"FBC" (space) message & send to 7575

بے یقینی سی بے یقینی ہے

کچھ پلے نہیں پڑرہا کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ وہ بھی ایسے ملک میں جس کا ایک تہائی حصہ ابھی تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایسا ملک جس کے تین کروڑ کے قریب باشندے سیلاب کے باعث دربدر ہوچکے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد اب بیماریوں میں مبتلا ہورہی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں سیلاب سے متاثرہ افراد اب بھوک کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہاررہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو اپنی معاشی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مہنگائی کی شدید ترین لہر نے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر بنا دیا ہے۔ بجلی کے بے تحاشا بلوں کے باعث ہرکوئی بِلک رہا ہے۔ کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ بجلی کے بل کس فارمولے کے تحت بنائے جارہے ہیں اور کیا کیا حربے استعمال کرکے عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوائے جارہے ہیں۔ چیخ و پکار کا ایسا عالم ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ معاشی محاذ سے کوئی اچھی خبر آرہی ہے نہ سیاسی محاذ سے کوئی خیر کی خبر مل رہی ہے۔ بے یقینی کی وہ کیفیت شدید تر ہو چکی جس نے شاید قیام پاکستان کے وقت سے ہی اپنے پنجے دراز کرنا شروع کردیے تھے اور اب تو جیسے یہ ہماری قومی زندگی کا ایک مستقل جز بن چکی ہے۔ ایک طرف ڈوریاں ہلانے والے ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اسی کھینچا تانی میں ہم تو جیسے پوری دنیا میں ہی مذاق بن کررہ گئے ہیں۔ مجال ہے کہ ماضی سے ہم نے کوئی سبق سیکھا ہو اور خود کو کبھی سدھارنے‘ سنوارنے کی کوشش کی ہو۔ راتوں رات وفاداریاں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اور پھر یہ دعوے بھی کیے جاتے ہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان ترقی یافتہ ملک بنے گا۔ خاک ترقی یافتہ بنے گا۔ یہ ترقی کی ہے ہم نے کہ آج ہمیں اپنی معاشی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بس دعووں کا ایسا طومار ہے کہ جس کا کوئی سر پیر ہی دکھائی نہیں دیتا۔
اسی مارا ماری میں اب ایک مرتبہ پھر سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات‘ مقدمات کا کھیل بھی کھیلا جارہا ہے۔ وفاق میں کسی سیاسی مخالف کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو اس کا جواب کے پی اور پنجاب میں دیا جاتا ہے۔ گاہے گاہے سندھ بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتا رہا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب اور ایک دوسرے مسلم لیگی رہنما جاوید لطیف کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیے جانے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ دونوں کے خلاف اس الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے کہ دونوں لیگی رہنما مذہبی کارڈ کے استعمال سے پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کے خلاف نفرت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ادھر پنجاب اسمبلی نے ملک کے وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کیے جانے کی قرارداد بھی منظور کی ہے۔ اس حوالے سے ایک لمبی چوڑی قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جان رکھیے کہ آرٹیکل چھ ایسے افراد پر لاگو ہوتا ہے جنہوں نے آئین کو توڑا ہو یا آئین توڑنے والوں کی مدد کی ہو۔ ایسے افراد کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سزا متعین ہے۔ اندازہ کیجئے کہ ملک کے وزیراعظم کے خلاف آئین توڑنے کے حوالے سے قرارداد منظور کی گئی ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ اِس قرارداد کے منظور کرنے یا پھر لیگی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے مقاصد کیا ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کے خلاف بھی تو دہشت گردی کی دفعات کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ یہ الگ بات کہ اسلام آباد ہائی کورٹ عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ جس کا جہاں زور چل رہا ہے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو رگیدنے کے لیے پیچھے رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بھی جان لیجئے کہ ایسے مقدمات کی ابھی مزید قسطیں بھی پائپ لائن میں ہیں۔
ہر روز کوئی نیا شوشہ‘ ہرروز کوئی نیا ڈرامہ۔ یہاں تو یہ عالم ہو چکا کہ نومبر میں ہونے جا رہی ایک اہم تعیناتی کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ ایک طرف سے ایک بیان آتا ہے تو دوسری طرف سے دوسری نوعیت کا بیان جاری کردیا جاتا ہے۔ مہذب اور قانون کے مطابق چلنے والے ممالک کے یہ چلن ہوتے ہیں؟ ایک قوت قرار دیتی ہے کہ کرپٹ عناصرکو نئی تعیناتی کا عمل مکمل نہیں کرنے دیا جائے گا۔ دوسری قوت قرار دیتی ہے کہ مخالفین جو مرضی کرتے رہیں ہم تو یہ پراسیس نومبر میں شروع کردیں گے۔ ویسے سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ اس تعیناتی کے حوالے سے صورت حال اِس نہج پر پہنچی کیوں ہے؟ دنیا کے دیگر ممالک میں تو عوامی سطح پر بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا آرمی چیف کون ہے۔ ایک طے شدہ طریقہ کار ہے جس کے تحت پورا عمل جاری رہتا ہے۔ یقینا یہ صورت حال ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ جب ملک کے سب سے منظم ادارے کے حوالے سے یہ صورت حال پیدا ہو چکی ہو تو باقی حوالوں سے بات کرنے کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے کہ اب ایک سیاسی قوت کی طرف سے جلسوں کے دوران ایسی باتیں کی جارہی ہیں جو کہنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایسی ہی صورت حال کے باعث معاملات اِس نہج پر پہنچ چکے کہ اب ہمارے جیسے عام پاکستانی شہری حالات میں بہتری سے جیسے نااُمید ہی ہو چکے ہیں۔ قومی سطح پر مستقل طور پر پائی جانے والی بے چینی کی کیفیت نے عوامی سطح پر بھی سب کو متاثر کررکھا ہے۔ یہ جو ملک میں ہروقت ہڑبونگ سی مچی رہتی ہے وہ اِسی بے یقینی کا نتیجہ ہے کہ جانے ملک میں کب کیا ہو جائے۔ کب کس کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا جائے۔ کب ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دی جائے۔ کب کہاں احتجاج شروع ہو جائے اور راستے بند ہو جائیں۔ یہ ایسی ہی سوچوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے دماغوں پر اب ہروقت خلجان کی سی کیفیت طار ی رہتی ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ جب اعلیٰ ترین سطح پر قانون کا غلط استعمال کرنے میں کوئی لحاظ نہ رکھا جارہا ہو تو عوامی سطح پر بھی یہی چلن دیکھنے کو ملے گا۔ یہ جو تھانوں میں ہرروز جھوٹے مقدمات کا اندارج ہوتا ہے‘ یہ بھی ٹریکل ڈاؤن افیکٹ ہے۔ جب اوپر کی سطح پر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو نچلی سطح پر کیوں ایسا نہیں ہوگا۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر حکومتی زعما تحفے تحائف قبول کرتے ہیں تو پھر نیچے والے ایسا کیوں نہیں کریں گے۔ جب کوئی شخص کسی سیاسی رہنما کو کوئی چیز گفٹ کرتا ہے تو یہ فوائد حاصل کرنے والے کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ کل اُسے ریٹرن میں بھی کچھ دینا پڑے گا۔ بس یہی سب کچھ اوپر کی سطح پر چل رہا ہے تو یہی سب کچھ نچلی سطح پر بھی ہورہا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اربابِ اختیار تو سب کچھ کرتے رہیں اور عوام سے ایمانداری اور قانون کی پاسداری کی توقع رکھیں۔ اعلیٰ سطح والوں نے ملک میں بے یقینی کی جو کیفیت پیدا کردی ہے تو اُس کاخمیازہ پورا ملک بھگت رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور اِنہیں چلانے والے کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ سیلاب زدگان کی خاطر ہی اختلافات کو وقتی طور پر بھلا دیں۔ اُن لوگوں پرہی کچھ رحم کھا لیں جو معمولی سی رعایت کے لیے یوٹیلٹی اسٹورز کے باہر ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ اُن پر ہی کچھ مہربانی کردیں جو بجلی کے اضافی بل ہاتھوں میں پکڑے متعلقہ اداروں کے باہر بلبلا رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں