"FBC" (space) message & send to 7575

معاشرت، معاشرت، معاشرت

مشہور مسلم سیاح ابن بطوطہ 1304ء میں مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوئے۔ جوانی میںسیاحت کا شوق چرایا تو28 برسوں کے دوران75 ہزار میل کا سفر کرڈالا۔ دنیاکے بے شمار ممالک کی سیاحت کی۔ سفر کے دوران یہ سیاح مختلف حادثات کا شکار بھی ہوا‘ کئی مواقع پر بعض ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہا۔ ایران، شام، تیونس، فرانس، مصراور ترکی کے علاوہ بے شمار دوسرے ممالک کی بھی سیاحت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس سیاح نے بیشتر سفر کسی کارواں میں شامل ہوئے بغیر‘ اکیلے ہی کیے۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ اُس دور میں سفر کرنا کارِآسان ہرگز نہیں تھا لیکن اُسے دنیا دیکھنے کی خواہش بلکہ لگن تھی۔ اِس لگن کی خاطر وہ قریہ قریہ اور ملکوں ملکوں گھومتا رہا۔ ابن بطوطہ نے سفر کے دوران حاصل ہونے والے اپنے تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل بھی دی اور عجائب الاسفار فی غرائب الدیار کے عنوان سے اپنے سفر نامے رقم کیے۔ اس کے علاوہ ایک کتاب 'رحلہ‘ کے نام سے لکھی جو اس دور کے تاریخی، سیاسی اور ثقافتی حالات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب پڑھے جانے کے قابل ہے۔ اِس کتاب کا مطالعہ ہمیں براہ راست اُس دور میں لے جاتا ہے اور آگاہ کرتا ہے کہ تب مختلف ممالک میں کس طرح کے رسوم و رواج پائے جاتے تھے۔ لوگوں کا رہن سہن اور بودوباش‘ کیسے تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک دیکھنے کے شوق میں یہ سیاح 1332ء میں ہندوستان آیاتھا۔ یہ وہ دورہے جب اِس خطے پر محمد بن تغلق کی حکومت تھی۔ اِس علم دوست بادشاہ کو یہ مہمان بہت پسند آیا جس پر ابن بطوطہ نے بادشاہ کی مہمان نوازی کا خوب لطف اُٹھایا۔ ابن بطوطہ کی ذہانت سے متاثر ہوکر اِسے قاضی کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ یوں تو ابن بطوطہ نے اپنی کتابوں میں مختلف ممالک میں ہونے والے مختلف تجربات بیان کیے ہیں لیکن ہم فی الحال اپنے خطے تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اپنی کتاب میں ابن بطوطہ ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے ''اِس ملک میں آنا میرے لیے شاندار تجربہ رہا لیکن یہاں کی فضا میں عجیب سی بدبو محسوس ہوتی تھی‘ ایک سڑاند سی نتھنوں میں گھسی رہتی تھی... میں نے دیکھا کہ ایک دکان میں تیل بک رہا ہے تو اُس کے ساتھ والی دکان میں ریشم فروخت ہورہا ہے، یہ سب بہت عجیب محسوس ہوتا تھا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ جہاں مرضی کھڑے ہوکر پیشاب کردیتے تھے‘ جہاں جی چاہتا تھوک دیتے تھے‘ جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر الگ سے ستم ڈھاتے رہتے تھے‘‘۔
اِس عظیم سیاح کو اب اِس دنیا سے رخصت ہوئے لگ بھگ 653سال بیت چکے ہیں۔ دنیا بدل چکی ہے لیکن اگر ہم اپنے خطے کی حالت دیکھیں تو بہت سی صورتوں میں یہ آج بھی ویسی کی ویسی ہے‘ جو ابن بطوطہ نے بیان کی تھی۔ آج بھی اگر ہم اپنے خطے میں واقع ممالک؛ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے حالات کا جائزہ لیں تو رہن سہن کے اعتبار سے ہمیں تینوں ممالک کے درمیان کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اِس خطے میں رہنے والے معاشرت کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ آپ مشرقی سرحد پار کرکے جب بھارت میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں بھی جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے دکھائی دیں گے۔ لوگ جہاں جی چاہے‘ کھڑے ہو کر پیشاب کردیتے ہیں۔ ہماری طرح وہاں بھی ہر جگہ کرپشن کا دور دورہ دکھائی دے گا۔ وہاں بھی ہرجگہ بے ہنگم پن نظر آتا ہے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں‘ ہرطرجگہ تجاوزات کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہاں سے آگے بڑھ کر جب بنگلہ دیش میں داخل ہوں تو چند لسانی و لباس کی تبدیلیوں کے علاوہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی تیسرے ملک میںداخل ہوچکے ہیں۔ بے تحاشا آبادی نے وہاں بھی اُدھم مچا رکھا ہے۔ وہاں بھی کرپشن نے اپنے پنجے پوری مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔ انصاف، معیشت، قانون اور ایسی ہی دوسری باتوںکو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر صرف رہن سہن پر ہی غور کریں تو سب کا حال لگ بھگ ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ یہ خطہ ہمیشہ سے ہی انتہائی زرخیز رہا ہے۔ دولت کی بھی یہاں کبھی کمی نہیں رہی۔ جب اِس خطے پر اورنگ زیب عالمگیر حکومت کررہا تھا تو تب پوری دنیا کے جی ڈی پی میں اس خطے کا حصہ 25فیصد کے لگ بھگ تھا۔ اندازہ لگا لیجئے کہ یہاں دولت کی کیسی ریل پیل رہی ہو گی۔ اِسی لیے تو غیرملکیوں کی رال ٹپکتی رہتی تھی کہ کسی طرح یہ خطہ اُن کے قبضے میں آجائے۔ اِس خطے نے کتنے ہی بیرونی حملہ آوروں کا سامنا کیا جو جب بھی آیا‘ یہاں سے مال و دولت سمیٹ کر لوٹ گیا؛ البتہ مغلوں کا یہاں ایسا جی لگا کہ اُنہوں نے باقاعدہ یہاں پر اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی نعمت نہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے اِس خطے کو نوازا نہیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ ہم آج تک معاشرت نہیں سیکھ سکے‘ اپنے اندر نظم وضبط پیدا نہیں کرسکے۔ گویا وہی چال بے ڈھنگی سی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کو پار کرکے جیسے ہی ہم سری لنکا یا مالدیپ وغیرہ میں داخل ہوتے ہیں تو تمام مناظر یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو طبیعت مکدر کردینے والی گندگی سے ایسی نجات ملتی ہے جو روح کو تسکین پہنچاتی ہے۔ پھر شاہراہوں پر ویسا بے ہنگم پن دکھائی نہیں دیتا جس کا مشاہدہ ہمیں مذکورہ تینوں ممالک میں کثرت سے ہوتا ہے۔ معلوم نہیں اس خطے کو کسی بزرگ کی بددعا ہے یا ہم معاشرتی اعتبار سے اپنے رہن سہن میں مثبت تبدیلیاں لانا ہی نہیں چاہتے۔ اگر ایسی کوئی بددعا ہے تو اُس کا اثر ہم پر بہت زیادہ ہورہا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی معاشرے کی مجموعی حالت کا اندازہ لگانا ہوتو اُس کی شاہراہوں پر رواں دواں ٹریفک کا مشاہدہ کرلیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ہماری معاشرتی حالت کس سطح تک پہنچ چکی ہے۔ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ یہ کیسی انتہا ہے کہ ہمیں اپنی جانوں کی پروا ہے نہ اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کی۔ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟جھوٹ بولنا، ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانا‘ جہاں جی چاہے گاڑی پارک کردینا‘ اگر کوئی کسی غلط بات سے ٹوکے تو اُس کے ساتھ جھگڑا کرنا‘جس کے ساتھ کوئی اختلاف ہو جائے تو اُسے برے برے ناموں سے پکارنا‘ جگہ جگہ گندگی پھیلانا اور پھر صفائی کے ذمہ دار اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانا؟
ہر طرف جھوٹ کا ایسا دورہ دورہ ہے کہ جس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ اگر سیاسی میدان پر نظر دوڑائیں تو صبح سے لے کرشام تک‘ سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔ مارکیٹوںمیں تاجر اور خریدار (الّا ماشاء اللہ) ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی تگ ودو میں مصروف نظر آتے ہیں۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ پورے دھڑلے سے گلی کوچوں میں پھینکا جاتا ہے‘ جگہ جگہ تجاوزات نے شہروں کے نقشے ہی بگاڑ دیے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں طاقت اور اختیار آگئے‘ سمجھ لیجئے کہ وہ وقت کا فرعون بن گیا ہے۔ فطرت کا مگر اپنا نظام ہے اور جو اِس کی پیروی کرے گا‘ وہی آگے بڑھے گا۔ جو طریقے ہم نے اپنا رکھے ہیں‘ کیا یہ کسی بھی طرح دنیا میں آگے بڑھنے کی راہ سجھا سکتے ہیں۔ اگر ہم کچھ اور نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی معاشرت میں تو بہتری لاسکتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ یہاں تو کوشش کرکے چہروں پر سنجیدگی بلکہ سفاکیت طاری کی جاتی ہے تاکہ دوسروں میں خوف پیدا ہو۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ راستے کھلے رکھو تاکہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو‘ اِس حوالے سے اگر ہم اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں تو خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ قرار دیا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے‘ اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ نصف ایمان سے محروم ہے۔ کوئی ایک رونا ہو تو رویا جائے‘ یہاں تو اب جیسے معاشرت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ اگر ہماری معیشت کمزور ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے‘ گندگی نہ پھیلانا تو ہمارے بس میں ہے۔ مانا کہ یہاں غربت ہے لیکن کسی کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنے میں تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اگر معیشت پر ہمارا کنٹرول نہیں تو ہم کم از کم اپنی معاشرت کو تو بہتر بنا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں