"FBC" (space) message & send to 7575

ہمارے معاشرتی رویے

جس وقت پنجاب میں شادی کی تقریبات رات دس بجے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ تب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تب اس فیصلے پر کتنی لے دے ہوئی تھی۔ شادی ہالز کے مالکان تو ایک طرف‘ عوامی سطح پر بھی اس فیصلے پر کافی تنقید کی گئی تھی۔ یہ تنقید یا مخالفت بہت حد تک متوقع تھی۔ جہاں رات دو‘دوبجے باراتیں جانے کا رواج پڑ چکا تھا وہاں اس فیصلے کی مخالفت اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ البتہ تمام تر مخالفت کے باوجود حکومت نے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کا تہیہ کیا۔ شروع شروع میں اس قانون کی کافی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں لیکن حکومتی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی ہفتوں میں سب کو معلوم پڑ گیا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ہی عافیت ہے۔ آج یہ عالم ہے کہ بارات وقت پر پہنچتی ہے‘ مہمان بھی اس اعتماد کے ساتھ تقریب میں آتے ہیں کہ دس بجے تو فراغت مل ہی جائے گی۔ گویا سب مناسب وقت پر شادی کی تقاریب میں شرکت کر کے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ آج بیشتر حلقوں میں اس فیصلے کی تحسین کی جاتی ہے اور اسے شاندار حکومتی اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی بات نہیں کہ شروع میں لوگ اس کے مثبت نتائج سے بے خبر تھے‘ لیکن لوگ اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ وہ خود ساختہ فطرت‘ جس کے زیراثر ہم نے اپنے لیے بے شمار مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ یہی صورتحال شادیوں میں ون ڈش کے فیصلے کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آئی۔ کیا اس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہو سکتی ہے کہ اس ایک فیصلے سے نچلے اور متوسط طبقے کو خاصا ریلیف ملا ہے۔ اس کے باوجود بے شمار احباب کو اس بات کی فکر لاحق ہوتی تھی کہ وہ اپنی دولت کی نمود و نمائش کیسے کریں گے۔ یقین کیجئے‘ تب ہمیں اکثر اپنے عزیز و اقارب کی طرف سے ایسی فرمائشیں موصول ہوتی تھیں کہ اگر شادی کی تقریب کچھ زیادہ دیر کے لیے جاری رکھنا ہو تو کیا کیا جائے؟ اکثر یہ مطالبہ ہوتا تھا کہ آپ کی ڈی سی صاحب سے علیک سلیک ہے‘ ایک آدھ اضافی ڈش رکھنے کی اجازت ہی دلوا دیں۔ یہ تھے ہمارے معاشرتی رویے۔
ایسے ہی رویوں کی ایک قسط دکانیں رات کو جلد بند کرنے کے فیصلے کے ردعمل کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس وقت ہمارا ملک توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کررہا ہے۔ اس بحران کے تناظر میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کمرشل مارکیٹیں،جنرل سٹورز، شاپنگ مالز، گودام اور تھوک و پرچون کی دکانیں رات نو بجے بند کردی جائیں۔ ہوٹلوں، ٹیک آویز، تنوروں اور سینما ہالز وغیرہ کی بندش کے لیے رات ساڑھے دس بجے کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ پٹرول پمپوں، میڈیکل سٹورز، ہسپتالوں، دودھ دہی کی دکانوں اور ٹائر پنکچر شاپس کو اس پابندی سے استثناحاصل ہو گا۔ اب آپ خود یہ جمع تفریق کرلیجئے کہ اس میں نقصان کیا ہے۔ تاجروں کا موقف ہے کہ اس سے اُن کے کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔ یعنی مارکیٹیں جلدی بند ہونے سے گاہک کم تعداد میں آئیں گے۔ بظاہر تو اس دلیل میں کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جس گاہک نے جو کچھ خریدنا ہوتا ہے‘ و ہ اسے خرید کر ہی رہتا ہے۔ ممکن ہے کہ ابتدائی دنوں میں کچھ مسئلہ ہو لیکن جلد ہی گاہک بھی مارکیٹ ٹائمنگ کی پابندی کرنے لگیں گے۔ مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ایسے ملک میں‘جہاں سال کے بیشتر اوقات سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمکتا رہتا ہے، وہاں شاپنگ مالز دوپہر کے وقت کھلنا شروع ہوں اور رات گئے تک کاروبار جاری رکھا جائے۔ یہ سچ ہے کہ کسی بھی بحران کو حل کرنے کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بیشتر صورتوں میں حکومتیں بحرانوں کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں لیکن ہمیں خود بھی تو اپنا جائزہ لینا چاہے۔ ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ ہم معاشرے میں بہتری لانے کے لیے کیا کررہے ہیں۔ کیا اس حقیقت سے کسی کو انکار ہوسکتا ہے کہ عوامی تعاون کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ بالفرض اگر حکومت توانائی کے بحران کو حل کرنے میں ناکام ہے تو ان ممالک میں‘ جن کو توانائی بحران کا بھی سامنا نہیں ہے‘ وہاں کاروبار شام ڈھلے بند کر دینے کو کیا نام دیا جائے گا؟ ہم نے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہی صورتحال دیکھ رکھی ہے لیکن یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔
مختصراً یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں ہم صرف گفتار کے غازی ہیں۔ کہنے کی حد تک ہم سب ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو پھر سبھی آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ تاجر برادری کا طرزِ عمل کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ آج تک یہ خود کو ٹیکس نظام میں لانے کی مزاحمت کرتے چلے آئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حکومت نے پچاس ہزار روپے کی خریداری پر شناختی کارڈ کا نظام لاگو کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔ بیشتر دکاندار خریداری پر کچی رسیدیں جاری کرتے ہیں جن سے حکومت کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ شاید اس میں بھی قصور حکومتوں ہی کا ہے جو ذرا سے احتجاج پر گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ ہمارے بہت سے دوست تاجر پیشہ ہیں اور بیشتر ہر وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں کہ ہمارے کاروبار تباہ ہوچکے ہیں لیکن دوسری جانب عملاً وہ ہر سال گاڑی بدلتے رہتے ہیں۔ ہرسال ان کے آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ البتہ جہاں ملک و قوم کے مفا د میں قربانی دینے کی بات آتی ہے‘ وہاں مزاحمت شروع کردی جاتی ہے۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ آج ہم اپنی بیشتر مارکیٹوں سے اس اعتماد کے ساتھ خریداری نہیں کرسکتے کہ ہم جو کچھ خرید رہے ہیں وہ اصلی ہے۔ ہمیں یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ ہم سے مناسب قیمت وصول کی جارہی ہے یا ہمیں لوٹا جارہا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی بھی ملک میں دومتوازی نظام کیسے چل سکتے ہیں ۔
اب اگر حکومت نے کمرشل مارکیٹیں رات نوبجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر پوری قوت سے عمل کرانا چاہیے۔ یقینا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ کاروبار مناسب وقت پر بند ہوں۔ اس سے نہ صرف توانائی کی بچت ہوگی بلکہ فیول کے درآمدی بل میں بھی کمی آئے گی جو پاور ہائوسز کو چلانے کے لیے درآمد کیا جاتا ہے۔ اگر شادی بیاہ کی تقریبات رات دس بجے تک ختم کرنے یا پھر شادیوں میں ون ڈش کے فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جاسکتا ہے تو دکانیں بھی مناسب وقت پر بند کرائی جاسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ بحرانوں کے اس دور میں ہم سب کم از کم وہ اقدامات تو کریں جو ملک کی بہتری کے لیے ہماری طرف سے کیے جاسکتے ہیں۔ جس دن ہم نے صحیح معنوں میں ذمہ داری شہری ہونے کا ثبوت دینا شروع کر دیا، اُس دن سے ہمارے مسائل میں کمی آنا شروع ہوجائے گی۔ پورے شہر کی صفائی کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن ہم اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکنے سے تو گریز کر ہی سکتے ہیں۔ ہمارا یہ اقدام بھی شہر کی صفائی میں ہمارا حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دکاندار حضرات رات کو دکانیں بند کرنے سے پہلے سارا کوڑا کرکٹ سڑک ہی پر پھینک دیتے ہیں اور پھر صبح آکر یہی لوگ شور مچا رہے ہوتے ہیں کہ مارکیٹوں میں گندگی بہت ہے۔ مارکیٹیں بند ہونے کے بعد کبھی وہاں سے گزر ہو تو وہ کوڑے کرکٹ سے اَٹی دکھائی دیتی ہیں۔مان لیا کہ انتظامیہ اور ادارے اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دے رہے لیکن کم از کم ہم خود توذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ یقینا توانائی بحران حل کرنا ہمارے بس میں نہیں لیکن ہم کچھ نہ کچھ توانائی بچانے کی کوشش تو کرسکتے ہیں۔ کم از کم یہ تو کرہی سکتے ہیں کہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے‘ بجائے اس کے کہ ہروقت یہ شورمچاتے رہیں کہ حکومت یہ نہیں کررہی، حکومت وہ نہیں کررہی‘ کم از کم ہم اپنے معاشرتی رویوں میں تو بہتری لاہی سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں