"FBC" (space) message & send to 7575

ہم اپنا اعتبار کھوچکے

کسی سے کوئی گلہ ہے نہ کوئی شکوہ کہ یہ سب کچھ ہمارا پنا کیا دھرا ہے۔ آج اگر دنیا ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تو اِس کے لیے قصور وار صرف اور صرف ہم خود ہیں۔ اِس کے لیے دوسروں کو الزام دے کر خود کو دھوکے میں مت رکھیں۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا حربہ بہت پرا نا ہوچکا ہے۔ فلاں ملک ہمارے معاملات میں مداخلت کررہا ہے‘ فلاں ممالک ہماری ترقی نہیں دیکھنا چاہتے‘ ایسے بیانات سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ بات بہت سیدھی اور صاف ہے کہ یہ سب کچھ جو آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے‘ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کے باعث اپنا اعتبار تک کھو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار جانیں قربان کی ہیں تو دنیا ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکال دیتی ہے۔اس وقت ہماری معاشی حالت طوفانوں اور بحرانوں کی زد میں ہے اور ہم عالمی مہنگائی کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ تسلیم کہ عالمی سطح پر مہنگائی ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے بلند سطح پر ہے مگر یہ جو ڈالر کی پرواز اور روپے کی بے قدری ہے‘ اس کا تعلق عالمی مہنگائی سے ہے؟ یہ تو ہماری ملکی سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کے باعث ہے۔ یہ جو سیاسی محاذ پر دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے‘ اِس کے لیے کیا گوئٹے مالا کو قصوروار ٹھہرایا جائے؟کیا ہمارے اربابِ اختیار نہیں جانتے کہ ملکی معیشت وینٹی لیٹر کی سطح پر پہنچ چکی ہے لیکن اِس کے باوجود کوئی بھی آپس میں مل بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ نہ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی وژن۔ بس اندھیرے میں سبھی ٹامک ٹوئیاں مارتے چلے جا رہے ہیں۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر جیسا معاملہ ہے اور نقصان ملک و قوم اور معیشت کو پہنچ رہا ہے۔
یہ اِنہی حالات کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی ادارہ ایسا نہیں رہا جو ان حالات میں آگے بڑھ کر معاملات کو سنبھال سکے۔ آج ہم چند بلین ڈالرز کے لیے ہرطرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے سامنے بچھے بچھے جا رہے ہیں لیکن یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ معاشی اُمور کے جس بھی ماہر سے بات ہوئی‘ سب کی طرف سے یہی کہا گیا کہ سابق حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے جو انحراف کیا اُس کے باعث آئی ایم ایف مزید اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جانے والے جو مرضی کہتے رہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ جب پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا تو ہمارے ''دانشورحکمرانوں‘‘نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا۔ اس وقت ہی سیاسی نبض شناسوں نے بتا دیا تھا کہ حکومت کو اِس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ اب چل چلاؤ کا موسم آن پہنچا ہے۔ یہ اقدام کرتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں کی گئی کہ اِس سے ملک کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ اِس سے پہلے ریکوڈک کے معاہدے کے حوالے سے جو کچھ ہوا، اُس کے باعث بھی پوری دنیا میں ہماری سبکی ہوئی۔ اِس معاہدے کی خلاف ورزی کے انتہائی منفی نتائج بھگتنا پڑے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن معاہدے کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ جب ایران نے اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن بچھانے کا عمل مکمل کرلیا تو تب کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔ ساتھ ہی خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ کاروباری ڈیل کرنے والے ممالک پربھی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ہم ٹھہرے ہمیشہ کے مجبور‘ سو فوراً ہی اس منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہماری معاشی ابتری ہمیں امریکا کو ناراض کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ کوالالمپور سمٹ والا معاملہ بھی سب کو یاد ہوگا جب خوب زور و شور سے سہ ملکی اتحاد کا ڈھول پیٹا گیا تھا، نئے ٹی وی چینل کی نوید سنائی گئی تھی، ملائیشیا میں ہونے والی سمٹ میں شرکت کی ہامی بھری گئی تھی مگر بعد میں اپنی مجبوری ظاہر کردی گئی کہ کانفرنس میں شرکت کرنا ممکن نہیں۔
ہوتے ہوتے معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ انتہائی قریبی دوست چین نے رواں سال برکس کانفرنس میں گلوبل ڈویلپمنٹ پرہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت تک نہیں دی۔ اِس کانفرنس میں دودرجن سے زائد ایسے ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جو برکس کے رکن نہیں۔ چین کے اِس اقدام پر عالمی سطح پر بھی حیرت کا اظہار کیا گیا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا سب سے بڑا حصہ پاکستان میں بن رہا ہے۔ اِس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے مابین انتہائی قریبی اور شراکت دار تعلقات ہیں لیکن اِس کے باوجود مذاکرے میں شرکت کی دعوت نہ مل سکی۔ اِس پر دفتر خارجہ نے یہ موقف ا ختیار کیا کہ چین نے برکس کے ایک ممبر ملک (بھارت) کے کہنے پر ہمیں مذاکرے میں شرکت کی دعوت سے گریز کیا۔ جان رکھئے کہ یہ صورتِ حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ اِس کے لیے ہم نے دہائیوں تک محنت کی ہے۔ وعدہ خلافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس کے باعث ہوتے ہوتے اب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی ہماری بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے کہ دنیا بھر میں سبز پاسپورٹ کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہی دنیا کے مختلف ممالک کے پاسپورٹس کی عالمی رینکنگ کی فہرست جاری ہوئی ہے۔ کیا یہ بات کسی دھچکے سے کم ہے کہ اس فہرست میں صرف تین ممالک ایسے ہیں جن کے پاسپورٹس ہمارے پاسپورٹ سے بھی کمزور ہیں۔ یہ تین ممالک عراق، شام اور افغانستان ہیں‘ یعنی پاسپورٹ کے اعتبار سے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ان جنگ اور شورش زدہ ممالک کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاسپورٹس کی عالمی رینکنگ میں پاکستان 109ویں اور بھارت 87 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر صرف 32 ملکوں میں ویزا فری انٹر ی مل سکتی ہے جبکہ بھارت کے شہری دنیا کے 60 ممالک میں ویزافری انٹری لے سکتے ہیں۔ 2006ء وہ آخری سال تھا جب ہمارا پاسپورٹ79ویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہواتھا‘ اس کے بعد سے ہرگزرتے سال پاکستان کے پاسپورٹ کی بے قدر ی بڑھتی گئی اورآج یہ نیچے سے چوتھے نمبر پر آچکا ہے۔
یہ سچ ہے کہ جغرافیائی طور پر ہمارا ملک انتہائی اہم خطے میں واقع ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت نے اسے ہرطرح کے موسموں اور وسائل سے نوازا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ فخر ہے کہ ہم آٹھ ہزار سال قدیم ثقافت کے وارث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود دنیا میں ہماری اتنی بے قدری کیوں ہے؟کیوں دنیا والے ہماری بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اِس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے‘ وہ یہ کہ ہم اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ ساتھ ہی یہ تصور بھی کرلیتے ہیں کہ دنیا والے حقائق کا تجزیہ کرنے کے بجائے ہمارے بیانات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں گے۔اُنہیں کیا پتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اِس حالت کو پہنچ جانے کے باوجود ہم اپنے قول وفعل میں پائے جانے والے تضاد کو دور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک ہی ملک میں مختلف نظام چل رہے ہیں۔ جس کے پاس جتنی طاقت ہے وہ اُتنا ہی خودکو قانون سے ماورا خیال کرتا ہے۔ ہمارا ملک ایسے ایسے تجربات سے گزرا اور گزر رہا ہے کہ خدا کی پناہ! یہ ایسی تجربہ گاہ بن چکا ہے کہ جہاں ہر ''سائنسدان‘‘ نت نئی ایجادات کو آزماتا رہتا ہے۔ ہمارے اربابِ بست و کشاد قرض کی مے لے کر پیتے ہیں اور دعوے کرتے ہیں خوشحالی کے۔ پشاور سے لے کر کراچی تک ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ عوام رو رہے ہیں۔ دیگر ممالک ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن ہمارا معاملہ وہی چال بے ڈھنگی سی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘ والا ہے اور افسوس کہ بہتری کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں