"FBC" (space) message & send to 7575

ایک طرف محبتیں‘ دوسری طرف نفرتیں

عمر یہی کوئی 85 سے 90 سال کے درمیان ہو گی۔ وہ واکنگ چیئر کے سہارے لاہور کے گوردوارہ ڈیرہ صاحب سے آہستہ آہستہ باہر آ رہی تھیں۔ اُن کے اِرد گرد اُن کے عزیز و اقارب خاصی تعداد میں دکھائی دے رہے تھے۔ گوردوارے میں بابا گرو نانک جی کے 553ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سکھ یاتریوں کی بڑی تعداد دکھائی دے رہی تھی۔ اتنے زیادہ یاتریوں میں وہ معمرخاتون ہی سب سے زیادہ خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ اُن کی خوشی چہرے سے ایسے بے اختیار ٹپک رہی تھی کہ اس خوشی نے ہمیں اُن کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ جیسے ہی اُن کے پاس پہنچ کر اپنا تعارف کرایا‘ اُن کا حال احوال پوچھا تو بات ایسے چل نکلی کہ پھر کھڑے کھڑے کم از کم ایک گھنٹے تک اُن سے گفتگو چلتی رہی۔ پیرانہ سالی کے باوجود وہ خاتون بغیر تھکاوٹ کے کھڑی رہیں کیونکہ موضوعِ گفتگو ہی کچھ ایسا تھا۔ دورانِ گفتگو معلوم پڑا اُن کا نام ہرپریت کور ہے اور وہ تقسیمِ ہند سے قریب دس سال پہلے سرگودھا کے قریب 29 چک میں پیدا ہوئی تھیں۔ جیسے ہی بات اُن کی جنم بھومی کی آئی تو پھر جیسے صرف وہی بولتی رہیں اور ہم سب اُن کو سنتے رہے۔ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اُنہوں نے شاید ہی لمحہ بھر توقف کیا ہو۔ وہ بتا رہی تھیں کہ کس طرح وہ اپنی مسلم سہیلیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں‘ تب کیسا پیار محبت کا ماحول ہوا کرتا تھا۔ ہمارے یہ پوچھنے پر کہ وہ اتنی خوش کیوں دکھائی دے رہی ہیں‘ اُن کا جواب تھا کہ مجھے اپنا آبائی گاؤں دیکھنے کا موقع مل گیا ہے اور میں وہاں کئی گھنٹے گزار کر آئی ہوں۔ یہ بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولیں ''پتر! تم کیا جانو اپنی جنم بھومی سے دوری کا غم کیا ہوتا ہے۔ میرا یقین کرو‘ شاید ہی کوئی رات ایسی گزری ہو کہ جب بستر پر لیٹتے ہی میری آنکھوں میں میرا گاؤں‘ میرے گھر کا نقشہ نہ گھومتا ہو، آج میں امریکہ میں رہتی ہوں، خدا کا دیا سب کچھ ہے لیکن اپنے آبائی وطن کو دیکھنے کی خواہش نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی دم نہیں توڑا، آخر کار مجھے اپنا آبائی گاؤں دیکھنے کو موقع مل گیا لیکن وہاں کوئی ایسا نہ مل سکا جس کے ساتھ میں اپنے بچپن کی یادیں تازہ کر سکتی‘‘۔
ان باتوں کے بعد اُن سے بات کرنا مشکل ہو گیا۔ اِس منظر نے اردگرد کھڑے دوسرے احباب کو بھی آبدیدہ کر دیا۔ تھوڑی طبیعت سنبھلی تو وہ پھر گویا ہوئیں ''پتر! میں یہاں آکر بہت خوش ہوں، مجھے ہر جگہ اتنا پیار ملا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی، میں پاکستان میں اپنے آبائی گاؤں میں گئی تو وہاں کوئی میرا جاننے والا نہیں تھا لیکن صرف تعارف کرانے کی دیر تھی کہ پورا گاؤں میرے اردگرد جمع ہو گیا، ہرکسی کی خواہش تھی کہ میں اُس کے گھر جاؤں، اُس کے ہاں سے کھانا کھاؤں لیکن وقت بہت تھوڑا تھا اِس لیے میں کچھ ہی گھنٹے وہاں گزار سکی‘‘۔ اردگرد کھڑے دیگر یاتری بھی گفتگو میں شامل ہو چکے تھے۔ اُن سب کا یہی کہنا تھاکہ اُنہیں یہاں اتنا پیار ملتا ہے کہ بیان سے باہر ہے‘ وہ جہاں بھی گئے لوگوں نے اُنہیں پلکوں پر بٹھایا۔ جو سکھ یاتری پہلی بار پاکستان آئے تھے‘ اُن کی طرف سے تسلیم کیا گیا کہ یہاں آنے سے پہلے کچھ خدشات ضرور موجود تھے لیکن یہاں آ کر اُنہیں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی خوف محسوس ہوا اور نہ ہی کوئی اجنبیت۔ مختصر یہ کہ ہر کوئی اہلِ پاکستان کی مہمان نوازی کی تعریف کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ سب کچھ سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے مہمان ہمارے بار ے میں اتنے مثبت جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ سب لوگ حکومتی انتظامات پر بھی بہت خوش دکھائی دیے حالانکہ اِس مرتبہ بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک سے سکھ یاتریوں کی ریکارڈ تعداد پاکستان پہنچی تھی۔ 8 نومبر کو گوردوارہ جنم استھان میں ہونے والی مرکزی تقریب میں 20 ہزار کے قریب یاتریوں نے شرکت کی تھی۔ بلاشبہ اتنی بڑی تعداد کے لیے بھرپور انتظامات کرنے پر وزارتِ مذہبی اُمور اور متروکہ وقف املاک بورڈ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہم نے خود بھی جنم استھان ننکانہ صاحب اور گوردوارہ ڈیرہ صاحب میں ہونے والی تقریبات کے دوران تمام انتظامات کا جائزہ لیا جن میں کوئی کمی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ یہ پاکستانیوں کے پیار‘ محبت اور حکومت کے اچھے انتظامات کا ہی سبب ہے کہ اب ہر سال پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف بھارتی حکومت کا سرد رویہ ہے کہ اس کی جانب سے ہمیشہ پاکستانی زائرین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ 1974ء میں دونوں ممالک میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت دونوں ملکوں کے شہریوں کو مذہبی بنیادوں پر ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔ بھارت سے سکھ یاتری ہر سال بابا گرو نانک جی کے جنم دن، بیساکھی میلے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی، گرو ارجن دیو کے شہیدی دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ سکھ یاتریوں کے علاوہ ہندو یاتری بھی سال میں کم از کم تین مرتبہ کٹاس راج اور میر پور ماتھیلو میں ہونے والی اپنی مذہبی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ اِن سب کے لیے بہترین انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سے زیادہ تر زائرین اجمیر شریف میں حضرت معین الدین چشتی، دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا اور کلیر میں صابر پیا کے عرس کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت جاتے ہیں۔ مودی سرکار کے گزشتہ چھ سالوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا موقع آیا ہو جب بھارتی حکومت نے پاکستانی زائرین کو ویزے دینے میں لیت و لعل سے کام نہ لیا ہو۔ امسال ماہِ فروری میں اجمیر شریف جانے کے خواہشمندوں کو عین وقت پر ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ ملک کے دور درازعلاقوں سے بھارت جانے کے خواہشمند لاہور پہنچ چکے تھے جہاں اُنہیں بھارتی ویزہ لگے پاسپورٹ دیے جانے تھے لیکن عین وقت پر بغیر کوئی وجہ بتائے ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اِس معاملے کو حکومتی سطح پر بھارت کے ساتھ اُٹھایا بھی گیا لیکن مرغے کی وہی ایک ٹانگ۔ بھارت کے ایسے رویوں پر حیرانی ہوتی ہے کہ کیسے وہ ایک طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ اگر کبھی پاکستانی زائرین وہاں جانے میں کامیاب ہو جائیں تو وہاں اُنہیں انتظامات کی کمی کے ساتھ ساتھ معاندانہ رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے باعث بہت کم پاکستانی زائرین بھارت جا پاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو جیسے پاکستان کی طرف سے معاہدے کے مطابق طے شدہ تعداد کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں‘ ویسا ہی طرزِ عمل ہمیں بھارت کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملے۔ بھارتی حکومت کے اِسی معاندانہ رویے کے باعث اب دونوں ممالک کے تعلقات میں انتہائی کڑواہٹ پیدا ہو چکی ہے۔ ہماری طرف سے تو ہمیشہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف سے ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک مرتبہ بھارت میں اپنی جائے پیدائش کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہرپریت کور تڑپ رہی تھیں۔ جن کی کبھی کوئی رات ایسی نہیں گزری کہ جب اُن کے گاؤں اور گھرکا نقشہ اُن کی آنکھوں میں نہ گھومتا ہو۔ اُنہیں تو یہاں آنے کا موقع مل گیا اور وہ اپنی جائے پیدائش بھی دیکھ آئیں۔ کتنی اچھی بات ہو کہ دونوں اطراف کی حکومتیں سنجیدگی سے ایسے افراد کی بابت سوچیں جو ایسے موقع کی تلاش میں تڑپ رہے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہاں سے کوئی اسّی‘ پچاسی سالہ شخص بھارت جاتا ہے تو اُس سے بھلا کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ جب باہمی میل ملاقاتوں میں اضافہ ہو گا تو اِس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ دونوں کے مابین برف پگھلے گی اور خطے میں پائی جانے والی کشیدگی دور ہو گی جس کے مثبت اثرات لامحالہ دونوںممالک کی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔ بس ذرا اپنی سوچوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمسایے تو بہرحال تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ رہنا تو دونوں ممالک نے ساتھ ساتھ ہی ہے تو پھر جتنی جلدی اس حقیقت کو قبول کر لیا جائے‘ اُتنا ہی خطے کے عوام اور خود دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں