"FBC" (space) message & send to 7575

یہاں ایسے ہی ہوتا ہے

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا جا چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی کے فوراً بعد ہی یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ نیام ایک ہے اور تلواریں دو۔ ضیاء الحق اقتدار میں تو آچکے تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ طاقت ان کے ہاتھ میں تھی اور مقبولیت کے پلڑے میں ذوالفقار علی بھٹو تھے جو ان سے کہیں بھاری تھے۔ نظامِ مصطفی کی تحریک کے باعث بھٹو کی مقبولیت میں قدرے کمی آئی تھی لیکن وہ اپنی معزولی کے بعد بھی مقبول رہنما تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ طاقتور کی چال نے مقبولیت کے پلڑے کو اُلٹا کر رکھا دیا۔ بھٹو کی معزولی کے تقریباً آٹھ ماہ بعد‘ 18مارچ 1978ء کو محمد احمد خان قصوری قتل کیس میں سزائے موت سنا دی گئی۔ بھٹو صاحب کو زعم تھا کہ اُن کی مقبولیت کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ واقفانِ حال تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ پھانسی دیے جانے سے کچھ پہلے تک انہیں یہ اُمید تھی کہ کوئی نہ کوئی کرشمہ ہو گا اور وہ جیل سے باہر آجائیں گے۔ پھر تین اپریل کی صبح آگئی جب نصرت بھٹو کو پیغام ملا کہ آج وہ اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کے لیے آسکتی ہیں۔ بیگم بھٹو جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد سے پوچھتی ہیں کہ یہ ملاقات کس سلسلے میں ہے؟ جواب ملتا ہے کہ میڈم یہ آخری ملاقات ہے۔ وقت کے بے رحم دھارے نے ملک کے طاقتور ترین شخص کو بیچ منجدھار میں لاچھوڑا تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والی اِس ملاقات میں ایک طرف بھٹو سیل کے اندر فرش پر بیٹھے تھے اور بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو سلاخوں سے باہر بیٹھی تھیں۔ سب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اِس ملاقات کے دوران ذوالفقار علی بھٹونے جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھا کہ کیا یہ آخری ملاقا ت ہے؟جواب ملتا ہے: جی سر! یہ آخری ملاقات ہے۔ سب ختم ہوچکا تھا۔ اگلے ہی روز ملکی تاریخ کا طاقتور اور مقبول ترین شخص پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔
کچھ اِسی طرح کا زعم نواز شریف کو تھا کہ بین الاقوامی سطح پر اپنے تعلقات اور دو تہائی اکثریت جیسے عوامل کی بنا پر وہ مقبول عوامی رہنما بن چکے ہیں۔ اِسی حوالے سے جب اُنہوں نے اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کیے تو نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ پابندِ سلاسل بھی ہوگئے۔ وہ تو اُن کی خوش قسمتی رہی کہ جلد ہی ''معاملات‘‘ طے پاجانے کے بعد وہ عازمِ سعودی عرب ہوگئے ورنہ کچھ بعید نہیں تھا کہ بھٹو جیسا کوئی کیس ان پر بھی بنا دیا جاتا۔ اگرچہ اُن پر بھی بہت سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔طیارہ اغوا کرنے کا کیس ہی کوئی معمولی معاملہ نہیں تھا۔ اِس کیس کی دلچسپ بات یہ تھی کہ طیارہ اغوا کرنے کی ایف آئی آر درج کرانے والا سری لنکا سے آنے والے طیارے کا مسافر بھی نہیں تھا۔ اِس کیس میں نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور کچھ دیگر افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جو دفعات لگائی گئی تھیں‘ ان کے تحت سزائے موت بھی دی جا سکتی تھی لیکن ''نرمی برتتے‘‘ ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ گویا عوامی مقبولیت کا جو زعم تھا وہ اپنی موت آپ مر گیا۔ پرویز مشرف کے بنائے گئے قومی احتساب بیورو نے 1999ء کے اواخر اور 2000ء کے اوائل میں نواز شریف کے خلاف کل 28 مقدمات شروع کیے جن میں سے 15 ناکافی شواہد کی وجہ سے اگلے چار برسوں میں خارج ہو گئے جبکہ باقی نو مقدمات اگلے اٹھارہ‘ بیس سال تک زیرِ تفتیش رہے۔ چند مقدمات اُس وقت بھی زیرِ تفتیش تھے جب معزول کیے جانے کے سترہ سال بعد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ تیرہ ماہ قید میں رہنے کے بعد دسمبر 2000ء میں نواز شریف جلاوطن کر دیے گئے مگر سات سالہ جلاوطنی کے بعد وہ دوبارہ ''گڈ بکس‘‘ میں آ گئے اور پھر چند سالوں بعد تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ افسوس کہ گزشتہ تجربات سے کچھ نہ سیکھتے ہوئے اُنہوں نے ایک مرتبہ پھر پر پرزے نکالنے کی کوشش کی۔ اُنہیں شاید یہ یقین سا ہو گیا تھا کہ وہ قدرت پوری طرح ان پر مہربان ہے، وہ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہو گی مگر جلد ہی ان کی یہ غلط فہمی دور کرنے کا ڈول ڈالا گیا اور شب و روز کی محنت کے بعد 2017ء میں وہ تاحیات نااہل قرار دے دیے گئے۔ اِس لحاظ سے وہ ایک بار پھر خوش قسمت رہے کہ جیل سے نکل کر طبی بنیادوں پر لندن جانے میں کامیاب رہے اور تب سے اب تک وہیں ہیں۔
حسبِ روایت سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی اقتدار کی راہداریوں میں یہ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ اقتدار سے محرومی سے کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ یہ بھی کہتے رہے تھے کہ اُن کے علاوہ کوئی اور چوائس ہی موجود نہیں۔ اُن کا گمان تھا کہ وہ ملک کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ وہی مسئلہ کہ ہم ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ یہ فراموش کر بیٹھے تھے کہ اُن سے پہلے اقتدار سے محروم ہونے والے بھی اسی خوش گمانی کا شکار تھے کہ اب وہ ملک کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے تو ایک پیج‘ ایک پیج کی ایسی گردان شروع کی کہ سب تنگ پڑنے لگے۔ اِس الاپ میں شیخ رشید، فواد چودھری اور اُن کے دیگر احباب بھی شامل ہو جاتے۔ وہ کسی طور بھی یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ یہ سب ''روٹین میٹرز‘‘ ہیں۔ پھر اُن کے ساتھ بھی وہی ہوا جو اُن سے پہلے ہوتا آیا تھا۔ مختلف الخیال سیاسی قوتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں اور پھر پارلیمنٹ کے اندر ہی سے حکومت کی بساط اُلٹ دی گئی۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی عمران خان کو یہ زعم رہا کہ اُن کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اُن کے اِس گمان کو بڑے بڑے جلسوں نے مزید تقویت بخشی کہ حکومت سے بے دخلی کے بعد بھی اُن کے جلسوں میں اتنی کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ''لیڈری‘‘ کے اس زعم کو ٹھیس پہنچی پے درپے آنے والے فارن فنڈنگ کیس، آڈیو لیکس اور اب کرپٹ پریکٹسیز کا مرتکب پاتے ہوئے انہیں ان کی قومی اسمبلی کی سیٹ سے نااہل کرنے کے فیصلے سے۔ اُنہیں قوی یقین تھا کہ جیسے ہی اُن کے خلاف کوئی فیصلہ آئے گا تو پوری قوم سڑکوں پر نکل آئے گی لیکن ہوا کیا؟ چند ایک شہروں میں درجنوں کی تعداد میں کچھ لوگ باہر ضرور نکلے‘ احتجاج ریکارڈ کرایا اور اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ اس احتجاج کی صورتحال اتنی ماٹھی رہی کہ اُنہیں خود احتجاج ختم کرنے کی اپیل کر کے اپنا بھرم قائم رکھنا پڑا۔ اُمید ہے کہ اب اُن پر اپنی ''لیڈری اور مقبولیت‘‘ کا بھرم کھل چکا ہو گا۔ اِ س صورت حال پر بہرحال افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیسے ہم سیاسی حکومتیں ختم ہونے پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ جب نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا تو تب عمران خان اور اُن کی جماعت بغلیں بجاتی رہی۔ تحریک انصاف کی طرف سے خوشیاں منائی گئیں کہ نواز شریف اب کبھی عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ خوشیاں عمران خان کے خلاف آنے والے فیصلے پر بھی منائی گئیں مگر فرق یہ تھا کہ اب چہرے تبدیل ہو چکے تھے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے جن شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دیا‘ ان پر کوئی دو رائے نہیں لیکن فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب عمران خان مقبولیت کے ریلے میں سب کچھ روندتے چلے جا رہے تھے۔
2017ء میں تحریک انصاف خوشیاں منا رہی تھی تو اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں حالیہ فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہیں۔ یہ ہماری سیاست کا المناک پہلو رہا ہے کہ جب بھی سیاسی حکومتوں کے خلاف کوئی غیر آئینی اقدام کیا گیا تو اس کے لیے اپنے کندھے بہرحال سیاست دان ہی پیش کرتے آئے ہیں۔ یہی سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو سلطانیٔ جمہور کا نعرہ لگاتے ہیں مگر جب حکومت میں ہوتے ہیں تو دوامِ اقتدار کے لیے ہر صحیح غلط اقدام پر تیار ہو جاتے ہیں۔ بس وقت بدلنے کی دیر ہوتی ہے‘ نہ صرف نظریات بلکہ زبانیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اب تو ایسی صورتحال پر زیادہ حیرانی بھی نہیں ہوتی کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی چلتا رہے گا۔ یہی یہاں کا نظام ہے اور ایسی ہی ہیں ہماری سیاسی روایات۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں