"FBC" (space) message & send to 7575

تجربہ گاہ

سیاسی اُفق پر ایک ''چاک چکر‘‘ ہے جو مستقل بنیادوں پر چلتا رہتا ہے‘ بس صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اُس کو ہٹا دیں، اُس کو لے آئیں، یہاں یہی کچھ چلتا رہتا ہے۔ جولائی 2017ء میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ دبئی میں ایک کمپنی کے ڈائریکٹر تھے جہاں سے ملنے والی تنخواہ کو اُنہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا‘ لہٰذا وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اِسی پاداش میں اُنہیں ہمیشہ کے لیے سیاست اور کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اِس سے پہلے اُن کے خلاف پاناما کیس کے حوالے سے جس برق رفتاری سے تمام 'ثبوت‘ اکٹھے کیے گئے تھے، وہ تیز رفتاری بھی اپنی مثال آپ تھی۔ بادی النظر میں یہ وجوہات سب کے سامنے تھیں کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ اناؤں کی جنگ میں یہی کچھ ہوتا ہے‘ جس دوران کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ملک کا کیا بنے گا۔ تب بھی کسی نے یہ نہیں سوچا تھا جو کچھ کیا جا رہا ہے اُس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ نواز شریف کو بہرصورت اقتدار سے ہٹانا مقصود ہے۔ یہ مقصد بخیر و خوبی حاصل کر لیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب موجودہ اعتبار کی نسبت سے ملک میں تمام حوالوں سے صورتحال بہتر تھی۔ تمام اشاریے بہتری کی طرف جا رہے تھے۔ موٹرویز بن رہی تھیں‘ مہنگائی کا جن بھی بڑی حد تک قابو میں تھا۔ ڈالر کی پرواز بھی زیادہ اونچی نہیں تھی۔ نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے سے پہلے حسبِ روایت اُن کے خلاف ایک ماحول بنایا گیا۔ یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ اگر وہ برسر اقتدار رہ گئے تو خدا نخواستہ ریاست کو نقصان پہنچے گا۔ اندازہ لگائیے کہ تین مرتبہ کے وزیراعظم کو غدار ی کے الزامات بھی سہنا پڑے۔ بھارتی وز یراعظم نریندر مودی کی رائیونڈ آمد پر آسمان سر پر اُٹھا لیا گیا۔ یہ وہی نریندر مودی تھے جن سے مذاکرات کرنے کے لیے بعد میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا لیکن بات بن نہ سکی۔ قصہ مختصر یہ کہ نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے محروم کر دیے گئے۔ جس کے بعد ہوتے ہوتے 2018ء کے انتخابات کا وقت آن پہنچا۔ ایک مقصد حاصل کرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا بڑا مقصد عمران خان کو برسراقتدار لانا تھا۔ تمام وزن یعنی سارے الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈال دیے گئے اور پھر عمران خان ان کے سہارے برسر اقتدار آ گئے۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد توقع تو یہی تھی کہ شاید اب وزیراعظم صاحب اپنی مدت پوری کر جائیں کیونکہ ایک پیج‘ ایک پیج کا بہت شور مچا ہوا تھا۔ اِس دور میں پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ چور‘ چور کا ایسا شور مچا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ایک پیج کی ایسی گردان جاری رہی کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا تھا۔ اعتماد کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ ببانگِ دہل قرار دیا جا رہا تھا کہ اب ہمارے علاوہ کوئی دوسری چوائس ہی نہیں ہے۔ تب بھی احباب عرض کرتے رہتے کہ جناب چوائسز ہمیشہ موجود رہتی ہیں لیکن اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہو تو بات کہاں سمجھ میں آتی ہے۔ جب تک ایک پیج والا معاملہ چلتا رہا‘ تب تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن پھر یہ صفحہ بھی پھٹنے لگا۔ آخرکار تحریک انصاف کی حکومت بھی راندۂ درگاہ ٹھہری اور نظرِ انتخاب پی ڈی ایم پر جا پڑی۔ جس طرح نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے پورا ماحول بنایا گیا تھا، بالکل ویسے ہی عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ماحول بنایا گیا۔ یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ اگر عمران خان برسر اقتدار رہے تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ تحریک انصاف اقتدار سے محروم ہوئی اور اب گزشتہ چار ماہ سے پی ڈی ایم والے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ عمران خان ہرطرف سے تنقید و طنز کے نشتر چلا رہے ہیں۔ کوئی بھی اِن نشتروں کی زد سے باہر نہیں رہا۔ بالکل ویسے ہی جیسے نواز شریف کی نااہلی کے بعد نون لیگ والوں نے جی بھر کے دلوں کی بھڑاس نکالی تھی۔ تب بہت سے لیگی رہنماؤں کے بیانات ٹی وی سکرینز اور اخبارات کی زینت بنے تھے لیکن ایک بیان یادداشتوں میں محفوظ رہ گیا۔ یہ بیان لیگی رہنما سعد رفیق کی طرف سے سامنے آیا تھا جس میں موصوف نے قرار دیا تھا کہ عمران خان تو صرف شو بوائے ہیں اور جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہوا ہے، اُس پر اُنہیں بغلیں نہیں بجانی چاہئیں کیونکہ کچھ عرصے بعد وہ بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ تب تحریک انصاف اِن باتوں پر کہاں کان دھرنے والی تھی کہ تب تو خوشیاںمنائی جا رہی تھیں مگر آج کیا ہو رہا ہے۔ آج وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو کچھ پہلے مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہوا تھا۔ یہاں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس چاک چکر نے ملک کی کیا حالت بنا دی ہے۔ اب عالم یہ ہو چکا ہے کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ہمارا اعتبار کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔
ملک میں اتنے تجربات ہوئے ہیں کہ اب جیسے پورا ملک ہی ایک تجربہ گاہ بن کر رہ گیا ہے اور افسوس یہ ہے کہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب ایک تجربہ ناکام ہو جاتا ہے تو پھر کسی نئے تجربے کا ڈول ڈال دیا جاتا ہے۔ اِسی چکر میں آج قانون اور آئین کی بالادستی دور دور تک نہیں دکھائی دیتی۔ ہر طاقتور اپنے سے کمزور کو کھاجانے کے فراق میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ قانون اور آئین کی بالادستی کے نام پر ہر وہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کی اخلاقیات میں کوئی گنجائش نہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے نون لیگ اور اُس کے اتحادی اداروں پر تنقید کے نشتر چلایا کرتے تھے اور حکمرانی کے مزے لوٹنے والی تحریک انصاف دفاع کے فرائض سرانجام دیا کرتی تھی۔ اب صورت حال یکسر الٹ گئی ہے۔ اب تحریک انصاف والے دن رات تنقید کے نشتر چلاتے ہیں اور پی ڈی ایم والے دفاع کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اب تو محترم مولانا فضل الرحمن صاحب کے بیانات بھی کم کم ہی سامنے آتے ہیں جن کی گھن گرج سے کبھی کان پڑی آواز نہیں سنائی دیا کرتی تھی۔ آج مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے لیکن چند ماہ پہلے تک مہنگائی کی دہائی دینے والے اور مہنگائی کے خلاف مارچ کرنے والے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ دورِ اپوزیشن کے دوران دیے جانے والے دھواں دھار بیانات اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کبھی ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ گونجا کرتا تھا مگر اب وہ بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اِسی چکر میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم کچھ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک کے بعد دوسرا تجربہ‘ دوسرے کے بعد تیسرا اور اس سارے کھیل میں معیشت کی حالت پتلی ہوتی جاتی ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ یہ فیصلے ایک ہی بار کر لیے جائیں کہ ملک کو کس ڈگر پر اور کس طرح چلانا ہے۔ اب یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ عمران خان کو سیاست سے آئوٹ کرنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔اس کے بعد کیا صورتِ حال ہو گی‘ کسی کو نہیں معلوم۔ بھارت کو ایک بات کا کریڈٹ بہرحال دینا پڑے گا کہ اس نے جمہوریت کا دامن اتنی مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ کسی طور بھی اِسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم ایک ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں لیکن گندم سے لے کر ٹماٹر اور پیاز تک درآمد کرتے ہیں۔ کہنے کو قدرت نے ہمارے ملک کو بے شمار قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے لیکن ہمارے ہاتھوں میں ہمیشہ کشکول ہی رہتا ہے۔ کہنے کو ہم ایک اسلامی مملکت ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی میں دور دور تک اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اگر اِن تمام حالات کے باوجود ہم اِسی ڈگر پر چلنا چاہتے ہیں تو ہماری مرضی ورنہ نت نئے تجربات کا ہنر تو ہم سیکھ ہی چکے ہیں۔ اِسی چکر میں پچھتر سالہ ملکی تاریخ میں کوئی ایک وزیراعظم بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا اور ہماری اسمبلیوں کی بھی زیادہ تر یہی صورت حال رہی ہے۔ تجربات کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے صورتحال خراب کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ افسوس کہ اب بھی ہم سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ میدانِ سیاست میں ایک ہنگامہ سا برپا رہتا ہے جس میں عوام بیچارے پستے رہتے ہیں مگر مجال ہے کہ اُن کے مستقبل کے فیصلے کرنے والوں کو اُن پر ذرا سا بھی ترس آتا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں