"FBC" (space) message & send to 7575

یہ اُن کا حال ہے جو…

صداقت اور امانت کے سرٹیفکیٹ کی قلعی کھلی ہے تو بے شمار دل بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ آٹھ برسوں سے لٹکا ہوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ بالآخر تحریک انصاف کے گلے کی پھانس بن کر سامنے آ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں اِس کیس کی سماعت کے دوران بھرپور کوشش کی گئی کہ کسی طرح اِس کیس سے جان چھوٹ جائے۔ اِس مقصد کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ آٹھ برسوں کے دوران 30 مرتبہ التوا مانگا گیا۔ چھ بار الیکشن کمیشن کے دائرۂ سماعت کو چیلنج کیا گیا اور اِسی دوران تحریک انصاف نے نو وکیل بھی تبدیل کیے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ وکیل تبدیل کرنے کا ایک بڑا مقصد کیس کی سماعت میں مزید وقت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ گویا صاف و شفاف سیاست کا دعویٰ کرنے والے ممنوعہ فنڈنگ کیس سے بچنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ اِس مقصد کے لیے اداروں پر شدید تنقید اور دباؤ کا روایتی حربہ بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سمیت پوری جماعت چیف الیکشن کمیشن کے پیچھے پڑی رہی۔ چیف الیکشن کمشنر تحریک انصاف کا خاص نشانہ بنے رہے لیکن الیکشن کمیشن نے کسی دبائو کے بغیر آخر کار فیصلہ سنا دیا۔ واضح رہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو خود خان صاحب نے ڈی جی پاسپورٹ کے عہدے سے ہٹا کر الیکشن کمیشن میں تعینات کیا تھا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ اُن کے احسان تلے دبے رہیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر اور پی ٹی آئی کا پہلا مسئلہ ڈسکہ الیکشن پر ہوا تھا، پھر بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن میں ٹھن گئی جس کے بعد تعلقات میں سرد مہری آتی گئی۔ الیکشن کمیشن کے پر کاٹنے کے لیے حکومت نے 10 جون 2021ء کو قومی اسمبلی سے الیکٹوریل ریفارمز بل پاس کرایا جس میں غیرآئینی شقوں کی بھرمار تھی۔ یہ بل جب الیکشن کمیشن میں پہنچا تو چیف الیکشن کمشنر نے اِس پر 28 کے قریب اعتراضات اُٹھائے۔ اِس نشاندہی پر یہ بل سینیٹ میں رک گیا اور بالآخر حکومت غیرآئینی شقیں واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ اِس کے علاوہ بھی متعدد معاملات پر حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ٹھنی رہی لیکن الیکشن کمیشن نے ہر معاملے پر قانون کو مدنظر رکھا جوپی ٹی آئی کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں زیرِسماعت تھا اور تحریک انصاف کو بخوبی اندازہ تھا کہ فیصلہ اس کے خلاف آئے گا۔ اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کو تحریک انصاف سے کوئی پرخاش ہے بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف اِس معاملے میں سراسر غلط تھی۔ یہ بات خود تحریک انصاف کے رہنما نجی محفلوں میں بھی تسلیم کرتے تھے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ جماعت کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جماعت کو خلافِ قانون فنڈنگ ہوتی رہی ہے۔ اب الیکشن کمیشن کے فیصلے نے اِس بات کو ثابت کردیا ہے۔ کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے کمیشن کے سامنے آٹھ اکاؤنٹس کی ملکیت کو تسلیم کیا جبکہ 13 اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی تھی‘ وہ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے ہی کھولے اور آپریٹ کیے تھے جن کے علاوہ تین مزید اکاؤنٹس بھی چھپائے گئے۔ فیصلے کے مطابق اکاؤنٹس کو چھپانا آئین کی دفعہ 17کی خلاف ورزی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ جو لوگ دن رات دوسروں کو بے ایمان ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے ہیں‘ وہ اپنے معاملات کو الیکشن کمیشن سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ فیصلے کے مطابق تحریک انصاف نے امریکا سے ایل ایل سی سے فنڈنگ حاصل کی۔ اِس نے عارف نقوی سے فنڈز لیے‘ ابراج گروپ، یو ایس آئی اور آئی پی آئی سے بھی رقوم وصول ہوئیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ کہاں سے کتنی رقوم وصول کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ خلافِ قانون کیا جاتا رہا اور پھر آٹھ سالوں تک اِس کیس کے فیصلے سے بچنے کے لیے پورا زور لگایا جاتا رہا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو جماعت شفافیت اور کرپشن فری سیاست کا نعرہ لگاتی ہے‘ یہ سب کچھ اس کی جانب سے کیا جاتا رہا۔ اِس سے بھی افسوس ناک بات یہ رہی کہ اِس سب کا پورے دھڑلے سے دفاع بھی کیا جاتا رہا۔ اب بھی اِس بات پر بغلیں بجائی جارہی ہیں کہ پی ٹی آئی کو کسی بھی قسم کی فارن فنڈنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا بلکہ ممنوعہ فنڈنگ پر نوٹس جاری ہوا ہے۔ یعنی کان اِدھر سے نہیں تو بازو گھما کر پکڑ لیا۔
قریب ایک دہائی قبل‘ ایک طرف تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری گئی اور دوسری طرف وہ خود بھی عوامی مقبولیت کوحاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اِس کا کرپشن کے خلاف بیانیہ بنی۔ اعلان کیا گیا کہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ نعرہ لگایا گیا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی‘ پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ ایسے ایسے سبز باغ دکھائے گئے کہ قوم کا بڑاحصہ اِن اعلانات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ یوں بھی ملک میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا تھا کہ دو سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی باریاں لگا رکھی ہیں۔ اِن کے بارے میں ملکی دولت لوٹنے کا تاثر بھی عام تھا جسے تحریک انصاف نے مزید مضبوط کیا۔ ایسے ہی عوامل کی بنا پر 2018ء میں تحریک انصاف اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد اِسے ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ ہر مشکل موقع پر اِسے مشکل سے نکالا گیا یہاں تک کہ جماعت کے بڑے برسر عام یہ کہنے لگے کہ اب اُن کے علاوہ کوئی اور چوائس موجود نہیں۔ اِسی زعم میں یہ جماعت ایک بھی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی۔ کرپشن ختم یا کم تو کیا ہوتی کہ اِس میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہونے لگی۔ اسی دوران دیوار سے لگائی جانے والی اپوزیشن جماعتیں بھی متحد ہو گئیں اور پھر حکومت تبدیل کرتے ہی بنی۔
دکھ کی بات یہ رہی کہ نہ صرف پی ٹی آئی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی بلکہ عوامی اعتماد کو بھی شدید ٹھیس پہنچا۔ تحریک انصاف کی ناکامی نے عوام کا جمہوریت اور پارلیمانی نظام پر اعتماد متزلزل کر دیا۔ اب اِسے تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد ''غیرملکی سازش‘‘ کی تھیوری کے سبب عوام نے اسے پھر شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ اِس کے باوجود کہ عدالتِ عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں ایسی کسی بھی سازش کو بے بنیاد قرار دے رکھا ہے‘ ابھی تک تحریک انصاف اِسی بیانیے کو لے کر چل رہی اور اسے مزید مضبوط کررہی ہے۔ اب الیکشن کمیشن کا ممنوعہ فنڈنگ کیس پر فیصلہ سامنے آیا ہے تو اِس آئینی ادارے کے خلاف مہم میں شدت لائی جا رہی ہے۔ مزاحمت اور تنقید کے روایتی کارڈ کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارا معاملہ تو سیدھا سادہ اور نہایت شفاف ہے مگر الیکشن کمیشن کا ادارہ حکومتی ایما پر ہمیں نشانہ بنا رہا ہے۔ اپنی غلطی کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ ہاں! پارٹی کو غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر رقوم موصول ہوتی رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو اِس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارے ہاں سیاست کے ایسے ہی چلن رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں انتخاب اُنہی سیاست دانوں میں سے کسی ایک کا کرنا ہوتا ہے جو میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ دوجماعتوں سے تنگ آئے ہوئے عوام نے تحریک انصاف کو موقع دیا تھا لیکن افسوس اِس کے معاملات بھی غیر قانونی اور غیر شفاف نکلے۔ یہی سب سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود کوئی ایک بھی ایمانداری اور شفافیت کے تقاضوں پر پورا نہیں اُتر پا رہا۔ اس سب کا نقصان پارلیمانی جمہوری نظام کو پہنچ رہا ہے جو آئے دن عوام کی بیزاری کا نشانہ بن رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں