927ء میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد ذہن میں اُبھر رہی ہے۔ تب برصغیر میں مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت میں تھے۔ اُس دور میں کلکتہ میں ہونے والے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی کہ مسلمان بچیوں کو جبراً تبدیلیٔ مذہب پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھاکہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قوانین رائج کرے۔ہمارے ہاں بھی کچھ عرصے سے ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں جن میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ کیسز میں لڑکیوں نے مجسٹریٹ، عدالت یامیڈیا اور دیگر ایسے فورمز پر پیش ہو کر اس الزام کی سختی سے تردید کی اور بتایا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ رنکل کماری، ڈاکٹر لتا، آشا کماری کے کیسز خاصے نمایاں ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے پسند کی شادی کرنے اور مرضی سے تبدیلیٔ مذہب کا اقرار کیا تھا۔ البتہ چند سال پہلے سندھ اسمبلی میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نند کمار نے ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں اقلیتی برادری کی بچیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ قرارداد غالباً 2019ء میں منظور کی گئی تھی‘ اس سے پہلے 2016ء میں سندھ اسمبلی میں ''اقلیتوں کے تحفظ کا بل‘‘ بھی منظور ہوا تھا۔ منظوری کے بعد جب اِسے توثیق کے لیے گورنرسندھ کو بھیجا گیا تو اُنہوں نے اِس میں کچھ ترامیم تجویز کرکے اِسے واپس اسمبلی کو بھجوا دیا تھا۔ اُس کے بعد سے اِس بل کو دوبارہ منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ اِس بل میں جبری تبدیلیٔ مذہب اوراِس میں معاونت پر تین سے پانچ سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ بل میں سہولت کار کے لیے بھی سزا تجویز کی گئی تھی۔ اقلیتوں کو تحفظ کی فراہمی کی بہت سی دوسری شقیں بھی بل کا حصہ تھیں لیکن بوجوہ یہ بل آج تک قانون کی شکل اختیار نہیں کرسکا۔
دوسری طرف بھارت کے حالات دیکھیں تو انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ وہاں پر ریاستی سطح پر اقلیتوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو منظم طریقے سے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ہرروز مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چند روز قبل ہی اُترپردیش میں‘جہاں انتہا پسند یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے‘ ایک حکومتی رکن اسمبلی کی قیادت میں جلوس نکالا گیا اور اس دوران انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے رہے۔ اس جلوس میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسایا جاتا رہا۔ اِس جلوس کے کچھ ہی دیر بعد دو مسلمان نوجوانوں عبدا لرحمن اور محمد اعظم کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اُنہیں سور کا گوشت کھلانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں دواور نوجوانوں پر تشددکیا گیا جن میں سے ایک ہسپتال میں جا کر دم توڑ گیا۔ بھارت بھر میں حجاب کے معاملے پر مسلمان بچیوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، وہ بھی ہماری تکالیف میں مزید اضافہ کے سبب بن رہا ہے۔ کرناٹک میں تو تعلیمی اداروں میں بچیوں کے حجاب پر پابندی لگائی ہی گئی ہے‘ دیگر ریاستوں میں بھی اس پابندی کے لیے بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے اور حجاب میں ملبوس بچیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ صرف اس ایک فیصلے سے کرناٹک میں ہزاروں مسلم بچیوں نے تعلیمی سلسلے کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہاں پر مسلم اساتذہ کو بھی حجاب سے منع کیا جا رہا ہے اور سکول‘ کالج میں داخل ہونے سے قبل انہیں حجاب اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سفیر اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کی جانب سے بھارت میں مسلم مخالف رویوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مودی سرکار مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ سے بھی اس معاملے پر اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی ۔ اگر ہم مسکان خان کی دلیری کی داد دیتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں‘ اُسے بہادر بیٹی قرار دیتے اور جرأت و استقامت کا استعارہ سمجھتے ہیں‘ تو پھر ہمیں پوجاکماری کی جرأت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ دونوں واقعات کی نوعیت اگرچہ کافی مختلف ہے‘ ایک واقعہ ریاستی سطح پر پیش آیا اور حکومت کی طرف سے ایسے واقعات کی بھرپور سرپرستی کی جا رہی ہے جبکہ دوسرا واقعہ سراسر ایک انفرادی فعل ہے‘ جس کی ہر سطح پر مذمت کی جا رہی ہے؛ تاہم ان دونوں واقعات کو اقلیتی برادری کودرپیش مسائل کے تناظر میں ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔ پوجا کماری کے قتل پر پوری قوم کو یکسو ہو کر ایک واضح رد عمل دینا چاہیے تاکہ ایک مثال قائم ہو سکے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم پوجا کماری کے قتل کو اپنے لیے بحیثیت قوم ایک ٹیسٹ کیس بنا لیں۔ نہ صرف اِس بچی کے قاتل کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے یک زبان ہو جائیں بلکہ اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کریں کہ ہمارے ہاں اقلتیں پوری طرح محفوظ ہیں۔ ہمیں اپنے ذہنوں میں بابائے قوم کی گیارہ اگست 1947کو کی جانے والی تقریر کا وہ حصہ دہرانا ہو گا ''آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مساجد میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اُس سے کوئی لینا دینا نہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں