"FBC" (space) message & send to 7575

طاقتوروں کا معاشرہ

وہ معافی کی درخواستیں کرنے کے ساتھ ساتھ جوتے بھی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ اس دوران اُس پر مسلسل تشدد بھی کیا جارہا تھا اور بار بار کہا جارہا تھاکہ جوتے چاٹتے ہوئے اُس کی زبان دکھائی دینی چاہیے۔ جوتے چاٹنے والی لڑکی دیکھنے میں کسی معزز گھرانے کی دکھائی دے رہی تھی جسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اُس پر تھپڑ اور جوتے برسائے جارہے تھے۔ جب یہ سب کچھ کرکے بھی دل نہیں بھرا تو تشدد کرنے والوں نے اُس کی بھویں تک مونڈھ ڈالی۔ کوئی شرم نہ کوئی حیا نہ کوئی قانون کا خوف۔ تشدد کرنے والوں کو تو بس فیصل آباد کے ایک بہت بڑے صنعتکار کی اہلیہ کے احکامات بجا لانے تھے۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں دکھائی دے رہا تھا جس دوران بہت سی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ وائرل ہونے والی وڈیو میں ایک آواز بار بار اُبھر رہی تھی کہ جوتوں کو زبان لگاؤ اور وڈیو میں دکھائی دینے والی لڑکی ایسا کرتی ہوئی نظر بھی آرہی تھی۔ تشدد کرنے والوں میں کم سے کم دوخواتین اور کم ازکم چار مرد دکھائی دے رہے تھے۔ فیصل آباد میں پیش آنے والے اِس واقعہ کو کوئی بھی نام دے لیں لیکن یہ کسی بھی طور انتہائی قابلِ شرم ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا جہاں ایک یتیم لڑکی پر ظلم کی انتہا کردی گئی۔ اِس واقعہ کی جو ایف آئی آر درج ہوئی اُس کے مطابق متاثرہ لڑکی کو ایک امیر آدمی سے شادی کرنے سے انکار پر اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف کچھ واقفانِ حال قرار دیتے ہیں کہ متاثرہ لڑکی اور امیر آدمی کی دوستی تھی جس کی بابت شیخ صاحب کے اہل خانہ کو معلوم پڑ گیا تھا۔ اِس کی تصدیق اُس وڈیو سے بھی ہوتی ہے جس میں متاثرہ لڑکی شیخ صاحب سے معافی مانگتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ یہ وڈیو واقعہ رونما ہونے سے پہلے کی ہے۔ اب وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو لیکن جو کچھ بھی ایک انتہائی پڑھی لکھی لڑکی کے ساتھ ہوا‘ وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
واقعہ کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو فیصل آباد کے سی پی او عمر سعید ملک کی ہدایت پر پولیس نے فوری نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا بلکہ ملزموں کو فوری طور پر گرفتار بھی کیا۔ اب اِس معاملے پر مزید تحقیقات جاری ہیں۔ واقعہ کے بعد حراست کے دوران ملزمان کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں‘ اُن میں ملزمان ایسے کھڑے دکھائی دیتے ہیں جیسے اُن سے زیادہ معصوم شخص روئے زمین پر کوئی نہ ہو۔ وہ لڑکی‘ جس کے جوتوں کو زبان لگوائی جارہی تھی‘ اُس کا معصومانہ چہرہ دیکھ کر کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ متاثرہ لڑکی پر تشدد کرنے میں یہ بھی پیش پیش تھی۔ کہاں تو کروفر اور تکبر کا یہ عالم کہ جیسے اس دنیا میں ان تشدد کرنے والوں سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا نہ ہو اور قانون کی گرفت میں آنے کے بعد چہروں پر طاری ایسی مظلومیت کہ دیکھنے والوں کے دل پسیج جائیں۔ متاثرہ لڑکی کو بری طرح مارنے پیٹنے کے دوران اُنہوں نے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ قانون کی گرفت میں بھی آسکتے ہیں۔ دراصل جب بھی کوئی ظالم اپنا ہاتھ دراز کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہی بات ہوتی ہے کہ قانون تو اس کے گھر کی باندی ہے۔ کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ لڑکی پر تشدد کرنے والوں کے ذہن میں بھی ہوگا۔ اگر آپ وڈیو غور سے دیکھیں تو اس میں شیخ صاحب کے ملازمین تشدد کرنے میں مالکان سے بھی آٹھ ہاتھ آگے دکھائی دیتے ہیں گویا اُن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی رہا ہو۔ تادم تحریر وہ اپنے مالک کے ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یقین جانیے کہ اس وقت بھی اُن کے ذہنوں میںیہی ہوگا کہ بہت جلد وہ رہا ہوکر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیگر انتقامی طریقوں پر غور کررہے ہوں کہ بس ایک مرتبہ وہ باہر آجائیں تو پھر حساب چکتا کریں گے۔ اُن کی یہ سوچ غلط بھی نہیں ہے کیوںکہ ہمارے ہاں فراہمی انصاف میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ مدعی خود ہی تنگ آکر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
یہاں تو یہ عالم ہو چکا ہے کہ ایک سابق ایم پی اے دن دیہاڑے ایک ٹریفک اہلکار کو کوئٹہ کی شاہراہ پر کچل دیتا ہے۔ اس واقعہ کی وڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب دیکھتے ہیں کہ قصور وار کون ہے۔ مجید اچکزئی نامی یہ شخص گرفتاری کے چند ہی روز بعد ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے۔ بعد میں ان موصوف کو اس بنیاد پر باعزت بری کردیا جاتا ہے کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ گاڑی مجید اچکزئی چلا رہے تھے۔ پوری دنیا نے دیکھا تھا کہ گاڑی کون چلا رہا ہے۔ مجید اچکزئی کی رہائی کے فوراً بعد اسی بابت شہید کانسٹیبل عطااللہ کی بیوہ نے ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ اُن سے دھوکے سے صلح کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے تھے ۔ شہید کے اہلِ خانہ کی طرف سے تو زیارت کے تب کے ڈپٹی کمشنر کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ بھی معافی کے ڈرامے میں ملوث تھے۔ رہائی کے واقعہ پر ایک اعلیٰ پولیس افسر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ریاست کی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ سیاستدان کی رہائی پر تب سوشل میڈیا پر ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور پورے ملک سے اس فیصلے کی مذمت کی گئی تھی لیکن رہا ہونے والے رہا ہوکر رہے۔ اس معاملے میں صلح کی بازگشت بھی سنی گئی تھی لیکن آپ خوب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں طاقتور اور کمزور کے درمیان صلح کے کیا معاملات ہوتے ہیں۔ کیسے کمزوروں پر دباؤ ڈال کر اُنہیں صلح کے لیے مجبور کردیا جاتا ہے۔ وہ شاہ رخ جتوئی والا معاملہ بھی ابھی آپ کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہوگا۔ ایک انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والے شاہ رخ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کراچی میں ایک نوجوان شاہ زیب کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اس واقعہ پر پورا ملک مظلوم خاندان کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا لیکن بعد میں مقتول کے اہل خانہ کو صلح ہی کرنا پڑی تھی۔ اُن کی طرف سے ایک پریس کانفرنس میں واضح طور پر قرار دیا گیا کہ اب وہ طاقتوروں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے‘ اس لیے خود کو اور اپنے دیگر رشتہ داروں کو کسی مزید نقصان سے بچانے کے لیے صلح پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ سانحہ ساہیوال بھی تو آپ کو یاد ہوگا جس میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے دن دیہاڑے ایک پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ یہ تو صرف چند ایک مثالیں ہیں ورنہ تو یہاں ایسی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
اب فیصل آباد میں پیش آنے والے واقعہ کا حتمی نتیجہ بھی ایسا ہی نکلنے والا ہے کیونکہ متاثرہ لڑکی زیادہ دیر تک اتنے طاقتور انسان کے سامنے کھڑی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقتی طور پر پورا ملک متاثرہ لڑکی کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے لیکن بس چند ہی دنوں کی بات ہے کہ کوئی نیا واقعہ سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالے گا۔ ہمارے ہاں کی یہی روایت ہے۔ ہمارے ہاں ایسا ہی چلتا ہے۔ بس وقتی سا اُبال آتا ہے اور اُس کے بعد سب کچھ پُرسکون ہو جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ ہمارے ہاں بتدریج ایسی پاور پاکٹس بن چکی ہیں کہ جن کے سامنے تو اکثر اوقات حکومت بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ جب یہ معاشرہ ہی طاقتوروں کا بن چکا ہے تو پھر ایک ڈاکٹر خدیجہ کی کیا بساط کہ وہ اتنے طاقتور خاندان کے سامنے زیادہ دیر تک مزاحمت کر سکے۔ چند روز کی بات ہے کہ کسی دن مظلوم کی طرف سے ایک بیان آئے گا کہ اب اُس میں مزید لڑنے کی سکت نہیں رہی لہٰذا وہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتی ہے۔ بس پھر اللہ اللہ خیر صلا۔ اُس لڑکی کے اس بیان پر اگر غصے کا اظہار ہوگا تو بہت سے اُس کی حمایت بھی کریں گے کہ اُس نے اچھا کیا ہے۔ ہم سب خوب جانتے ہیں کہ طاقتوروں کے معاشرے میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ دراصل ہمارے یہاں پر کمزوروں کو دبانے‘ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے‘ رشوت وصول کرنے‘ ظلم و تشدد کرنے جیسا نظام ''آٹو‘‘ پر چل رہا ہے۔ اگرکوئی اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے تو پورے کا پورے نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے۔ سو آسان حل یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسے ایسے ہی چلنے دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں