"FBC" (space) message & send to 7575

’حق وباطل‘کی جنگ

آج سے کم و بیش 38 سال پہلے عوام سے کچھ سوالات پوچھے گئے تھے۔ ''کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے، عوامی نمائندوں کو اقتدار کی پُرامن منتقلی اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تائید کرتے ہیں؟‘‘۔ 19دسمبر 1984ء کو کرائے جانے والے ریفرنڈم میں پوچھے جانے والے ان سوالات کے جوابات عوام نے ہاں یا ناں میں دینا تھے۔ عوام کا جواب ہاں میں ملنے کی صورت میں جنرل ضیاء الحق کو آئندہ پانچ سالوں کے لیے ملک کا صدر منتخب ہو جانا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب آتش جوان تھا‘ سو ایسے ہی ہم بھی مختلف پولنگ سٹیشنوں پر رونق میلہ دیکھنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ کم و بیش 18 پولنگ سٹیشنوں کا وزٹ کیا جن میں سے بیشتر پولنگ سٹیشن سائیں سائیں کر رہے تھے۔ کئی مقامات پر انتخابی عملے کی خواتین سویٹر بُننے میں مصروف تھیں۔ چند ایک مقامات پر ایک مذہبی سیاسی جماعت کے کارکنان لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کی ترغیب دیتے دکھائی دیے۔ تب ایسی تصاویر بھی سامنے آئی تھیں جن میں بچے ووٹ ڈالنے کی تربیت حاصل کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ گویا کافی رونق میلہ لگا رہا اور اِسی رونق میلے میں ضیاء الحق آئندہ پانچ سالوں کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔ ریفرنڈم سے پہلے حکومت کا سب سے زیادہ زور عوام کو یہ باور کرانے پر رہا کہ قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے شاندار اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ ترغیب خاصی کارگر رہی اور نتیجہ یہ نکلاکہ سائیں سائیں کرتے ہوئے پولنگ سٹیشنوں سے بھی ووٹوں سے بھرے ہوئے صندوق برآمد ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح 62 فیصد تھی جن میں سے97 فیصد ووٹروں نے اپنا جواب ''ہاں‘‘ میں دیا۔ یوں محمد ضیاء الحق آئندہ پانچ سالوں کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔
ضیاء الحق سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار تھے۔ اقتدار کے آخری دنوں میں اُنہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اُنہیں زیادہ عرصے تک وزیراعظم نہیں رہنے دیا جائے گا۔ وہ یہ بھی جان چکے تھے کہ تحریک کے پس پردہ کون سی قوتیں کارفرما ہیں۔ جب اُن کے خلاف تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی‘ تب اُنہوں نے اپنے بچاؤ کے لیے آخری حربے کے طور پر ہفتہ وار چھٹی کا دن اتوار کے بجائے جمعہ مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اِس کے ساتھ ملک بھر میں شراب پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تاکہ عوام کو خوش کیا جا سکے۔ اِس سے پہلے 1973ء میں کچھ جماعتوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کی قرارداد پیش کی گئی تھی مگر تب حکومت کی طرف سے اس قرارداد کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا تھا کہ حکومت کی توجہ زیادہ اہم مسائل پر مرکوز ہے۔ 1977ء میں حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے قائدین کی طرف سے حکومت کو جو مطالبات پیش کیے گئے تھے، اُن میں سے ایک مطالبہ شراب پر پابندی عائد کرنے کا بھی تھا۔ تب تک حکومت کے پاؤں پوری طرح سے جلنا شروع ہو چکے تھے لہٰذا یہ کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔ وہ کام جس کے لیے 1973ء میں حکومت کے پاس فرصت نہیں تھی‘ 1977ء میں وہ فوری ہوگیا تھا۔
جولائی 1977ء میں ضیاء الحق نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد جو اہم ترین اقدامات کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ تھا اسلامی قوانین کا نفاذ۔ اِس اعلان کے بعد ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا عمل شروع ہوا جو سالہا سال پہ محیط ہو گیا۔ بلا سوچے سمجھے کیے گئے اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوانین کو چوں چوں کا ایسا مربہ بنا دیا گیا جس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ہرصورت میں ایک آمر کے اقتدار کو تحفظ اور استحکام فراہم کیا جا سکے۔ اُس دور میں خوشنما جذباتی نعروں کی آڑ میں جو کچھ ہوتا رہا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے جس کے بارے میں ہر ذی شعور اچھی طرح جانتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ایک آمر‘ جو خود غیر آئینی طریقے سے مسندِ اقتدار پر براجمان ہوا تھا‘ وہ محض جذباتی نعروں اور اعلانات سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیتا رہا‘ لیکن کب تک؟ پھر ایک دن طیارہ کریش ہوا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ اب کے ملکی سیاست ایک مرتبہ پھر ''حق و باطل‘‘ کی لڑائی کا رخ اختیار کر چکی ہے۔ اگر آپ حکومت کی حمایت کریں گے تو پھر آپ حق کا ساتھ دیں گے‘ دوسری صورت میں آپ کو ''باطل قوتوں‘‘ کا حمایتی سمجھا جائے گا۔ امر بالمعروف کا سیدھا ترجمہ یہ کر دیا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دو۔ گویا ایک مرتبہ پھر حکومت بچانے کے لیے وہی پرانا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اِس وقت محض حکومت ہی حق پر ہے اور اُس کی مخالف جماعتیں باطل کی نمائندہ ہیں۔ یہ سب کچھ اُن کی طرف سے بتایا جا رہا ہے جو حکومت میں آنے کے بعد اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ پٹرول، چینی، گندم اور ادویات سکینڈلز میں ملوث افراد آج بھی حکومتی پروں کے نیچے دیکھے جا سکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس کو مسلسل لٹکایا جاتا رہا لیکن دعوے یہ کیے جا رہے ہیں کہ کرپشن کے خلاف جدوجہد کی جا رہی ہے۔ جب تمام کوششیں ناکام ہوتی نظر آئیں تو ملکی سیاست کو ''حق و باطل‘‘ کا معرکہ بنا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ سیاست کو سیاست کیوں نہیں رہنے دیا جاتا؟ کیوں اِس میں مذہبی اصطلاحات اور نعروں کو استعمال کیا جاتا ہے؟ یہاں پر یہ اعتراض بھی بجا ہے کہ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت بھی سیاست میں مذہبی کارڈ کا استعمال کرتی آئی ہے۔ اس کا غلط طرزِ عمل دوسرے کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔ اِس طرز عمل کے حتمی نتائج بہت منفی برآمد ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ضیاء الحق دور میں جس طرح سے مذہب کے نام پر سیاست کی گئی‘ اُس کے باعث معاشرے میں ایسے بگاڑ پیدا ہوئے کہ ابھی تک قوم اُن کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر وہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہے اور اِس کے ساتھ عوامی اجتماعات میں مخالفین کو برے برے القابات سے بھی نوازا جا رہا ہے۔
بلاشبہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے کا سلسلہ حالیہ دو حلیف اور ماضی قریب کی دو بدترین حریف جماعتوں کے مابین بھی جاری رہا۔ اِس طرز عمل کی تب کوئی توصیف کی جاتی تھی نہ اب ایسی باتوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حکمرانوں کا عجیب طرزِ عمل رہتا ہے کہ جب سر پر پڑتی ہے تو سب اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر کہاں کے اصول اور کہاں کے ضابطے۔ پھر ایک ہی مطمح نظر رہ جاتا ہے کہ کسی بھی طرح اقتدار بچ جائے لیکن وہ پھر بھی نہیں بچ پاتا۔ یہی سب کچھ موجودہ حکومت کے ساتھ بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ قاف لیگ کی حمایت حاصل کر لینے کے باوجود حکومتی کشتی بدستور منجدھار میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ قاف لیگ ہاتھ لگی تو ایم کیو ایم ہاتھ سے نکل گئی۔ اِن حالات میں اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے اُس کے مطابق حکومت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور اپوزیشن کے نمبر 177 تک جا پہنچے ہیں۔ ممکن ہے کہ اِن سطور کی اشاعت تک صورتحال میں مزید تبدیلی آ جائے لیکن بظاہر حکومت کی کہانی یہاں ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یقینا خود کو بچانے کے لیے کوشش کرنا ہر کسی کا حق ہے‘ وہ چاہے اپوزیشن ہو یا حکومت۔ سوال صرف اتنا ہے کہ اپنی شکست کو دیکھ کر ہم ایسے نعرے کیوں لگانا شروع کر دیتے ہیں جن سے عوام کے جذبات کو ابھارا جا سکے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کیوں ہم عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں؟ اب کے بھی حکومت نے کوشش تو بہت کی لیکن حاصل حصول کچھ بھی نہ ہو سکا۔ اِس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے؟ عوام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاست کو سیاست کی حد تک ہی رکھا کریں‘ اپنی پسندیدہ جماعتوں کے جذباتی نعروں سے مرعوب ہونا اور ان کے جھانسے میں آنے کی روایت اب ختم کر دیں۔ یہ سب کچھ سابقہ تجربات کے نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ اپنی بری کارکردگی کو چھپانے کے لیے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ برسراقتدار آنے کے بعد سے حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے، اُس کے بعد تو حکومت کے پاس یہی ''حق و باطل‘‘ والا حربہ بچا تھا لیکن فائدہ اُس کا بھی نہیں ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں