"FBC" (space) message & send to 7575

سحر کی لگن

گزشتہ ماہ کے وسط میں ایرانی کردستان کی رہائشی 22سالہ مہسا امینی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ تہران آئی۔ ایرانی دارالحکومت میں آمد کا مقصد اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنا تھا۔ تہران میں اپنے قیام کے دوران ایک روز وہ اپنے عزیزواقارب کے ہمراہ تہران کی سیرکررہی تھی کہ پولیس نے اُسے گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری پولیس کے ایک خصوصی یونٹ 'گشت ارشاد‘ کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی جو 'اخلاقیات‘ کے احترام کو یقینی بنانے کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس خصوصی یونٹ کے اراکین کو محسوس ہوا کہ مہسا امینی اخلاقی قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے؛ چنانچہ اُسے گرفتار کرکے پولیس سٹیشن میں بند کردیا گیا۔ تھانے میں مبینہ طور پر اُسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ کچھ افسران نے لڑکی کے سر پر ڈنڈے مارے اور اُس کا سر باربار ایک گاڑی سے ٹکرایا گیا۔ مبینہ تشدد کے باعث لڑکی بے ہوش ہو گئی جسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ہسپتال میں تین روز تک کومے کی حالت میں رہنے کے بعد مہسا دم توڑ گئی۔ مہسا امینی کی موت کی خبر سامنے آئی تو پورے ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ملک کے مختلف شہروں میں شدید مظاہرے ہوئے جس دوران پولیس اور سکیورٹی کے اداروں کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئیں، مہسا کے لیے انصاف مانگتے مانگتے 50 دیگر مرد و خواتین اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اِس دوران مغربی ممالک کی طرف سے بھی مسلسل تشویش کا اظہار سامنے آتا رہا۔ حکومت نے جب محسوس کیا کہ صورت حال پر قابو پانا مشکل ہوگیا ہے توبالآخر ایرانی صدر نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ اِس دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے یہ بھی فرمایا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق مغرب کے دہرے معیارات ہیں۔ اِس تناظر میں اُن کی طرف سے مغرب میں خواتین کے استحصال کا بھی ذکر کیا گیا۔ گو کہ ابھی تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی مگر ممکنہ طور پر تحقیقات کا کیا نتیجہ سامنے آ سکتا ہے‘ اِس حوالے سے اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کے جنوب مغربی ہمسایہ ملک میں پیش آنے والے اِس واقعے پر ملک گیر مظاہروں کاجو سلسلہ دیکھنے کو ملا تو ماضی کے مختلف ادوار بھی ذہن میں کلبلانے لگے۔ اُس دور کے واقعات نظروں کے سامنے آنے لگے جب رضا شاہ پہلوی ایران کے بادشاہ تھے۔ ایسا طاقتور بادشاہ جس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا۔ تب ایران پوری طرح سے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے زیرِاثر تھا۔ لبرل از م میں مغربی ممالک کو بھی مات دینے والے ملک میں بادشاہ کی مخالفت جرمِ عظیم تھا۔ مادر پدر آزادی کے باعث عوام کو محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کھوتے جارہے ہیں۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ وہ مغربی ممالک کی اَن دیکھی غلامی میں جکڑے جاچکے ہیں۔ بس پھر اِس شناخت کی بحالی اور واپسی کے لیے غیرملکی غلامی سے نجات کے لیے وہاں بادشاہ مخالف تحریک شروع ہوگئی۔ ایک ایسی شاندار تحریک کہ جس میں ایرانی عوام نے بے شمار قربانیاں دیں۔ تہران سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں ہرروز مظاہرے ہوتے تھے جن پر بادشاہ کی وفادار پولیس اور فوج فائرنگ کرتی تھی۔ اس دوران لاتعداد بے گناہوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ شہنشاہِ ایران کی خفیہ پولیس 'ساواک‘ نے ظلم وستم کی انتہا کر رکھی تھی۔ فرانس میں مقیم ایرانی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی عوام کی انقلابی تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ ابتدا میں تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایک انتہائی طاقتور شہنشاہ کے خلاف کوئی ایسی تحریک کامیاب ہوسکے گی اوراِس کی وجہ یہ تھی کہ پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے بادشاہ کے وفادار اور انتہائی طاقتور تھے۔ شاہِ ایران کوا مریکہ سمیت پوری مغربی دنیا کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اِن تمام عوامل کے باوجود ایرانی عوام نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ لبرل ازم اور اَن دیکھی غیرملکی غلامی کی انتہا سے نجات حاصل کرکے ہی رہیں گے۔ بلاشبہ یہ دورِحاضر کی ایک شاندار تحریک تھی۔ 7 جنوری 1979ء کو شروع ہونے والی یہ تحریک بتدریج شدت اختیار کرتی گئی اور بالآخر تین ہزار کے قریب ایرانی مردوخواتین کی قربانیوں کے بعد 11 فروری 1979ء کو اس عوامی تحریک نے رضا شاہ پہلوی کی حکومت اور ایرانی بادشاہت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیا۔ ایرانی عوام نے ایک بہتر مستقبل اور اعتدال پسند معاشرے کے قیام کے لیے جو بے پناہ قربانیاں دی تھیں‘ وہ رنگ لے آئیں۔
تب سے لے کر آج تک کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ شایدایرانیوں نے ایسے حالات کے لیے قربانیاں نہیں دی تھیں۔اس وقت ایران مغربی معاشی پابندیوں کی زد میں ہے اور ایرانی ریال کو دنیا کی بدترین کرنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگر سیاسی نظام کی بات کی جائے تو ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ سپریم لیڈرکا ہے جس پر آج تک صرف دو شخصیات ہی براجمان ہوسکی ہیں۔ اِس عہدے پر سب سے پہلے 1979ء میں آیت اللہ روح اللہ خمینی فائز ہوئے تھے جن کی وفات کے بعدسے موجودہ رہبرِ اعظم آیت اللہ علی خامنہ ای سپریم لیڈر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر تمام سکیورٹی فورسز کے کمانڈر اِنچیف ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں سکیورٹی کے معاملات پر بھی کڑی نظر رکھتے ہیں۔ عدلیہ کے سربراہ، نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، نمازِ جمعہ کے لیے آئمہ اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے سربراہان کی تعیناتی کے فیصلے وہی کرتے ہیں۔ بے شماردوسرے اختیارات کے علاوہ سپریم لیڈر منتخب صدر کو برطرف کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے تمام اُمیدواروں کو نگہبان شوریٰ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نگہبان شوریٰ لامحالہ اُنہی اُمیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے جن کی منظوری سپریم لیڈر کی طرف سے آتی ہے۔ 2021ء کے انتخابات میں 590 اُمیدواران انتخاب میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن نگہبان شوریٰ کی طرف سے صرف سات افراد کو اجازت دی گئی۔ نگہبان شوریٰ‘ جس کے نصف اراکین کو تعینات کرنے کا اختیار سپریم لیڈر کے پاس ہے ‘ سمیت اور بھی کئی ایسے ادارے ہیں جو وسیع اختیارات کے حامل ہیں۔ اِن حالات میں صدر اور پارلیمان کی طاقت اور اختیارات محدود ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بہر حال اٹھایا جاتا ہے کہ شہنشاہیت کے دو ر میں شاہِ ایران ہی سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا اور آج سپریم لیڈ ر کی رائے پارلیمنٹ پر بھی مقدم ہے‘ یعنی عوامی حاکمیت کا وہ خواب ابھی پوری طرح شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پہلے شاہ کی سیکولر انتہا پسندی نے ایرانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا تھا ، اب انقلابی قوتوں کی رجعت پسندی عوام کو احتجاج کی طرف لے جا رہی ہے۔ خواتین کو خصوصی طور پر کچھ سخت قوانین کا سامنا ہے۔ 1993ء میں ایرانی پارلیمان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو خواتین مناسب انداز میں سر کو نہیں ڈھانپتیں‘ اُنہیں 74 کوڑوں کی سزا دی جاسکتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد کوڑوں کے ساتھ 60 روز کی قید کا قانون بھی پاس کرلیا گیا۔ موجودہ صدر ابراہم رئیسی نے خواتین کے حوالے سے کئی مزید قوانین نافذ کردیے ہیں۔ خواتین کی نگرانی کے لیے خصوصی کیمرے نصب کیے گئے ہیں تاکہ حجاب کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو سزا دی جاسکے یا پھر اُنہیں کونسلنگ کے لیے بھیجا جاسکے۔ ایسے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کے فرائض گشت ارشاد یونٹ سرانجام دیتا ہے۔ اِس کی طرف سے اکثر خواتین کو حراست میں بھی لیا جاتا ہے جس کے خلاف گاہے گاہے آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ اب ان قوانین کی خلاف ورزیوں پر گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے تو اِن کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا ہے۔ مخالفت اگرچہ پہلے بھی پائی جاتی تھی مگر مہسا امینی کی موت کے بعد تو جیسے لاوا ابل پڑا ہے اور عوام کی قابلِ ذکر تعداد اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں چلنے والی عوامی تحریکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ ہر بار عوام سحر کی لگن لے کر بھرپور جوش و جذبے سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مگر پھر بھی نجانے کیوں عوام کو اپنے خوابوں کی تعبیر میں ہمیشہ کانٹے ہی ملتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں