"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی بے حسی سی بے حسی ہے

جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے علاقے اس وقت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں انڈس روڈ پرموجودہ قصبہ کوچہ کالا سے کوچہ ککاری تک‘ قمبر سے چوکی والا تک‘ ایک کے بعد ایک آنے والے سیلابی ریلے سب کچھ بہاکرلے جاچکے ہیں۔ پل شیخانی سے یاروکھوسہ تک پورا علاقہ ایک بہت بڑے ڈیم کی صورت پیش کررہا ہے۔ دیگر علاقے بھی مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اِن علاقوں سے ملحقہ سندھ اور بلوچستان کے علاقے بھی قیامت خیز سیلاب کا سامنا کررہے ہیں۔ صوبہ سندھ مکمل ڈوب چکا ہے اور بلوچستان سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ جن علاقوں سے کسی حد تک پانی اُتر چکا ہے وہاں سے انسانوں کی لاشیں برآمدہورہی ہیں۔بچوں کی مٹی میں لتھڑی ہوئی میتیں ہمارے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کو شش کررہی ہیں۔ آہ وبکا کرتے ہوئے انسان ہمیں شرم دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آؤ !ہمارے دکھوں کا کچھ مداوا کرو۔ افسوس کہ ہم سب نے جیسے اپنے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال لیا ہو کہ کوئی آواز ہمارے کانوں تک پہنچ ہی نہیں پا رہی۔ اس وقت سب سے بڑا قومی مسئلہ شہباز گل اور عمران خان کے کیسز بن چکے ہیں۔ صبح عمران خان، شام شہباز گل۔ خان صاحب گھر سے نکل رہے ہیں، احاطہ عدالت میں پہنچ گئے ہیں، عدالت میں پیش ہو گئے ہیں، ضمانت منظور ہو گئی ہے۔ صبح سے شام تک یہی کچھ چل رہا ہے اور اِسی چکر میں سیلاب زدگان کی کوئی آواز ہمارے کانوں تک پہنچ ہی نہیں پارہی۔ تنگ آکر کچھ روز پہلے تونسہ کے کچھ رہائشی لاہور آن پہنچے اور لبرٹی چوک میں اُنہوں نے عوامی اور حکومتی بے حسی کے خلاف شدید مظاہرہ کیا۔ اِس مظاہرے میں شریک افراد نے جنوبی پنجاب میں تباہی کی جو داستانیں سنائیں، اُنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا تھا مگر اُن کا لاہور آنا بھی بے سود گیا کہ ان کا یہ مظاہرہ بھی مناسب پذیرائی حاصل نہ کرسکا۔ اندازہ لگائیے کہ اگر کراچی یا لاہور میں غیرمعمولی بارشوں سے کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوجائے تو زمین آسمان ایک کردیا جاتا ہے۔ یہاں بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد ہوگئیں۔ سینکڑوں افراد زندگی کی بازی ہار گئے‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں مویشی سیلاب میں بہہ گئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ بھی جان رکھیے کہ دکھوں کی یہ المناک داستان ایک‘ دو ہفتوں میں رقم نہیں ہوئی۔ جب سیلاب نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے دروازے پر دستک دینا شروع کی تھی تب وفاق اور پنجاب میں صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ کسی کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ حالات کا بروقت ادراک کرپاتا۔ بس ایک ہی دھن سر میں سمائی ہوئی تھی کہ کسی طرح سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مل جائے۔ جب شہرِ لاہور میں اقتدار کی جنگ جاری تھی تب جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھ رہی تھیں۔ ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آگیا جب بلوچستان اور کوہِ سلیمان کی رودکوہیوں سے ایک کے بعد ایک سیلابی ریلے میدانی علاقوں میں اُترنے لگے اور سب کچھ برباد ہونے لگا۔ لوگوں کی عمر بھر کی پونجیاں لٹ رہی تھیں۔ سیلابی ریلوں میں بہہ کر‘کیا انسان اورکیا جانور‘ سب کے سب اپنی جانوں کی بازی ہار رہے تھے۔ ایک طرف اقتدار کے ایوان میں ہڑبونگ مچی ہوئی تھی تو دوسری طرف اقتدار کی بازی جیتنے کیلئے قانونی جنگ جاری تھی۔
سیلاب کی تباہی شروع ہو چکی تھی جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا ہما حمزہ شہباز کے سر پر بیٹھا مگر پھر 17جولائی کے ضمنی انتخابات سر پر آن پہنچے اوران کے نتائج کے بعد ایک نئی جنگ شروع ہوگئی۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے بازی مار لی تو ایک مرتبہ پھر وزارتِ اعلیٰ کے حصول کی جنگ شروع ہوگئی۔ اقتدار کی نئی جنگ میں حمزہ شہباز اقتدار سے محروم ہو گئے اور چودھری پرویز الٰہی فتح یاب ٹھہرے۔ اِس دوران بلوچستان، زیریں کے پی، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ سیلابی ریلوں میں بہتا جارہا تھا لیکن اقتدار کی جنگ میں مصروف حکومت کی نظر سیلاب متاثرین پر پڑی نہ ہی ذرائع ابلاغ میں اِس معاملے کی سنگینی کو پوری طرح سے اُجاگر کیاجاسکا۔ ہرطرف بس یہی خبریں چل رہی تھیں کہ آج تحریک انصاف نے فلاں چال چل دی اور آج پی ڈی ایم نے فلاں سیاسی حکمت عملی اختیار کرلی۔ ایسی بے حسی شاید پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہی تھی۔اقتدار کی کشمکش میں معاملے کی سنگینی کو پوری طرح اُجاگر نہ کیا جا سکا جس کے سبب عوامی سطح پراِس بات کا احساس ہی پیدا نہ ہوسکا کہ ہمیں مل کر سیلاب زدگان کی امداد کیلئے کچھ کرنا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے سب اپنے اختلافات بھلا کر یکجان ہوجاتے لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نتیجتاً متاثرہ علاقوں میں سب کچھ برباد ہو گیا۔
اُمید تھی کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا معاملہ حل ہونے کے بعد شاید سیلاب زدگان کی طرف توجہ مبذول ہو جائے گی لیکن یہ اُمید بھی بر نہ آسکی۔ ہر معاملے پر سیاست نے پوری طرح سے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔ صبح سیاست، شام سیاست، رات سیاست۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات! سیاسی ہماہمی میں کسی کو کوئی پروا نہیں رہتی کہ ملک کے زیریں اضلاع میں کیا قیامت گزر رہی ہے۔ شاید بے حسی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور ہمارا معاشرہ اس بات کو پوری طرح سے ثابت کر رہا ہے۔ انسانیت کا کوئی لحاظ رہا ہے نہ خدا ہی کا خوف۔ حکومت نے تو شاید کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے لیکن وہ جو فلاحی کاموں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں‘ اُنہیں بھی اتنی فرصت نہ مل سکی کہ سیلاب متاثرین کی کچھ اشک شوئی کر دیتے۔ اب پانی سر سے گزر جانے کے بعد وزیراعظم، وفاقی وزرا اور حکومتی شخصیات کے کچھ ٹویٹس نظروں سے گزرے ہیں تو سر پیٹنے کو جی چاہ رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ اتنے ماہ بعد‘ سب کچھ تباہ ہو جانے کے بعد اب کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ حکومت کی طرف سے مخیر حضرات سے یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ براہِ کرم سیلاب زدگان کی مدد کریں۔ اربابِ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تصاویر دیکھ کر اُن کا دل تڑپ اُٹھا ہے۔ ہائے قوم تیری قسمت! جب ہر معاملے سے فرصت مل گئی، تب سیلاب زدگان کے لیے دل تڑپنے لگا۔
سوال تو یہ ہے کہ حکومت کہاں گم ہے؟ وزیراعلیٰ پنجاب ایک دورہ کرنے کے بعد چپکے کیوں ہو رہے ہیں۔ اُنہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حالات بہتر ہونے تک مستقل ڈیرہ ڈال لینا چاہیے تھا۔ اتنی بڑی آسمانی آفت کے دوران پہلی مرتبہ حکومتی اور عوامی سطح پر اتنی زیادہ بے حسی دیکھنے میں آئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 913 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یقینا اصل اعداد و شمار کہیں زیادہ ہوں گے۔ اگر خدانخواستہ کسی بڑے شہر میں بارشوں سے چند ہلاکتیں بھی ہوجاتیں تو کیا آسمان سر پر نہ اُٹھا لیا جاتا؟ حکومت کی بات تو ایک طرف رہی‘ متاثرہ علاقوں کے سرداروں اور وڈیروں نے جو بے حسی دکھائی ہے وہ بھی خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ سیلابی پانی کو دریاؤں میں لے جانے والے راستوں پر بااثر افراد نے تجاوزات قائم کررکھی ہیں‘ اِن راستوں پر عمارات تک تعمیر ہوچکی ہیں۔ بڑے بڑے زمینداروں نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے اُن کے گردا گرد باندھ بنا لیے ہیں۔ کئی ایسی وڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں لوگ کسی بڑے زمیندار سے اپنا باندھ توڑنے کی درخواست کررہے ہیں تاکہ اُن کے گھر بار بچ جائیں لیکن جواب ملتا ہے کہ ڈوبتے ہو تو ڈوب جائو، میں کیا کرسکتا ہوں؟ ایک سیاسی خاندان سے متعلق یہ تک کہا جا رہا ہے کہ اس نے سیلاب سے اپنی زمینیں بچانے کیلئے راتوں رات متعلقہ ڈی سی کا تبادلہ کرا دیا کیونکہ وہ ان کے غیر قانونی طور پر بنائے گئے باندھ توڑنا چاہتا تھا۔
کوئی بے حسی سی بے حسی ہے۔ تسلیم کرلیجئے کہ ہم بحیثیت مجموعی بے حس ہوچکے ہیں۔اگرچہ افواجِ پاکستان، این ڈی ایم اے اور جماعت اسلامی کی طرف سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن جتنے بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے، یہ امدادی سرگرمیاں اُتنے بڑے پیمانے پر ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ اب کچھ ہلچل شروع تو ہوئی ہے لیکن افسوس! بہت تاخیر کردی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں