"FBC" (space) message & send to 7575

جب انتہاپسندی کو راستہ ملتا ہے

1991ء میں بھارتی پارلیمنٹ عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون پاس کرتی ہے۔ یہ قانون کہتا ہے کہ بھارت میں تمام عبادت گاہوں کی وہی حیثیت برقرار رہے گی جو 15 اگست 1947ء کو تھی۔ اِس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس قانون کی منظوری کے بعد کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔ بھارت کا یہ قانون کہتا ہے کہ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ کوئی موجودہ مذہبی مقام کسی دوسرے کے مذہبی مقام کو تباہ کرکے بنایا گیاہے‘ تو بھی اِس کی موجودہ حالت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اِس قانون میں پہلا بڑا شگاف ایودھیا کی بابری مسجد کے کیس میں سامنے آیا۔ بابری مسجد کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے اس قانون ہی کو پلٹ کر رکھ دیا۔ اِس کی توضیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ دراصل ایودھیا تنازع آزادی سے پہلے سے ہی چل رہا تھا‘ لہٰذا مذکورہ قانون کا اطلاق بابری مسجد کے کیس پر نہیں ہوتا تھا۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو‘ لیکن بابری مسجد کیس کا فیصلہ آنے کے بعد بھارت میں مذہبی انتہا پسندوں کو حوصلہ ملا جس کے نتائج اب بہت تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب کچھ ایسا ہی فیصلہ گیان واپی مسجد کے حوالے سے بھی جلد سامنے آنے والا ہے جس کا کیس اس وقت زیرِسماعت ہے۔ گیان واپی مسجد بھارتی ریاست اُترپردیش کے شہر وارانسی میں واقع ہے جسے اورنگزیب عالمگیر نے 17ویں صدی میں تعمیر کرایا تھا۔ کچھ شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ مسجد جلال الدین اکبر کے دور یا اس سے بھی پہلے سے موجود تھی۔ اِس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر نے اِس مسجد کی تعمیرِ نو کرائی ہوگی۔ بعض ہندو مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ مسجد 'کاشی وشوناتھ مندر‘ کو گرا کر بنائی گئی تھی۔ اب اِس تاریخی مسجد کے حوالے سے نیا تنازع یہ ہے کہ اِس کے وضو خانے سے ایک ایسی چیز ملی جس کی بنا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ اِس جگہ پر کبھی مندر ہوا کرتا تھا۔ یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد عدالت کے حکم پر مسجد کے وضوخانے کو سیل کیا جاچکا ہے۔
اِس کے ساتھ ساتھ قطب مینار، تاج محل اور متھرا کی تاریخی عیدگاہ کے حوالے سے بھی ایسے ہی تنازعات اُٹھائے جاچکے ہیں کہ یہ سب مقامات ہندوؤں کے مندر گرا کر تعمیر کیے گئے تھے۔ اندازہ لگایئے کہ جب انتہاپسندی کو ایک مرتبہ راستہ مل جاتا ہے تو پھر یہ کس طرح سے اپنے قدم جماتی ہے۔ دنیا کی شاندار عمارت‘ تاج محل پر بھی سوالات اُٹھائے جاچکے ہیں اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ ایسا سلسلہ شروع ہوجائے تو پھر کچھ نہ کچھ ہوکرہی رہتا ہے۔ بھارتی انتہاپسندوں کا دعویٰ ہے کہ تاج محل متعدد مندروں کو گرا کر تعمیر کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ تاج محل کی بنیادوں میں واقع 22کمرے اِس کی تعمیرکے بعد سے مسلسل بند ہیں۔ گزشتہ دنوں اِن کمروں کو کھلوانے کے لیے الہ آباد ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔ دورانِ سماعت عدالت کی طرف سے درخواست گزار کی سخت سرزنش کی گئی اور کہا گیا کہ یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے تاریخ کے بارے میں پڑھ کر آئے اور اگر ممکن ہو توتاریخ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرے تاکہ اسے کچھ علم حاصل ہوسکے۔ عدالت نے فی الوقت تو زیرِزمین واقع کمرے کھلوانے کی درخواست مسترد کردی ہے لیکن اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ بھی ایسی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں گی؟تاج محل کے بارے میں ایسی کوشش پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ برس بھی ایک انتہاپسند ہندوتنظیم نے تاج محل پر اپنا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی تھی۔ ایسی ہی ایک کوشش کے دوران تاج محل کو ''پاک‘‘ کرنے کیلئے اِس کے اندر اور اردگرد گنگا کے پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا گیا اور یہ کوششیں ہنوز جاری ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے کیا جارہا ہو لیکن اِس کے اثرات بہرحال ذہنوں کو متاثر کررہے ہیں۔ اِسی طرح قطب مینار بھی انتہاپسندوں کے نشانے پر ہے۔ یہ میناردہلی کے پہلے مسلم حکمران قطب الدین ایبک نے ہندوؤں کو شکست دینے کے بعد تعمیر کرایا تھا۔ 1192ء میں تعمیر ہونے والا یہ مینار بھارت کی سب سے نمایاں اور مقبول عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل قطب مینار کی بلندی73 میٹر یا 240 فٹ ہے‘ اس کی کل 379 سیڑھیاں ہیں۔ اس مینار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو اور مسلم نقش نگاری کے بہترین نقوش ملتے ہیںجو دہلی کی تاریخ کی اہم ترین باقیات ہیں۔
اِس کی تعمیر کے آٹھ‘ نو سو سال بعد‘ اب بھارتی عدالتوں میں یہ درخواستیں گردش کررہی ہیں کہ منہدم کیے جانے والے مندروں کی بحالی کے احکامات جاری کیے جائیں۔ اِس پر ایک عدالت کی طرف قرار دیا گیا ہے کہ بھارت پرمختلف ادوار میں کئی حکمرانوں کی حکومت رہی‘ ماضی میں کی گئی غلطیوں کی بنیاد پر حال اور مستقبل کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ماتحت عدالت کی طرف سے عرضی مسترد کیے جانے کے بعد اب مندروں کی بحالی کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا گیا ہے۔ ایک درخواست یہ بھی زیرِ گردش ہے کہ ہندوؤںکو قطب مینار میں پوجا کی اجازت دی جائے۔ اِس پر عدالت کی طرف سے ریمارکس آئے کہ اگر دیوی‘ دیوتا آٹھ سوسالوں سے عبادت کے بغیر رہ رہے ہیں تو اب بھی اُنہیں ایسے ہی رہنے دیں۔
کچھ ایسی ہی صورت حال متھرا کی تاریخی عید کے گاہ کے حوالے سے بھی سامنے آرہی ہے۔ بابری مسجد کو رام کی جنم بھومی قرار دیا گیا تھا تو متھرا کی عید گاہ کو کرشن کی جنم بھومی قراردیا جارہا ہے۔ تاریخی متھرا شہر دہلی سے تقریباً 145 اورآگرہ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دعویٰ ہے کہ مغل دور میں شری کرشن کی جنم بھومی پر قبضہ کرکے یہاں عید گاہ تعمیر کی گئی تھی۔ اِس کیلئے بھی اورنگزیب عالمگیر ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ اب انتہا پسند تنظیموںکا مطالبہ ہے کہ شاہی عید گاہ کی تقریباً 38 ایکٹر اراضی اُن کے حوالے کی جائے تاکہ عید گاہ کو منہدم کرکے وہ یہاں مندر بحال کر سکیں۔
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں‘ اس وقت پورے بھارت میں یہی کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ کبھی حجاب کے نام پر ہنگامے تو کبھی گائے کے نام پر قتل و غارت گری۔ کبھی مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھنے کی ضد تو کبھی لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پرپابندی کے مطالبے۔ اِس کے ساتھ مسلم شناخت والی بے شمار عمارتوں کے حوالے سے یہ دعوے کہ اِنہیں مندروں کو مہندم کرکے تعمیر کیا گیا‘ لہٰذا اِن کی قدیم حیثیت بحال کی جائے۔ اگرچہ بھارتی قانون یہ کہتا ہے کہ مذہبی مقامات کی موجودہ ہیئت کو کسی صورت بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا لیکن جب انتہاپسندی کے ریلے آتے ہیں تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اِس وقت بھار ت میں دکھائی دے رہی ہے۔ اِسی تناظر میں اب بھارت میں یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ مذہبی مقامات کا تحفظ کرنے والے قانون ہی کو ختم کردینا چاہیے۔ گویا جلد یا بدیر‘ قانون کے خاتمے پر بھی کام شروع ہوسکتا ہے۔ اگر یہ قانون ختم کیا جاتا ہے تو مسلمانوں کی کم از کم 25ہزاروقف جائیدادوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ تمام صورتحال پوری طرح سے واضح کررہی ہے کہ مستقبل میں بھارت کے اندر کیا صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
بی جے پی نے سیاست میں ہندو کارڈ استعمال کرکے جو شاندار فوائد حاصل کیے ہیں‘ اِن کی روشنی میں بھارت کے اندر انتہاپسندی کے فروغ کا سلسلہ مستقل بنیادوںپر جاری رہنے کی توقع بے جا نہیں۔ ایسے میں اِس بات کو بھی مکمل طور پر فراموش کردیا گیا ہے کہ جب کسی بھی حوالے سے انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے تو پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اِس کا راستہ روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اقتدار کے لالچ میں فی الحال تو مذہبی کارڈ بہت جوش و خروش سے استعمال کیا جارہا ہے اور فی الحال اس کی زد میں صرف بھارتی مسلمان آ رہے ہیں مگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ صورت حال یونہی برقرار رہی تو آگے چل کر بھارت کے حالات پورے خطے پر اپنے شدید منفی اثرات مرتب کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں