"FBC" (space) message & send to 7575

یہی ہماری روایت ہے

گیارہ پارلیمانی جماعتی اتحاد کے برسرِاقتدار آنے کے بعد توقع تھی کہ ملکی معاملات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ کہا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کی دیر ہے‘ تمام مسائل چٹکیوں میں حل ہوجائیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہ قرار دیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کی دیر ہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ اِس مرتبہ بھی حسبِ روایت عوامی سطح پر ایسے دعووں کو پذیرائی بخشی جانے لگی۔ عوام کی طرف سے اس اتحاد سے توقعات وابستہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تمام ترملکی مسائل کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو دنوں کی بات قرار دیا گیا، ڈالر کے مقابلے میں مسلسل کمزور ہوتے ہوئے روپے کی قدر میں اضافے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی ایسا ہی بیانیہ بنایا گیا تھا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو اُنہیں مقتدر قوتوں کا ہرممکن تعاون حاصل رہا۔ حکومت کی بیشتر ذمہ داریاں اداروں نے اُٹھا رکھی تھیں کہ شاید حکومت کچھ ڈِلیور کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ افسوس کہ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا۔ حکومت اِس سے آگے بڑھ ہی نہ پائی کہ اُس کے خلاف مقدمہ در ج کر دو‘ اُسے جیل میں بند کر دو،‘ وغیرہ وغیرہ۔ اِس تمام عرصے میں حکومت زمین کے بجائے ٹویٹر پر اپنی کارکردگی دکھاتی نظر آئی۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا تو ایک مرتبہ پھر تبدیلی کا ڈول ڈالا گیا۔ ہر لمحہ ایک دوسرے کے لتے لینے والی جماعتیں ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں اور اِن جماعتوں کے اتحاد نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی تیاری شروع کر دی۔ حکومتی اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو رخصت کیا گیا اور اپوزیشن اتحاد مسندِ اقتدار پر براجمان ہو گیا۔
نئی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کی دیر تھی کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والی کہاوت یاد آ گئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا۔ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں لگ بھگ سو روپے فی لٹر کا اضافہ ہوچکا ہے۔ پٹرول 150 روپے فی لٹر سے 249 روپے فی لٹر پر پہنچ چکا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافے کا عمل جاری ہے۔ بجلی کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے۔ ستم بالائے ستم‘ بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا عفریت قابو میں نہیں آرہا۔ گھنٹوں بجلی کی بندش روز کا معمول بن چکا ہے۔ اِس کے علاوہ بجلی کے بلوں میں اضافی رقم شامل کرنے کی شکایات بھی عام ہیں۔ مہنگائی کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے اور یہ گراف ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ معیشت کی بات کریں تو اِسے بہتر بنانے کے لیے ہم پوری دنیا میں کشکول اُٹھائے گھوم رہے ہیں لیکن کوئی ہمیں کچھ دینے پر تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اِس وقت ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح ہمیں آئی ایم ایف سے ایک؍ دوارب ڈالرکی قسطیں مل جائیں‘ بھلے اِس کے لیے عوام کوہی کیوں نہ قربان کرنا پڑ جائے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ ٹیکسز کی شرح میں بے پناہ اضافہ کیا جاچکا ہے‘ نتیجتاً مہنگائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اتنی قربانیوں کے باوجود ہمیں کہیں سے ڈالرز نہیں مل رہے۔ یہ ہے ہماری حالت لیکن دعوے ایسے ہیں کہ جیسے چاند پر کمند ڈالی جا رہی ہے۔ اب حکومت کی جانب سے لاکھ جواز پیش کیے جائیں کہ یہ سب سابق حکومت کی غلطیوں کا خمیازہ ہے، سوال بہت سیدھا اور صاف ہے کہ اگر حالات اتنے ہی خراب تھے تو پھر تبدیلی کا ڈول ڈالنے کی ضرورت کیا تھی؟ جنہوں نے یہ حالات پیدا کیے تھے، اُنہیں بھگتنے دیتے۔ کیوں آپ نے اپنے کندھے پیش کیے؟ پچھلی حکومت بھی برسرِاقتدار آنے کے بعد سب کچھ سابقہ حکومتوں پر ڈال رہی تھی‘ اگر آپ نے بھی یہی کچھ کرنا ہے تو تبدیلی کا فیصلہ کیوں کیا؟
اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ جن کے حوالے سے ہم دعوے کرتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے‘ اُنہوں نے ہمیں گلوبل ڈویلپمنٹ کانفرنس میں شرکت کی دعوت تک نہیں دی۔ اب بھلے یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہیں کہ برکس کے ایک رکن ملک نے ہمیں مدعو نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا لیکن یہ قابلِ قبول جواز نہیں ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اتنی مضبوط ہونی چاہیے تھی کہ ہمیں اِس کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ہرمعاملے میں بلند بانگ دعوے کرنے کے عادی ہیں۔ اگر اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں تو کوئی ایک بھی ایسا ہمسایہ دکھائی نہیں دیتا جس کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی سطح پر ہوں۔ اِس حوالے سے کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اعتراض کیا جاتا ہے کہ اِن معاملات پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ اتناتو بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ دوستی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئے ہم بہت کچھ فراموش کر دیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ مفادات کو مدنظر رکھ کر استوار کیے جاتے ہیں۔ یہ ہرریاست کا حق ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے لیکن ہمارا معاملہ سب سے جدا دکھائی دیتا ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ ہروقت مانگنے کی عادت نے ہمارے قومی تشخص کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ آپ خود دیکھ لیجئے‘ آج کوئی ایسا در باقی نہیں رہ گیا جہاں دستک نہ دی گئی ہو لیکن لگتا ہے کہ اِس مرتبہ سب نے ایکا کر رکھا ہے۔ اب ہم تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ ایسے ہوا، ویسے ہوا جس کی وجہ سے یہ حالات پیش آئے۔ یہ تاویلات تو ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں۔ ہربار حکومت کی تبدیلی پر ایسی تاویلات کی رفتار مزید تیز ہوجاتی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اب محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب معاملات خود بخود چل رہے ہیں جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں۔ جو اِس وقت برسراقتدار ہیں‘ اِن کے بدعنوان ہونے کا خوب شور مچایا گیا تھا لیکن آج وہی ''کرپٹ‘‘ حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ جب انہیں ہی واپس لانا تھا تو پھر گھر بھجوانے کی کیا ضرورت تھی۔جو کل رخصت ہوئے‘ آج اُن کی کرپشن کے قصے عام ہو رہے ہیں۔ کبھی آڈیو ٹیپس لیک ہورہی ہیں تو کبھی دستاویزات کی بنیاد پر دعوے کیے جارہے ہیں کہ جانے والے بدترین کرپشن کرتے رہے۔ جب موجودہ حکومت کو ہٹانا مقصود ہوگا تو ایک مرتبہ پھر اِن کی بدعنوانی کے قصے عام ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اِسی گھن چکر میں وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
ابھی تین مہینے بھی نہیں گزرے کہ حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہو چکی ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی اپنے تحفظات کھلے عام ظاہر کررہی ہے۔ حسبِ روایت ایم کیو ایم کے بینچوں سے بھی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پراپوزیشن سیٹوں پر بیٹھنے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ حکومتی اتحاد کی دوبڑی جماعتوں‘ مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے مابین بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔ ویسے یہ سب کچھ کسی حد تک متوقع بھی تھا کیونکہ اتنی جماعتوں کے اتحاد کا بالآخر یہی نتیجہ نکلنا ہے‘ جس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف لوڈشیڈنگ، مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور کمزور معیشت جیسے مسائل حکومت پر الگ سے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ حکومت کی تبدیلی سے صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ کل کے کرپٹ آج ایماندار بن چکے ہیں اور کل کے ایماندار آج کے کرپٹ۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی اِسی طرح چلتا رہے گا کہ یہی ہماری روایت ہے۔ اس سارے منظر نامے میں اگر کسی کا کوئی نقصان ہو رہا ہے‘ اگر کوئی طبقہ مسلسل پستا جا رہا ہے تو وہ عوام ہیں جن کا نہ پہلے کوئی پرسانِ حال تھا اور نہ موجودہ حکومت ہی سے خیر خواہی کی کوئی توقع ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں